شاہِ غزل «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • شاہِ غزل

    تحریر: ابنِ ریاض

    فنونِ  لطیفہ کی وہ شخصیات جو ہماری پیدائش سے پہلے انتقال کر گئیں ان میں استاد امانت علی خان پسندیدگی کے لحاظ سے ابتدائی نمبروں پر ہیں ۔وہ ہماری پیدائش سے ڈھائی سال قبل ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر چکے تھے مگر ہمارے بچپن اور لڑکپن کے ایام میں پی ٹی وی پر ان کی ریکارڈ شدہ غزلیں چلا کرتی تھیں۔  ان دنوں ہمیں نظم وغزل کا امتیاز بھی معلوم نہ تھا بس موسیقی اور آواز اچھی لگتی تھی۔ ان کا گانے کا انداز اور الفاظ کی ادائیگی ہی پر ہم واہ واہ کرتے تھے۔

    موسیقی ہمارا میدان نہیں سو اس کی تکنیکی باتیں ہم نہیں جانتے مگر یہ ہم نے دیکھا ہے کہ گانے اور ترانے قریب قریب ہر گلوکار گاتا ہے مگر غزل کم کم لوگ ہی گا  پاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ اسلوب ہو کہ نظم میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور تمام اشعار اس سے یوں بندھے ہوتے ہیں جیسے زنجیر کی کڑیاں۔ اس کے برعکس غزل میں ہر شعر دوسرے سے یوں الگ جیسے پانی کی تقسیم یا کالا باغ ڈیم کے معاملے  پر پاکستانی صوبے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل گائیکی میں چند ہی نام معروف ہوئے ہیں جیسے مہدی حسن صاحب اور بھارت میں جگجیت سنگھ۔۔ امانت علی خان کلاسیکل گلوکار تھے اور انھون نے تربیت بھی اسی میں حاصل کی۔ مگر غزل گائیکی میں بھی  انھوں نے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔

    اگرچہ انھوں نے بہت کم گایا اور انٹرنیٹ پر بھی ان کی بمشکل پانچ چھ غزلیں ہی موجود ہیں مگر جو بھی ہیں وہ سب کمال اور ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ‘یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے ‘ خواجہ حیدر علی آتش کی غزل ہے ۔یہ غزل ہمارے اردو کے  نصاب میں بھی شامل رہی ہے اور یہ  امانت علی خان کی گائی ہوئی پہلی غزل ہے جس کے بعد انھوں نے کئی کامیاب غزلیں اپنے نام کی۔

    آ میرے پیار کی خوشبو منزل پہ تجھے پہنچائے  (قتیل شفائی)

    موسم بدلا رت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے’ ظہیر کاشمیری کا کلام ہے جسے انھوں نے گایا اور کیا ہی خوب  گایا۔ ہماری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک ہے یہ۔

    ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے۔( ادا جعفری)

    میری داستان حسرت  وہ سنا سنا کے روئے’ (سیف الدین سیف)

    یہ تمام غزلیں آپ پہلے پڑھیں اور پھر امانت علی خان کی آواز میں سنیں۔ آئندہ پوری زندگی آپ غزل کے بول سنیں تو امانت علی خان کی آواز از خود آپ کے کانوں میں رس گھولنے لگی گی۔ گلوکار کا کسی شاعری کو مشہور کرنے میں کیا کردار ہوتا ہے اسکا تذکرہ فیض صاحب نے کسی سے کیا تھا۔ کون صاحب تھے ہمیں ان کا نام یاد نہیں مگر انھیں فیض صاحب نے بتایا تھا کہ ان سے مشاعروں میں اکثر کہا جاتا ہے کہ جناب وہ مہدی حسن والی غزل سنا دیں۔ اوپر بیان کی گئی سبھی غزلیں ایسی ہیں کہ جنھیں بلاشبہ  کہا جا سکتا ہے کہ یہ امانت علی خان کی غزلیں ہیں حتٰی کہ درج ذیل غزل جو ہماری پسندیدہ شخصت کی ہے اس کو مقبول عام کرنے میں استاد امانت علی کی آواز اور سوز کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

    ‘انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو’ یہ وہ غزل ہے کہ جو نہ صرف امانت علی خان کی بلکہ ابن انشاء کی بھی پہچان بن گئی۔ ابن انشاء نے اور بھی بہت کچھ لکھا مگر امانت علی خان کی آواز میں یہ غزل شہر شہر قریہ قریہ نہ صرف پہنچی بلکہ زبان زد عام بھی ہو گئی۔۔  اس کا تذکرہ اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کرتے ہوئے ابنِ انشاء نے  تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے یہ غزل اتنی اداس کیفیت میں نہیں لکھی تھی۔ اس میں درد اور گداز  صاحب کمال گلوکار کا ہے۔اس غزل کے متعلق ایک غلط فہمی نے بھی جنم لیا  کہ اس غزل کے لکھنے کے بعد انشاء جی وفات پا گئے اور جب امانت علی خان نے گایا تو وہ بھی وفات پا گئے۔ حالانکہ امانت علی خان نے 1974 میں وفات پائی جبکہ ابن انشاء نے 1978ء میں کوچ فرمایا۔

    انھوں نے فلمی گانے زیادہ نہیں گائے تاہم’مورا جیا نہ لگے بن تیرے یار’ ایک بہت ہی خوبصورت گانا ہے جو وحید مراد پر عکس بند ہوا۔ اس کے علاوہ استاد امانت علی خان کی مدھرآواز میں    کرم حیدری کا لکھا ہوا خوبصورت ملی نغمہ ‘ اے وطن پیارے وطن پاک وطن’ آج بھی پاکستان کے خوبصورت ترین ملی نغموں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک اور زبان زدِ عام ملی نغمہ ‘چاند میری زمیں۔پھول میرا وطن’ بھی استاد امانت علی خان کی آواز میں ہی امر ہے۔

    ان کے بیٹے اسد امانت علی خان نے بھی اپنے والد کےنقش قدم پر چلتےہوئے کلاسیکی  موسیقی میں اپنا نام پیدا کیا۔ انھوں نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد کبھی سالگرہ نہیں منائی کیونکہ ان کی سالگرہ اور والد کی وفات کی تاریخ ایک ہی ہے یعنی 18 ستمبر۔ اسد امانت علی 2007 میں وفات پا گئے تھے۔ باپ بیٹا دونوں ایک ہی قبرستان میں مدفون ہیں بلکہ سر عام کے ایک پروگرام میں بتایا گیا تھا کہ اسد اور ان کی والدہ ایک ہی قبر میں آرام فرما ہیں۔

    استاد کا لقب  موسیقی میں وہی مقام رکھتا ہے جو انگریز دور میں ‘سر’  کو حاصل تھا یعنی شاندار خدمات کے اعتراف میں کسی کو سر کا لقب دیا جاتا تھا جیسے سر علامہ اقبال۔ اسی طرح موسیقی کے میدان میں شاندار خدمات کا اعتراف نام سے قبل ‘استاد’لگا کر کیا جاتا ہے اور بلاشبہ امانت علی خان اپنے فن کے استاد تھے۔

    ٹیگز: , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔