تحریر: ابنِ ریاض
بھارت میں ہم بہت لوگوں سے متاثر ہیں۔ گلوکاروں میں محمد رفیع، مکیش ، کشور کمار، لتا جی اور مناڈے شامل ہیں تو کھلاڑیوں میں بھی سنیل گواسکر، کیپل دیو، ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ، ویرت کوہلی اور ایم ایس دھونی جیسے نام شامل ہیں مگربھارت ہمیں سیاست دانوں کے لحاظ سے کبھی پسند نہیں رہا۔ ہم گاندھی کو عظیم رہنما تسلیم کرتے ہیں اور نہرو خاندان کے بھارت میں اثر و رسوخ کے بھی قائل ہیں تا ہم ان پر لکھنے پر کبھی دل آمادہ نہ ہوا۔مگرحال ہی میں ایک شخصیت کے بارے میں تفصیل سے پڑھا تو جی چاہا کہ ان پر لکھا جائے۔
اس شخصیت کا یوم پیدائش و یوم وفات ہماری دو پسندیدہ ترین شخصیات کے ان اہم دنوں کے ساتھ منسلک ہے۔دو اکتوبر وحید مراد کی سالگرہ ہے۔ بھارت میں مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش بھی یہی ہے۔ اسی روز 1904ء میں بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لعل بہادر شاستری بھی پیدا ہوئے۔ گاندھی جی کے ساتھ یوم پیدائش کی شراکت کی وجہ سے اکثر ان کا دن پس منظر میں چلا جاتاہے۔
ہمارا شاستری سے ابتدائی تعارف کچھ اچھا نہ تھا۔ بچپن میں جب ہمیں 1965ء کی جنگ کا بتایا جاتا تو کہا جاتا کہ پاکستان یہ جنگ جیت گیا تھا اور پھر تاشقند میں ہم نے معاہدے پر دستخط کر کے یہ جنگ ہار دی جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج جنگ سے پہلے تعینات مقامات پر واپس چلی جائیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری کو اس معاہدے کی ایسی خوشی ہوئی کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے وہیں تاشقند میں انتقال کر گئے۔ ہمارے کزن ماموں جو اس وقت بچے تھے وہ دھرایا کرتے تھے ‘شاستری دھم’۔ یعنی شاستری گر گیا۔
لعل بہادر شاستری کا قد محض پانچ فٹ دو انچ تھا۔ اس زمانے کے لحاظ سے تو زیادہ ہی کم تھا اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے صدر ایوب نے ان کا مذاق بھی اڑایا تھا کہ یہ چھوٹا سا آدمی ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں صدر ایوب اور وزیر اعظم شاستری کے ایک ساتھ کھڑے ہوئے پورٹریٹ بھی بنائے جاتے تھے تا کہ عوام کو بتایا جا سکے کہ بھارت کا ہم سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
شاستری نوجوانی میں ہی کانگریس میں شامل ہو گئے اور بھارت کی آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے لگے
لعل بہادر شاستری ایک کھرے اور مخلص انسان تھے۔ قائد اعظم کے بعد اگر برصغیر کی تاریخ میں کسی کی ایمانداری کی گواہی دی جا سکتی ہے تووہ شاستری تھے۔ قائد اعظم سے وہ اس لحاظ سے مختلف تھے کہ قائد اعظم نوجوانی میں اپنی کوشش سے متوسط طبقے سے نکل کر امراء میں شمار ہو گئے جب کہ شاستری تا عمر پیسے کی تنگی کا شکار رہے۔وہ انتہا درجے کی ایمان داری و سادگی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ سیاست سے لوگ پیسہ کماتے ہیں یہ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے رہتے ہیں اور ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنھوں نے سیاست کو اس کام کے لئے استعمال کیا۔ تاہم لعل بہادر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی وجہ سے سیاست ایک معتبر شعبہ ہے۔ 1940ء کے عشرے میں بھارت چھوڑ تحریک میں وہ پیش پیش تھے۔ حکومتِ وقت نے انھیں قید میں ڈال دیا۔ان کی بیٹی شدید بیمار ہوئی تو انھیں بیٹی کے علاج کے لئے دو ہفتے کے لئے پرول پر رہا کیا گیا۔ علاج مہنگا تھا اور ان کی استطاعت سے باہر۔ بیٹی چند روز بعد ہی وفات پا گئی تو اس کی آخری رسومات ادا کر کے پرول کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔
بھارت بننے کے بعد وہ کئی وزارتوں میں رہے۔ ان کا مقصدعام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہی تھا۔ جب وہ ہوم منسٹر تھے تو ان کے متعلق کہا جاتا تھا ‘ ہوم منسٹر ود آؤٹ ہوم’۔ ریلوے کے وزیر تھے تو ان کے دور میں ریلوے کے دو حادثات ہوئے جن میں کوئی اڑھائی سو افراد جان سے گئے۔ انھوں نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفا دے دیا۔ انھیں وزیر اعظم نہرو نے بھی کہا کہ آپ کا استعفا دینا نہیں بنتا آپ کی کوئی غلطی نہیں مگر لال بہادر شاستری نہ مانے اور استعفا دے کردم لیا۔ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوے انھوں نےکہا ” میرا قد چھوٹا ہے اور میری زبان نرم ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ مجھے کمزور سمجھتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ میں اخلاقی طور پر اتنا کمزور نہیں ہوں اور بطور ثبوت میں بحیثیت وزیر ریلوے خود کو ان حادثوں کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے اپنی وزارت سے استعفا دیتا ہوں۔” ان کا استعفا قبول کرتے ہوئے نہرو نے کہا "لال بہادر شاستری ایسے انسان ہیں جن کی کوئی بھی شخص بطور ساتھی تمنا کر سکتا ہے۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ ان حادثوں میں ان کا کوئی دوش نہیں مگر ان کا استعفا اس بنا پر قبول کیا جا رہا ہے کہ یہ ہمارے ملک میں احساس ذمہ داری کی ایک نئی روایت کو جنم دے گا”۔ ہمارے پیارے ملک میں تو ایسی کوئی روایت نہیں بلکہ مشرف دور میں ریلوے کے حادثوں پراس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ استعفا دیں گے تو انھوں نے فرمایا تھا کہ کیا وہ گاڑی چلا رہے تھے جو انھیں استعفا دینا چاہیے ؟
1964ء کے وسط میں جواہر لعل نہرو کی وفات کے بعد انھیں غیر متوقع طور پر وزارت عظمٰی ملی۔بھارت چین سے1962ء میں جنگ ہار چکا تھا اور فوج کا جذبہ کافی گرا ہوا تھا۔علاوہ ازیں بھارت گندم کے معاملے میں بھی خود کفیل نہیں تھا اور اسے امریکہ سے گندم درآمد کرنی پڑتی تھی۔ سب سے پہلے تو انھوں نے ملک میں سفید(دودھ) اور سبز(زراعت) انقلاب کا آغاز کیا تا کہ ملک کو کھانے میں خود کفیل کیا جا سکے۔اس مقصد کے لئے انھوں نے "جے جوان جے کسان”(یعنی فوجی اور کسان زندہ باد) کا نعرہ دیا۔ کیا آپ نے سنا کہ کبھی حکمرانوں نے اپنے کسانوں کو اتنی اہمیت دی ہو۔ اگرچہ ان کے دور میں بھارت خود کفالت کی منزل نہ پا سکا مگر بعد ازاں انھی کے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے نہ صرف خود کفالت کی منزل حاصل کی بلکہ بھارتی کسان بھی پر سکون و مطمئن رہے۔ اب بھارتی حکومت نے ان کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی ہے تو اس کے اثرات پورے بھارت میں دکھائی دے رہے ہیں۔
اپنے عوام کا انھیں کس قدر خیال تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ جب ملک میں ہنگامے جاری تھے اور شاستری کابینہ کا حصہ تھے تو انھوں نے ہی ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے اس پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے منع کیا تھا اور اس کے متبادل کے طور پر پانی سے ہجوم کو منتشر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
1965ء کی پاک بھارت کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ چھمب سیکٹر پر پاکستانی فوج کی شاندار کارکردگی سے بھارت کو خطرہ ہوا کہ جلد یہ علاقہ بھارت کے قبصے سے نکل جائے گا تو انھیں مشورہ دیا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ایک اور محاذ کھول کر فوج کی طاقت کو تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا اور یوں اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے بھارت سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر بھارت نے جنگ بند نہ کی تو انھیں گندم کی فراہمی بند کر دی جائے گی(اس دور میں بھارت امریکہ سے گندم درآمد کرتا تھا)۔ شاستری کو یہ بات بہت بری لگی۔ انھوں نے گھر جا کر بیگم سے کہا کہ "آج شام کھانا نہ بنانا میں دیکھتا چاہتا ہوں کہ میرے بچے ایک وقت کے کھانے کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں یا نہیں”؟جب ان کے بچوں نے یہ وقت گزار لیا تو اگلے دن انھوں نے عوام سے ایک وقت کم کھانے کی اپیل کر دی تا کہ دستیاب گندم کو زیادہ عرصہ استعمال کیا جا سکے۔ اس میں خوبصورت اور اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ایک وقت کا فاقہ اپنے گھر سے شروع کیا اور ان کے خاندان نے باقی ملک سے ایک وقت زیادہ فاقہ کیا۔انھوں نے اپنی ذات کے لئے کوئی استثنا ء نہ لیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد 10 جنوری 1966ء میں معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے اور اسی رات لعل بہادر شاستری انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال کیسے ہوا ؟یہ تاحال معمہ ہے۔ تاہم جب ان کا انتقال ہوا تو انھوں نے ایک گاڑی قرض پر لے رکھی تھی اور ان کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس کوئی گھر تھا اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ معاش۔ ان کی وفات کے بعد ی کسی وزیر کی فرض کی ادائیگی کی دوران وفات پر اس کے خاندان کی گزر بسر اور مراعات کا فیصلہ کیا گیا۔ جب ان کا جسد خاکی تاشقید سے دہلی روانہ ہوا تو صدر ایوب خان نے بھی انھیں کندھا دیا۔وہ واحد وزیر اعظم ہیں جن کے جسدِ خاکی کو کسی پاکستانی سربراہ مملکت نے کندھا دیا۔
ان کے وزیر اعظم بننے سے پیغام ملا کہ عام آدمی بھی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔اسی پیغام کا نتیجہ ہے کہ نصف صدی بعد بھارت میں ایک چائے بیچنے والا وزیر اعظم ہے۔ بھلا ایک اسلامی ملک میں ایسا ممکن ہے ؟ مستقبل قریب میں تو ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
لعل بہادر شاستری کا یوم وفات 11 جنوری 1966 ہے۔ بارہ برس بعد اسی تاریخ کو ابن انشاء بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ یوں وحید مراد اور ابن انشاء دو عظیم پاکستانی شخصیات کے ساتھ ان کی زندگی کے دو اہم دن متصل ہیں۔