تحریر: ابنِ ریاض
گزشتہ ماہ نو ستمبر کو سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے بچوں کے سامنے زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد اس ایک ماہ میں قریب روز ہی اخبار میں زیادتی کی خبریں دکھائی دیں۔ بارہ ستمبر کو تونسہ میں خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی خبر تھی۔ سولہ ستمبر کو تین خبریں تھیں۔ملزمان کا مروہ کے قتل اور زیادتی کا اعتراف۔پیرودھائی میں تین بچوں کی ماں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اور کراچی میں جسمانی و ذہن معذور لڑکی سے زیادتی۔ سترہ ستمبر کو گوجرانوالا میں خاتون اور لڑکی کے ساتھ زیادتی۔ قصور میں بیوہ سے زیادتی۔ اٹھارہ ستمبر کی خبر کہ بہاولپور میں زیادتی کا شکار لڑکی کی انصاف نہ ملنے پر خودکشی۔ انیس ستمبر کو کالا شاہ کاکو میں شوہر کے سامنے خاتون سے زیادتی۔بیس ستمبر کو بوریوالہ،شیخوپورہ اور راولپنڈی سے زیادتی کی خبریں ہیں۔ یہ وہ خبریں ہیں جو رپورٹ ہوئیں اور ہماری نظرسے بھی گزریں کیونکہ یہ ایک ہی اخبار کے ایک کے ابتدائی صفحے پر ایک ہی مقام پر تھیں۔ آج ابھی ایک خبر پڑھی کہ چارسدہ میں ڈھائی سال کی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اور اس کا پیٹ بھی چاک تھا۔ اور ابھی سترہ منٹ پہلے کی رپورٹ ہے کہ ایک نرس کو کلینک کے اندر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اسی سال کے آغاز میں اسلام آباد میں ایک تیرہ سال کی بچی سے اسی کے گھر میں زیادتی اور پھر اس کی اولاد کا کیس بھی گزر چکا ہے۔قصور والی زینب کے بعد سینکڑوں بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی معاملہ کوئی قابل تقلید نہیں۔ جاوید اقبال نامی مجرم نے سو بچوں کو قتل کر کے اس کا اعتراف کیا تھا۔ پھر قصور کے بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے انھیں پورنوگرافی کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ بردہ فروشی کے واقعات اور ہسپتال سے نومولودوں کا غائب کر دینے کی خبریں اکثر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور یہ سب ثابت کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں بس جنگل کا قانون ہے جس میں طاقتور کو حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے اور معاشرتی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ کمزور اور ناتواں طبقے (خواتین و بچے) ظالموں بلکہ جانوروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
جب موٹروے والا کیس ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے خاتون پر الزام دھردیا تھا کہ اگر وہ آدھی رات کو بغیر پٹرول اور اکیلی نہ نکلتی تو یہ واقعہ نہ ہوتا مگر اوپر درج اکثرواقعات گھروں میں موجود خواتین کے ساتھ بھی ہوئے ہیں۔ خواتین اپنے شوہر کے ساتھ اور چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم خواتین اور بچوں کے حوالے سے دنیا کے غیر محفوظ ترین ملکوں میں شامل ہیں۔
اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔ قوانین تو یقیناً ہیں اور خواتین و بچوں کے حقوق کی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا قوانین پرکماحقہ عمل ہو رہا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے سو حکومت کا کام ہے کہ خواتین و بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ مجرم پکڑنے کے لئے جدید سائنسی طریقوں سے استفادہ کیا جائے اور اگر مجرم نہ پکڑا جائے تو اس علاقے کا ایس ایچ او اس کا ذمہ دار ہو۔سزا سے ہی عبرت ملتی ہے۔ ہم نے کامرہ میں بیس اکیس برس گزارے۔ وہاں ان سالوں میں دو مرتبہ ایسے کیس ہوئے۔ ہم مخلوط تعلیمی ادارےمیں پڑھتے تھے تاہم کلاس کے علاوہ لڑکیوں سے بات چیت کی شدید حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور ایسا کرنے والے کو سختی سے سرزنش کی جاتی تھی۔ تاہم ایک مرتبہ ہم نے سنا کہ ایک لڑکے نے لڑکی کے ساتھ کچھ غلط کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے والدین کو بتایا۔ اگلے روز والدین نے سکول میں شکایت کی۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ لڑکے کو پہچان سکتی ہے تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ لڑکی کو ایک کمرے میں کھڑکی کے سامنے بٹھا دیا گیا تاکہ وہ باہر دیکھ سکے مگر کوئی اسے نہ دیکھ سکے۔پھر تمام لڑکوں کو لائن بنا کر اس لڑکی کے سامنے سے گزارا گیا۔لڑکی کو کہا گیا کہ جب وہ لڑکا سامنے آئے توبتائے۔ اس نے جب شناخت کیا تو اس لڑکے کو الگ کرلیا گیا۔ پھر اس کو بہلا پھسلا کر اس سے تسلیم کروایا گیا کہ وہ اس حرکت کا مرتکب ہوا ہے۔ اسی وقت اس کے والدین کو بلایا گیا اور اس کے کریکٹر سرٹیفیکیٹ پرخارج لکھ کر بچے کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔ دوسرے کیس میں ایک حافظ قرآن نوجوان لڑکا کچھ بچوں سے بد فعلی کرتا تھا۔ اس کے خلاف کسی نے شکایت لگا دی۔ تفتیش پر شکایت درست ثابت ہوئی تو اس کے والدین کو بلا کر انھیں شام تک کیمپ چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ یہاں کچھ لوگ کہیں گے کہ والدین کو کیوں سزا دی گئی تو ہمارے خیال میں بالکل درست کیا گیا۔ بچوں کی تربیت کرنا اور ان کی صحبت سے خبردار رہنا یقیناً والدین کی ذمہ داری ہے۔اگر بچے اچھا کام کریں تو والدین کو کریڈٹ ملتا ہے تو غلط حرکات پر بھی تو بری الذمہ نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ایسا نہ کرے تو کیا ہم لوگوں کی اپنی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ ہماری خواتین و بچوں کو اللہ نے ہماری رعیت بنایا ہے اور اس بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ خواتین صرف گھر کی ہی نہیں بلکہ بقول حالی کے قوموں کی عزت ہوتی ہیں۔خواتین کے معاملے میں تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو عادی بنائیں کہ نقل و حرکت گھر والوں کے ساتھ ہو ۔ دوستوں کے گھروں میں بلاضرورت نہ جائیں۔اگر جانا ضروری ہو تو گھر والوں میں سے کوئی ساتھ ہو۔ جن دوستوں کو آپ کے گھر والے نہیں جانتے ان کے ساتھ باہر کے پروگرام بنانے سے گریز کریں۔سفر کے لئے ویران رستوں سے اجتناب کیا جائے اگرچہ وہ آسان اور چھوٹے ہوں ۔کچھ لڑکیاں اس کو پابندی سمجھتی ہیں مگر اکثریت جانتی ہے کہ یہ پابندی نہیں بلکہ ان کا تحفظ ہے۔انھیں اتنا اعتماد دیا جائے کہ سکول،آفس محلے میں یا کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو تو وہ بلا جھجک اپنے گھروالوں سے بیان کر سکیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انھیں کوئی تنگ کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ اس لئے نہیں بتاتی ہیں کہ گھر والے الٹا ان پر پابندی لگا دیں گے۔ پھرجب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
بچے انسان کی سب سے قیمتی متاع ہوتے ہیں۔ بچے سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔نقدی زیوات ہم دروازوں میں اور تالوں میں رکھتے ہیں۔آج تک کسی نے پچاس روپے کا نوٹ سڑک پر نہیں چھوڑا لیکن اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی بچوں کو ہم چیزیں لینےیا کھیلنے کے لئے گھر سے باہر بھیج دیتے ہیں۔قصور والی زینب ہو یا آج قتل ہونے والی دونوں کو گھر کے اندر سے نہیں اٹھایا گیا۔بچہ گلی میں بھی جائے تو اس کے ساتھ کوئی ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ بچوں میں موبائل کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اگر ان کا سکول یا کالج دور ہے تو ان کے کلاس ٹیچر، ڈرائیور اور قریبی دوستوں کے گھر والوں کا نمبر والدین کے پاس ہو تا کہ اگر بچہ بر وقت گھر نہ آئے تو رابطہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ بچوں کے دوستوں کا والدین کو علم ہو تا کہ اندازہ ہوسکے کہ بچے کی صحبت کیسی ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ پر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔بچوں کوپابند کیا جائے کہ وہ کہیں جائیں تو بتا کر جائیں کہ کس کے گھر اور کتنی دیر کے لئ جا رہے ہیں۔ یہ بالکل قریبی گھروں کے لئے ہے۔ یہاں بھی بہتر یہی ہے کہ والدین خود لینے اور چھوڑنے جائیں۔رات کے وقت بچوں کے نکلنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور انھیں مغرب سے پہلے گھر آ جانے کی عادت ڈالی جائے۔
امید ہے کہ ان اقدامات سے ایسے مکروہ واقعات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اکتوبر 9th, 2020
زمرہ: سنجیدہ تحریریں, سنجیدہ کالمز تبصرے: کوئی نہیں