پاکستان ٹیم کی کوچنگ پھولوں کی سیج نہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستان ٹیم کی کوچنگ پھولوں کی سیج نہیں

    تحریر: ابنِ ریاض

    جاوید میانداد کا شمار پاکستان کے عظیم ترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ انھیں کرکٹ کے بارے میں اللہ نے بہت زیادہ علم عطا کیا ہے۔ 1990 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو وسیم و وقار کے سامنے ماسوائے مارٹن کرو کے ان کا کوئی بیٹسمین نہ ٹھہر سکا۔ چونکہ باؤلنگ بہت اچھی اور فیلڈ بھی اسی کے مطابق سیٹ تھی تو میانداد کو کچھ کرنا نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ شارٹ کور پر کھڑے ہو گئے اور نیوزی لینڈ کے بیٹسمینوں کو لگے اپنے مشوروں سے نوازنے۔ ویوین رچرڈز آج کل پاکستان میں بہت مقبول ہیں ۔ اپنے جیت کے جذبے اور میچ کے دوران حرکتوں کے باعث۔ وہ جاوید میانداد کے ہم عصر بھی تھے۔ ان سے ایک بار کہا گیا کہ آپ جاوید میانداد کے متعلق کیا کہیں گے۔  انھوں نے کہا ‘ اگر کوئی مجھے کہے کہ یہ اننگز تمھاری تمھاری زندگی ہے یعنی کہ اس کے بعد تمھاری زندگی ختم ہو جائے گی تو میں خود بیٹنگ پر نہیں جائوں گا۔ میں جاوید میانداد کو اپنی جگہ بھیج دوں گا اور بے فکر ہو کر جیوں گا۔’

    یہ جاوید میانداد 1999ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ بنے۔ اس سے قبل پاکستان کو آسٹریلیا چالیس برس برس بعد اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہرا چکا تھا اور تو اور زمبابوے بھی ہمیں گھر آ کر مار گیا تھا۔ میانداد کے کوچنگ سنبھالتے ہی پاکستان بھارت گیا اور وہاں کھیلے گئے 3 ٹیسٹ میچوں میں سے دو جیت گیا۔ پہلی ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتا اور بھارت میں ہی تین ملکی محدود اوورز کا ٹورنامنٹ بھی ہمارا ہوا۔اس کے بعد  شارجہ کپ تھا۔ اس میں بھی پاکستان ٹیم  کے ہاتھوں پہلے بھارت اور پھر انگلینڈ کی درگت بنی مگر اگلا میچ پاکستان انگلینڈ سے ہار گیا۔ اس پر بہت سے سوالات اٹھے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ میانداد نے کھلاڑیوں کے عجیب و ٖغریب انداز میں آؤٹ ہونے پر کہا تھا کہ’ آج پھر ماں بیچ آئے ہو’۔ شارجہ کپ تو پاکستان جیت گیا مگر ہمارے کھلاڑیوں سے جاوید میانداد کا یہ طنز برداشت نہ ہوا اور نتیجہ یہ کہ ورلڈکپ سے ایک ماہ پہلے رچرڈ پائی بس پاکستان کے کوچ تھے۔ ورلڈ کپ کے بعد رمیض راجہ کے بڑے بھائی، وسیم راجہ مرحوم، کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی مگرانھوں نے صرف صحارا کپ اور شارجہ کپ میں کام کیا اور پھر خود ہی ‘رضاکارانہ’ طور پر اس نیک کام سے دستبردار ہو گئے۔ 2004 سے 2007 تک باب وولمر ٹیم کے کوچ رہے۔ ان کے بارے میں یونس خان کے خیالات کچھ ہیں اور عبد الرزاق کے کچھ اور۔ تاہم اس دور میں بھی پاکستان زیادہ تر میچ کھلاڑیوں کی ذاتی صلاحیت سے جیتا نہ کہ ٹیم ورک سے۔

    2007 میں جب بورڈ نے شعیب ملک کو کپتان بنایا تو ساتھ ہی بورڈ کی خواہش تھی کہ ڈیو وٹمور کو کوچنگ دی جائے۔ مگر ہمارے کھلاڑیوں نے سری لنکن کھلاڑیوں سے وٹمور کے متعلق پوچھا تو علم ہوا کہ وہ انتہائی سخت گیر اور نظم و ضبط کے پابند ہیں( سری لنکا نے وٹمور کی کوچنگ میں 1996 کا عالمی کپ جیتا تھا) تو ہمارے کھلاڑیوں کا جیف لاسن پر دل آ گیا۔ ایک سال میں ہی ان کا بھی ضبط جواب دے گیا اور انھوں نے بھی مزید کوچنگ میں دلچسپی نہ لی۔ وقار یونس نے بھی 2010 میں آسٹریلیا میں ٹیم کے تمام فارمیٹس میں تمام میچ ہارنے کے بعد کوچنگ سنبھالی اور 2011 کے وسط میں یہ کام چھوڑ دیا۔ اس دور میں پاکستان کو تین کھلاڑیوں سے بھی محروم ہونا پڑا مگر ٹیم کی کارکردگی بہت بری بھی نہیں رہی۔  محسن خان نے چند ماہ کوچنگ کی اور اس کے بعد وٹمور آ گئے۔ انھیں علم تھا کہ کھلاڑی نازک ہیں اور زیادہ سختی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کھلاڑیوں کو نرم غذائیں دی اور یوں پاکستان جنوبی افریقہ میں 3-0 سے ہارا۔ نیز 2012 کے ایشیا کپ میں فتح کے علاوہ اس عرصے میں ہمارے پاس کوئی اور اعزاز نہیں آیا۔ وٹمور بھی اپنی مدت پوری کر کے واپس سدھارے اور وقار یونس ایک بار پھر نئے معاہدے کے ساتھ واپس آئے۔ یہ دور بھی زیادہ خوشگوار نہیں گزرا اور ان اس کا اختتام قریب ہے۔

    ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں پلیئر پاور عام ہے۔ کھلاڑی خود کو ٹیم کا جزو لاینفک سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں تو وہ کپتان کے جوتے پالش کر کے اس کی ‘اچھی کتابوں’ میں آ جاتا ہے۔ کھلاڑی خود کو کھیل سے بڑا سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود بورڈ کے ممبران بھی ٹیم میں اس قسم کی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اگر سلیکٹرز خرم منظور کو منتخب کریں تو کوئی کوچ اسے ویوین رچرڈز کیسے بنا سکتا ہے؟  عمر اکمل، شاہد آفریدی ہر بار غلط موقع پر آؤٹ ہو جائیں تو کوئی انھیں کچھ نہ کہے؟کوئی سمجھائے کہ عمر اکمل نے آخری میچ وننگ اننگز کب کھیلی۔ اپنے تیس چالیس کرو اور آؤٹ ہو جاؤ۔ کھلاڑی  عجیب طریقے سے رن آؤٹ ہو جائیں تو کوچ کیا کرے۔ بعض کھلاڑیوں سے آپ نے یہ سنا ہو گا کہ کوچ چاہتا ہے کہ تمام نئے کھلاڑی ہوں اور وہ آرام سے کوچنگ کرے۔ اس کی وجہ یہ کہ نئے کھلاڑی سیکھتے ہیں اور ان میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ کوئی سمجھا سکتا ہے کہ کوچ تو آتا ہے چلا جاتا ہے کبھی ایسا ہوا کہ انتخاب کا انتخاب نہ ہوا ہو۔۔۔۔  کبھی ہارون رشید، کبھی وسیم باری اور ذاکر خان۔ انھیں ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔ ان کی پرفارمنس کا کسی نے پوچھا۔

    وقار یونس پاکستان کے عظیم فاسٹ بائولر رہے ہیں۔ وہ آسٹریلیا کے شہری بھی ہیں۔ وہ   کوچنگ چھوڑ کر بھی بھوکے نہیں مریں گے۔ وہ جتنی رقم لے رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ انھیں کمنٹری کر کے بھی مل جائے گی اور وہ کام بھی بہت آسان ہے۔ کسی کی تعریف کرو کسی کی تنقید کرو۔ اے سی کمرے میں بیٹھو۔ ابھی تو وقار کو کھلاٹیوں کے ساتھ دھوپ گرمی اور میڈیا کو بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اگر انھوں نے مشکل راستہ چنا تو یہ ان کی بیوقوفی تھی۔ انھیں جاوید میانداد کے تجربے سے سیکھنا چاہیےتھا۔

    کوچ کا کام سکھانا ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانا کھلاڑیوں کا کام ہے جیسے استاد کا کام سکھانا ہے مگر امتحان بچوں کو خود دینا ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں میں سیکھنے کی لگن اور کچھ کر دکھانے کی تمنا ہو گی تو کام بنے گا۔ ہمیں تو ایسی خوبی نہیں نہیں دکھی۔ نیا کھلاڑی آئے گا۔ دو چار میچ اچھے کھیلے گا۔ جب دوسروں کو اس کی خامیاں مل جائیں گی تو ان کو ٹھیک کرنے کا کام اس کا تھوڑی ہے۔ صہیب مقصود کی مثال سامنے ہے۔ خرم منظور کو ہر بار ہیراتھ نے آؤٹ کیا مگر اس نے بال روکنا بھی نہیں سیکھا۔ حفیظ یا رن آؤٹ ہو گا یا کروائے گا۔ کھلاڑیوں اوربورڈ  کی ذمہ داری کہاں شروع ہوتی ہے؟ احمد شہزاد کی فارم گھر بیٹھے واپس آ گئی۔  پاکستان سپرلیگ میں وقار یونس کسی بھی ٹیم کی کوچنگ نہیں کر رہے تھے مگر ہمیں تو کوئی ایک بھی ایسا کھلاڑی نہیں نظر آیا کہ جسے ہم مستقبل کا روشن ستارہ قرار دیں۔ عالمی کپ تک میں وہی سب پرانے چہرے جو پچھلے پندرہ بیس سال سے کھیل رہے ہیں منتخب ہوئے کہ انھیں غلطیاں کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ پاکستان کرکٹ کے حالات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک کہ کھلاڑیوں کو نظم و ضبط کا پابند نہ بنایا جائے اور کھیل سے سیاست نہ ختم کی جائےورنہ چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر یہی حالات رہے تو اس کھیل کا حال بھی ہاکی جیسا ہو جائے گا۔

     

    ٹیگز: , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔