پاکستان ہاکی اور ویسٹ انڈیز کرکٹ میں قدرِ مشترک(حصہ دوم) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستان ہاکی اور ویسٹ انڈیز کرکٹ میں قدرِ مشترک(حصہ دوم)

     پیسہ بولتا ہے

    تحریر: ابنِ ریاض

    اس زوال کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ اب دونوں ٹیموں  میں اس معیار کےکھلاڑی  نہیں آ رہے کہ جس معیار کے کھلاڑی  کبھی ان کا خاصہ تھے۔ اب  بین الاقوامی معیار کے کھلاڑی نہ ہونے کی کچھ وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ  پیسہ ہے۔ 1990 ء کی دہائی سے قبل کرکٹ ، ہاکی ، فٹبال ، سکواش اور دیگر کھیل  محض کھیل اور تفریح تھے۔  کھلاڑیوں کا پیشہ نہیں تھا۔ کھلاڑی  مختلف  محکموں اور بینکوں  میں اپنے کھیل کی صلاحیت پر نوکری حاصل  کرتے تھے اور یہ ادارے  بھی کھیلوں کی سرپرستی کرتے تھے اور ملک میں ہونے والے ٹورنامنٹس میں حصہ لیتے تھے۔   کرکٹ اور ہاکی  کی بھی یونہی سرپرستی ہوتی تھی۔  باصلاحیت  کھلاڑیوں کو مختلف محکمے  نوکری    دیتے تھے۔  اب  اداروں میں تو پے سکیل ہوتے تھے تو  ایک  عہدے کے کھلاڑیوں کی تنخواہ  قریب قریب  برابر  ہوتی تھی۔  بس کھلاڑیوں  کے دوروں اور میچوں   کے حساب سے  فیس  اور ٹی اے ڈی  اے کا فرق ہوتا تھا۔  سو تنخواہ  میں گزارا  ہو جاتا تھا کہ ضروریات محدود تھیں۔  نہ موبائل تھے، نہ انٹرنیٹ ۔نہ بچوں کا دودھ نہ پیمپرز۔ کوکا  کولا  اور نہ فاسٹ فوڈز۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں نمود و نمائش  اور  ایک دوسرے سے آگے بڑھنے  کی ہوس  بھی ایسی نہیں تھی کہ جو اب ہے۔سو جس  میں جو صلاحیت ہوتی تھی  وہ  اپنے میلان کے مطابق وہ کھیل منتخب کرتا تھا اور  اگر قسمت  میں ہوتا تو اس میں آگے تک جاتا تھا ورنہ  کلب  اور دیگر  اندرون  ملک مقابلے  اس کا مقدر رہتے۔
    1986ء  تک کرکٹ اور ہاکی ایک ساتھ چلتے رہے۔  سکولوں میں کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے اور ان میں کرکٹ اور ہاکی دونوں ہی شامل تھیں۔  1990ء تک  کرکٹ میں ون ڈے کا  ٹورنامنٹ  ولز سگریٹ والوں کے اشتراک کے باعث  ‘ولز کپ ‘ ‘  کہلاتا تھا تو  قومی ہاکی چیمپئن شپ نیشنل بینک کے تعاون  سے ہوتی تھی۔کچھ لڑکے کرکٹ میں حصہ پاتے  تھے تو کسی  کے نصیب میں ہاکی آتی۔تاہم 1986ء  میں  ہاکی  میں پاکستان  کے دونوں ٹورنامنٹ( جن کا  پچھلے کالم میں ذکر ہوا )یعنی کہ ایشیائی کھیلوں  منعقدہ کوریا  اور عالمی کپ منعقدہ  لندن  میں از حد ناقص رہی تو  یہی وہ سال تھا کہ جب جاوید  میانداد  نے آسٹرل ایشیا کپ کے فائنل میں چیتن شرما کو  آخری بال پرچھکا لگا کرہاری ہوئی بازی  پاکستان  کے حق میں کر دی۔ یہ محض ایک چھکا  نہیں تھا یہ کرکٹ میں پاکستان کے سنہرے دور کا آغاز تھا ۔  کیونکہ اگلے  چند سالوں میں پاکستان  نے نہ صرف بھارت کو بھارت میں شکست دی اور انگلینڈکو انگلینڈ میں  بلکہ کئی  ٹورنامنٹس بھی جیتے۔ جن میں نہرو کپ  1989ء  اور عالمی کپ 1992ء  سرفہرست ہیں۔اس عرصے  میں پاکستان ہاکی زوال پذیر ہی رہی۔کوئی قابلِ ذکر کامیابی  پاکستان ہاکی نے نصیب میں آئی اور نہ ہی ویسٹ انڈیز  کرکٹ  کے۔
    1990ء  کے عشرے میں  جب  ٹیلیویژن  کے حقوق   آئے  توکھیل  تفریح نہ رہے، یہ ایک  انڈسڑی  اور صنعت بن گئے۔  کہاں سال میں ایک دو  ٹورنامنٹ  یا سیریز ہوتی تھیں اور اب یہ عالم کہ ہر ماہ ہی   کہیں نہ کہیں  میچ  چل رہا ہوتا بلکہ  ماہ کیا ہر روز کی بات کریں ۔اس میں بے انتہا  پیسہ شامل ہو گیا  اور کھلاڑی  بھی پیشہ ور  ہو گئے  کہ اب انھیں  اداروں کی  نوکریوں کی ضرورت نہ رہی بلکہ یہ کہنا  بےجا نہ ہو گا کہ کھیلوں کی اس قدر بہتات  کے باعث ان کے پاس  دیگر نوکریوں کے لئے وقت نکالنا ہی مشکل ہو گیا۔
    تا ہم ویسٹ انڈیز کی کرکٹ اور پاکستان کی ہاکی اس سے محروم رہی ۔ ان کے کھلاڑی اس بہتی گنگا  میں ہاتھ نہ دھو سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ  ان دنوں زوال کا شکار تھے اور ہر سیریز  میں کارکردگی پہلے سے ابتر ہو رہی تھی۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو کوئی اچھا  سپانسر  نہ ملا۔ یوں بھی ہارے ہوئے گھوڑے پر کوئی شرط نہیں لگاتا  کہ یہی دنیا کا اصول ہے۔  رقم لگانے والا دیکھتا ہے کہ اس میں اسے  منافع کتنا ہو  رہا ہے اور جہاں واپسی کا امکان نہ ہو  وہاں رقم لگانے کا فائدہ۔
    چونکہ  اسپانسرز نہیں تھے ان دونوں کھیلوں کے لئے اور نہ ہی ا دوران  کوئی ایسی  جیت نصیب ہوئی کہ جو کسی سپانسر کو  رقم لگانے پر مائل کرتی تو  ہوا یہ کہ  جو تھوڑی بہت رقم  ان کھیلوں کو مل رہی تھی، اس سے بھی یہ دونوں بورڈ ہاتھ دھو بیٹھے۔
    جب  دیکھا   کھیلنے والوں نے کہ انھیں  کھیل  سے کچھ نہیں مل رہا تو وہ  کب تک   مفت کی بے گار جھیلتے۔ انھوں نے بھی دوسری  راہیں تلاش  کیں۔ گھر والوں نے  بھی ان کھیلوں میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اس کا اندازہاس بات سے لگائیں کہ پاکستان کے کسی ہاکی کے کھلاڑی کا بیٹا   اس کھیل  میں نہیں آیا۔ اک مثال تنویر ڈار اور توقیر ڈار  کی ہے مگر وہ ستر کی دھائی  کی ہے کہ  جب  کھیلوں میں  اس قدر تفاوت نہیں تھا۔ اس کے برعکس کرکٹ میں دیکھیں  تو ماجد خان  کے بیٹے بازید خان، عبدلقادر کے بیٹے اور اکمل برادران  اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کھیل میں کتنا پیسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکے  کرکٹ  میں تو آنا چاہتے ہیں مگر ہاکی میں نہیں۔
    ویسٹ انڈیز میں ہاکی نہیں  کھیلی جاتی مگر وہ لمبے قد اور بھاری بدن کے لوگ ہیں  یعنی کہ قدرتی اتھلیٹ۔ سووہ باسکٹ بال کےلئے بہت بہترین ۔  اب جب کرکٹ میں پیسہ نہیں تو وہ  باسکٹ بال کی طرف مائل ہوتے ہیں اور باسکٹ  بال امریکہ  کاایک مقبول عام کھیل ہے۔ ویسٹ انڈیز کے ممالک سمندر سے  امریکا کے ہمسائے ہیں سو وہ اپنی باسکٹ بال صلاحیت کی وجہ سے ان کے کلبوں  میں شامل ہوتے ہیں اور  ان معاشی مسائل سے نجات پانے کے ساتھ ساتھ کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

    (جاری ہے)

     

    ٹیگز: , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔