دلدار پرویز بھٹی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • دلدار پرویز بھٹی

     تحریر :ابنِ ریاض

    دلدار پرویز بھٹی بھی وہ شخصیت تھے جن سے ہمارا تعارف بذریعہ پاکستان ٹیلی ویژن بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ سٹیج شوز کے میزبان تھے۔اس زمانے میں مختلف شوزکی میزبانی میں معین اختر، انور مقصود، نعیم بخاری، طارق عزیز، مستنصر حسین جیسے باکمال اور متنوع لوگ موجود تھے اوران کے درمیان اپنی الگ شناخت تسلیم کروانا کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر دلدار صاحب نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ بالخصوص رواں اور شستہ پنجابی تو ان کی پہچان تھی۔

     انگریزی میں ماسٹرز  کیا اور پھر بطور لیکچرر مختلف کالجوں میں خدمات سرانجام دیں۔ تاہم ان کا شوق سٹیج شوز تھا۔ ٹی وی پر بطور نیوز کاسٹر آئے تھے اور پھر کچھ عرصہ خبریں بھی پڑھیں۔ ہمیں یاد آیا کہ طارق عزیز صاحب کا ٹی وی کا سفر بھی  بطور اناؤنسر شروع ہوا تھا۔  ان دو شخصیات سے ہم نے سیکھا کہ جب تک اپنے مطلب و معیار کا کام نہ ملے تب تک اس سے کوئی چھوٹا کام کر لینے میں بھی حرج نہیں۔ کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا تاہم کام اس شعبے سے متعلق ہونا چاہیے جس میں آپ اپنا مستقبل بنانے کے خواہش مند ہیں۔

    پنجابی سٹیج شو پنجند ان کا مقبول پروگرام تھا۔ اس میں ایک چھوٹا بچہ گانا گاتا  تھا جو ‘ر’کو ‘ڑ’ بولتا تھا جیسے لاہوڑ لیکن گاتے ہوئے بھی اس کی زبان پر وہ لفظ سج جاتا تھا۔ اسی پروگرام میں دلدار صاحب نے سہیل احمد صاحب کو بطور مہمان بلایا تھا۔ انھوں نے اپنی کامیابیوں کا سہرا دلدار صاحب کے سر ہی باندھ دیا کہ انھی کی رہنمائی کی وجہ سے انھیں ٹی وی پر کام کرنے کا موقع ملا۔  علاوہ ازیں دلدار پرویز بھٹی  بہت ہی خوبصورت نقال تھے۔ 1984ء میں پی ٹی وی کی بیسویں سالگرہ پر انھوں نے اپنے ساتھی پروڈیوسز اور فنکاروں کی کمال کی نقل اتاری۔ اس کے علاوہ سٹیج شوز میں بھی وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے۔

    دلدارپرویز بھٹی  بہت ہی خوبصورت انسان تھے۔ دوسرے انسانوں  سے محبت و  شفقت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی انسانی ہمدردی کے کئی واقعات  ان کے ساتھ کام کرنے والوں اور وقت گزارنے والوں نے بیان کیے ہیں۔  جاوید  چودھری   نے اپنے ایک کالم میں بھی ایک قصے کا ذکر کیا جس کے راوی امجد اسلام امجد ہیں۔جاوید چودھری کے الفاظ  کچھ  یوں ہیں۔”

     امجد صاحب نے دلدار پرویز بھٹی کا ذکر بڑی محبت سے کیا‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ شاندار انسان تھے‘ درد دل سے لبریز‘ لوگوں سے محبت کرنے والے شخص‘ انہوں نے بتایا‘ ہمارے ایک ڈپٹی کمشنر دوست نے عابدہ پروین کا فنکشن کرایا‘ فنکشن کی کمپیئرنگ دلدار پرویز بھٹی کے ذمے تھی‘ ان سے 20 ہزار روپے معاوضہ طے ہوا‘ بھٹی صاحب فنکشن سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے‘ انہیں عابدہ پروین کے طائفے میں شامل ایک سازندہ دکھایا اور کہا‘ آپ اسے میرے معاوضے میں سے دس ہزار روپے بطور انعام دے دیں‘ ڈپٹی کمشنر نے عرض کیا‘ جناب میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں آپ اسے خود دے دیں‘ دلدار پرویز بھٹی مرحوم نے جواب دیا ”میں نہیں دے سکتا‘ میں اس سے ناراض ہوں“ ڈپٹی کمشنر نے وجہ پوچھی تو دلدار پرویز بھٹی بولے” یہ نشہ کرتا ہے‘ یہ سارے پیسے نشے میں برباد کر دیتا ہے‘ خاندان کے حالات خراب ہیں‘ میں اس وجہ سے اس کے ساتھ ناراض ہوں“ ڈپٹی کمشنر نے پوچھا ”آپ پھر اسے پیسے کیوں دے رہے ہیں“ بھٹی صاحب نے جواب دیا ”میں جانتا ہوں اس کی بہن کی شادی ہے‘ یہ مجبور ہے‘ یہ مجھ سے پیسے نہیں مانگے گا‘ آپ اسے اپنی طرف سے دے دیں‘ اس کے خاندان کو ریلیف مل جائے گا“ یہ واقعہ سناتے وقت امجد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے”

    ۔

    خوبصورت اور برجستہ جملوں سے مقابل کو لاجواب کرنا انھیں خوب آتا تھا۔لاجواب بھی ایسے کرتے تھے کہ مقابل کی تضحیک نہیں ہوتی تھی بلکہ ہنس ہنس کر اس کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ایک مرتبہ ان کا ایک واقف ان کے پاس آیا اورانھیں بتایا کہ اس کے بہنوئی کو رشوت لینے کے الزام میں پولیس پکڑ کر لےگئی ہے۔ اس نے ان سے مدد کی درخواست کی اور بتایا کہ ان کی بہن بہت پریشان ہے۔ نرم دل تو تھے ہی۔ اس  شخص کی باتیں سن کر دل پسیجا اور اسے ساتھ لے کر متعلقہ افسر کے پاس چلے گئے۔ متعلقہ افسر کو معاملہ بتایا تو انھوں نے کہا کہ بھٹی صاحب آپ نے آ کر ہماری عزت افزائی کی ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں اس بندے کو چھوڑ دیتا ہوں لیکن بتا دوں کہ یہ بندہ رشوت لیتا ہے۔ دلدار پرویز بھٹی فوراً بولے کہ جناب رشوت تو رشوت، ہماری تو بہن بھی لے گیا ہے یہ شخص۔ یہ جملہ سن کر وہ شخص ہنس ہنس کر دوہرا ہو گیا اور اس نے ان کے واقف کے بہنوئی کو چھوڑ دیا۔

    30 اکتوبر 1994 کو پاکستان میں ہونے والے تین ملکی ٹورنامنٹ کا فائنل تھا۔ یہ ٹورنامنٹ پاکستان، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا گیا تھا جبکہ فائنل مذکورہ تاریخ کو پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ ہم کالج میں ہونے کے باعث میچ کا زیادہ حصہ نہ دیکھ پائے تھے۔اس لئے رات نو بجے کا خبرنامہ دیکھ رہے تھے۔ ہم کھیل کی خبروں کے منتظر تھے کہ دلدار پرویز بھٹی کی وفات کی خبر نشر ہوئی۔ وہ امریکہ میں  دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال فرما گئے تھے۔ یہ خبر سن کر ہم میچ کو بھول گئے اور دلدار پرویز بھٹی کے پروگرام اور ان    کے انداز و  گفتگو    کی فلم ہمارے ذہن کے پردے پر چلنے لگی امریکہ وہ عمران خان کے کینسر ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم میں گئے تھے۔  اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ وہ   عمران خان کے ساتھ   فنڈریزنگ  پروگرامز کرتے رہتے تھے اور  ان کا آخری  عمل بھی ان کا اپنے ہم وطنوں کی مدد کا ہی تھا ۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں "دلدار پرویز بھٹی وارڈ  "ان کی  خدمات   کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ  دلدار پرویز بھٹی کے درجات بلند فرمائے۔

     

    ٹیگز: , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔