تحریر: ابنِ ریاض
پاکستان کی ترقی اور دفاع میں غیر مسلموں کا بھی بڑا کردار ہے۔ ان کی وطن سے محبت کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔۔آپ کسی بھی شعبے میں دیکھ لیں ہمارے اقلیتی بھائیوں نے اپنے حصے کا کردار بطریق احسن نبھایا ہے۔ آج ایک ایسے ہی ہیرو کی یادتازہ کرتے ہیں جس کے نام ،کام اور مقام سے پاکستانیوں کی اکثریت ناواقف ہے۔6 جولائی 1931ء( کہیں کہیں 1940ء بھی لکھا ہوا ہے) کو ایک عیسائی خاتون ڈیزی مڈل کوٹ اپنے میکے دہلی سے واپس اپنے سسرال لاہور آ رہی تھی ۔ ان کے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش متوقع تھی۔اتفاق سے ٹرین میں ہی لدھیانہ کے مقام پر اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ لاہور پہنچ کر اس بچے کا نام "مرون لیسلی مڈل کوٹ” رکھا گیا۔ دو سال کی عمر میں یہ بچہ اپنے والد کے سائے سے محروم ہو گیا۔
سکول جانے کی عمر کو پہنچا تو سینٹ انتھونی سکول لاہور میں داخل کر دیا گیا۔ پاکستان بنا تو ان کے خاندان نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے تعلیم کے بعد پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔پیشے سے اپنی محبت اور لگن کے باعث جلد ہی ان کا شمار بہترین ہوابازوں میں ہونے لگا۔ پچاس کے عشرے میں "ایف چھیاسی "ہوائی جہازوں کی تربیت کے لئے انھیں علاؤ الدین احمد کے ساتھ امریکہ بھیجا گیا۔ چند برس بعد یہی دو ہواباز ا جدید” ایف ایک سو چار "کی تربیت کے لئے بھیجے گئے۔شاندار ہواباز ہونے کے علاوہ وہ انتہائی اعلٰی اخلاقی اقدار،نرم مزاجی، نرم دلی اور خوش گفتاراوروطن سے شدید محبت کی بنا پر بھی معروف تھے۔
ہوابازی کے کرتب دکھانے والی ٹیم کا وہ لازمی حصہ تھے۔ نو سیبر کے ساتھ کرتب والی ٹیم میں وہ شامل تھے۔ان میں سرفراز رفیقی، ایم ایم عالم، یونس حسن اور منیر جیسے شاندار ہواباز شامل تھے۔ اس ٹیم کے نو میں سے سات اراکین نے 1965ء میں ستارہ جرات حاصل کیا۔ 2 فروری 1958ء میں جس ٹیم نے 16 شاہینوں کے ساتھ ہوائی کرتب کا عالمی ریکارڈ بنایا یہ اس قابل فخر ٹیم کا حصہ بھی تھے۔
1965ء کی جنگ کے دنوں میں وہ بطور سکواڈرن لیڈر مسرور ائیر بیس کراچی میں تھے۔ ایک اندھیری رات میں بھارتی طیاروں نے وہاں دھاوا بول دیا۔ کمانڈر لیسلی( ائیر بیس پر یہ اس نام سے مشہور تھے) اپنے ایک ساتھی کے ساتھ فضا میں گئے اور کچھ ہی دیر میں دو بھارتی طیاروں کو دھول چٹا دی۔ انھوں نے دشمن کو بتا دیا کہ وطن کے بیٹے نہ صرف جنگ کے لئے تیار ہیں بلکہ اس وقت بھی جاگ رہے ہیں۔ ان کی اس کارکردگی پر انھیں ستارہ جرات تو ملا ہی مگر دورانِ جنگ ہی پاک فضائیہ میں وہ "محافظِ کراچی” کے نام سے مشہور ہو گئے۔ بعد ازاں انھیں لاہور بھیجا گیا تو یہاں بھی ان کی کارکردگی مثالی رہی اور انھوں نے بہت سے مشنز میں حصہ لیا اور کامیابی سمیٹی۔
1967ء میں ان کی بیٹی "این”کی عمر آٹھ برس تھی۔ سکول میں وہ "وطن سے محبت”پر تقریر کی مشق کر رہی تھی کہ ایک لڑکے نے اسے کہا بڑی آئی وطن سے محبت کرنے والی۔ یہ تمھارا وطن کیسے ہو گیا؟ یہ ہمارا ملک ہے۔ تم اپنے ملک جاؤ۔ کمانڈر لیسلی کی بیٹی کو یہ جملہ بم کی طرح لگا۔ اس نے اس لڑکے کو تو مار مار کر اچھی طرح طبیعت صاف کی مگر خود روتی ہوئی گھر آئی اور والدہ کو بتایا۔ باپ گھر آیااور بیٹی سے رونے کی وجہ پوچھی۔ بیٹی نے واقعہ سنایا تو وطن سے عشق کرنے والے بات کا جواب ملاحظہ کیجیے ” بیٹا اپنے کردار کو اتنا بلند کر لو کہ ان باتوں سے تمھیں کوئی فرق نہ پڑے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر تمھاری توانائی و طاقت ضائع نہ ہو۔ یہ ملک تمھاراکیوں نہیں ہے ؟ یہ پاکستان کا جھنڈا دیکھو۔ اس میں سبز رنگ تمھارے اس دوست کا ہے جس کی تم نے پٹائی کی ا ور یہ سفید حصہ تمھاراہے۔ تمھارے سفید حصے میں وہ پول ہے جس کے سہارے یہ فضا میں لہراتا ہے۔ ہمیں اس سفید حصے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے تا کہ سبز حصہ آزاد فضاؤں میں ہمیشہ لہراتا رہے۔”
ایک مرتبہ ان کی بیگم نے انھیں کہا ” مرون آپ کے سب بہن بھائی اور میرے خاندان والے بیرون ملک چلے گئے ہیں اور ہم یہاں اکیلے ہیں۔ کیوں نہ ہم بھی بیرون ملک چلے جائیں ؟” انھوں نے بیگم اوربیٹی کو اپنے سامنے بٹھا کر اپنے نرم و مضبوط لہجے میں جوب دیا” یہ میرا وطن ہے۔ میں نے یہاں جنم لیا ہے۔ میرا دادا،میرا والد اورمیری والدہ یہاں دفن ہے۔ میں نے اب تک جو زندگی گزاری ہے اس وطن کی حفاظت کے لئے گزاری ہے اورایک دن میں اس وطن کے لئے جان بھی دے دوں گا۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔”یہ کسی سیاست دان کے الفاظ نہیں تھے بلکہ وطن کے ایک عاشق کے الفاظ تھے اور انھوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں انھوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود حصہ لیا اور اردن کی فضائیہ کی مدد کی ۔
1971 ء میں جس وقت پاک بھارت جنگ چھڑی،وہ ڈیپوٹیشن پر اردن میں تھے۔ اگر وہ جنگ کے ایام وہیں گزار لیتے تو اس میں کچھ غلط نہ تھا کیونکہ وہ جنگ سے کافی عرصہ پہلے سے وہاں تھے۔ انھیں جنگ کی اطلاع ملی تو انھوں نے فوری پاکستان آنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مادروطن کو ان کی ضرورت تھی۔ وہ کراچی ایئر بیس پہنچے اور خود کو جام نگر جانے والے مشن پر رضاکارانہ طور پر پیش کر دیا۔ جام نگر ایک انتہائی مشکل مشن تھا۔اول تو ہدف ہی انتہائی مشکل تھا اور اس سے کہیں زیادہ مشکل واپسی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زمینی سرحدوں پر جہاز ہدف کو نشانہ بنا کر جلداپنی سرحد میں واپس آ جاتے ہیں جبکہ جام نگر کے معاملے میں جہاز کو قریب چار سو کلومیٹرز غیر جانبدارانہ سمندر پر سفرکر کے واپس آنا تھا اور بھارت کے کہیں زیادہ تیز رفتار جہازوں سے نبزد آزما ہونا پڑتا تھا مگر ونگ کمانڈرلیسلی ان مصائب و مشکلات میں خاطر میں نہ لانے والے تھے۔ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ مقررہ وقت پر روانہ ہوئے اورہوائی اڈے پر موجود جہازوں کو نشانہ بنانے لگے۔ اس دوران دوسرے بیس سے طیاروں نے حملہ کر دیاچونکہ مشن کامیابی سے مکمل ہو چکا تھا تو انھوں نے واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر دو طیارے ان کے تعاقب میں آ گئے اور انھوں نے پاکستانی جہازوں کو اپنی گنوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ انھوں نے جہاز کو دو حملوں سے بچایا مگر جب وہ رن آف کچھ پہنچے تو ان کا جہاز دشمن طیارے کا نشانہ بن گیا۔ ان کے طیارے کو نشانہ بنانے والے ہواباز کے مطابق انھوں نے ونگ کمانڈر لیسلی کو طیارے سے نکل کر گہرے پانی میں گرتے تھے۔ انھوں نے اپنی امدادی ٹیموں کو وہاں پہنچنے کا کہا۔ امدادی ٹیمیں وہاں پہنچیں مگر وہ ونگ کمانڈر لیسلی کو نہ کھوج سکیں۔کہا جاتا ہے کہ لیسلی جہاں گرے وہ شارک مجھلیوں کی کثرت والا علاقہ تھا اور پھر وہ آج تک نہ مل سکے۔
انھیں ان کی شاندار خدمات پر حکومت پاکستان نے دوسری مرتبہ ستارہ جرات سے نوازا۔ بعد ازاں ایم ایم عالم نے بھی یہ اعزاز حاصل کیا تا ہم جان کی قربانی دینے والوں میں وہ تاحال واحد ہواباز ہیں۔
ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ جین مڈل کوٹ نے اپنی وفات یعنی 27 جون 2011ء تک اپنے شوہر کے عہد کو نبھایا۔ جب انھیں بیرون ملک آجانے کی دعوت دی جاتی تو وہ انکار کر دیتی اور کہتیں کہ ” نہیں آ سکتی۔ سبز و سفید پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا شہید کا عزم نہیں بھولی۔” والدہ کی وفات کے بعد ان کی بیٹی این مڈل کوٹ سے بھی ان کے پردیس میں بسے ددھیال و ننھیال سے مطالبہ کیا جاتا کہ اب تو تم اکیلی ہو۔تمھارا یہاں کوئی نہیں تو وہ بھی اپنی والدہ کا جواب دھراتی ہیں ” میں اپنے شہید باپ کے سبز و سفید پرچم کو مضبوطی سے تھامے رہنے کے مشن کو نہیں بھولی”۔
ایم ایم عالم سے ایک مرتبہ اعظم معراج مصنف کتاب "شانِ سبز و سفید”نے پوچھا کہ ان کے خیال میں 1965ء کی جنگ میں کون نشان حیدر کا مستحق تھا توانھوں نے سرفراز احمد رفیقی اور علاؤالدین احمد کا نام لیا۔ جب 1971ء کی جنگ کے متعلق یہی سوال دھرایا گیا تو ایم ایم عالم نے بلاتامل جواب دیا کہ ونگ کمانڈر لیسلی مڈل کورٹ نے انتہائی نامساعد حالات میں جرات و بہادری اور قربانی کی عظیم مثال پیش کرتے ہوئے اپنے وطن پر جان قربان کی۔ سو وہ بجا طور پر اس اعزاز کے مستحق ہیں۔
ان کی انسان دوستی،اعلٰی اخلاق اوردوسروں کواپنا گردیدہ بنانے کی صلاحیت ان کی بیوہ کو لکھا گیا اردن کے شاہ حسین کا خط ہے جس میں شاہ حسین رقم طراز ہیں "بہن ونگ کمانڈر لیسلی کی وفات نہ صرف آپ کا اور پاکستان کا بلکہ میرا بھی ذاتی نقصان ہے۔ میں آج اپنے بہترین دوست سے محروم ہو گیا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ شہید کو جب دفنایا جائے تو اس کے جسم پر بھلے پاکستان کا پرچم ہو لیکن اس کے سر کے نیچے یعنی سرھانے میرے وطن اردن کا پرچم ہو”۔ ظاہر ہے کہ شاہ حسین کی یہ خواہش بھی تشنہ رہی۔
ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ باہر جانے کے لئے ترس رہے ہیں اور اس کے لئے کچھ کم ظرف لوگ تو مذہب بدلنے اور ملک کا نام بدنام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن اسی ملک اور اسی سرزمین پر ایک ایسا غیر مسلم بھی تھا جو جب چاہتا غیر ملکی شہریت حاصل کر سکتا تھا اور اس کے خاندان والوں کا اس پر دباؤ بھی تھا مگر اس کے خمیر میں مٹی کی محبت تھی اور اس نے اپنی دھرتی ماں سے اپنی وفا اپنے قول و فعل سے نبھائی۔ مرون لیسلی مڈل کوٹ کی اس زمین پر کوئی قبریا مزار نہیں۔ ان کی میت والے مقام پر کوئی پھول نہیں رکھتا،کوئی دیا جلانے نہیں آتا۔ انھیں کہیں بھی سلامی یا گارڈ آف آنر پیش نہیں کیا جاتا۔ آج ان کی قربانی کو انچاس برس ہو گئے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگلا سال یعنی 2021ء کو ہم 1971ء کے ان گمنام شہداء کے نام کر دیں۔