تحریر: ابنِ ریاض
قریب چودہ سال بعد کرکٹ کی ایک بڑی طاقت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ آخری مرتبہ 2007ء میں بھی جنوبی افریقہ نے ہی پاکستان کا دورہ کیا تھا اورپاکستان کو ٹیسٹ و ایک روزہ میچوں کی سیرز میں شکسست دی تھی۔ 2008ء میں ایشیا کپ اور 2009ء میں سری لنکن ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا مگر غیر ایشیائی آخری اہم ٹیم جنوبی افریقہ ہی تھی۔
اب چودہ برس بعد جنوبی افریقہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اگرچہ اب یہ ٹیم پہلے جیسی طاقت نہیں رہی مگر ایلگز، ڈوپلیسی، ڈی کاک اور ربادا کی موجودگی میں اسے کمزور ٹیم نہیں کہا جا سکتا تھا۔ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو دونوں میچوں میں شکست دے کر پہلی مرتبہ کلین سوئپ کیامگر دیکھا جائے تو مقابلے یک طرفہ نہیں تھے بلکہ اہم مواقع پر پاکستان کھلاڑی نے زیادہ قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے سیریز جیتی۔
پاکستان کے لئے یہ سیریز اس لئے بھی اہم تھی کہ بیرون ملک پے درپے شکستوں کے بعد ٹیم کا مورال بہت نیچے تھا اور ایک اہم فتح کی ٹیم متلاشی تھی۔ کوچنگ اسٹاف پر بھی دباؤ اس سے کم ہو گا تاہم ابھی بھی پاکستان کو بہت کام کرنا ہے۔
اس سیریز کے منفی ومثبت پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔جب کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ کئی خامیاں چھپ جاتی ہیں۔ پہلے منفی پہلو دیکھے جائیں تو اوپر کے بلے بازوں نے مکمل مایوس کیا۔ پچاس سے قبل تین وکٹیں تو قریب ہر اننگز میں پاکستان کی گری تھیں سو بلے بازوں پربہت کام کرنا ابھی باقی ہے اور سب سے اہم انھیں اعتماد دینا ہے۔ ایک دو کھلاڑیوں کو نکالا جا سکتا ہے لیکن زیادہ تبدیلیاں فائدے کی بجائے نقصان دیتی ہیں۔ سو بلے بازوں کی تکنیک پر کام کرنا ہو گا اور انھیں اعتماد دینا ہو گا۔ ٹیسٹ میچز میں ون ڈے کی طرح ہر بال پر رنز نہیں بنتے مگر آج کل کی کرکٹ میں لگاتار چھ سات اوورز میڈن کھیلنا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ سو کھلاڑیوں کو سکور بورڈ کو متحرک رکھنے کی تربیت دینا ہو گی۔
بلے بازوں کو لیفٹ آرم سلو بالرز نے بالخصوص بہت مشکل میں ڈالا۔نئے کھلاڑیوں کو تو گنجائش دی جا سکتی ہے مگر بابر اور اظہر جیسے بلے بازوں کا دو ٹیسٹ میں تین مرتبہ لیفٹ آرم اسپنرز کے ہاتھوں آؤٹ ہونا اتفاق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ان کے تکنیکی مسائل پر ابھی بہت کام کیا جا سکتاہے ۔
ایک ایسی وکٹ پر جہاں جنوبی افریقی سلو باؤلرز نے ایک اننگز میں آٹھ وکٹیں لیں وہیں یاسر شاہ و نعمان کو رنز روکنے میں بھی مشکل پیش آئی۔ بلاشبہ ہر مرتبہ وکٹیں نہیں ملتی تاہم ایسی صورت حال میں رنز روک کر پریشر ڈالا جاتاہے جس میں ہمارے سپنرز راولپنڈی میں اس قدر کامیاب نہیں رہے۔ اس پر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔
اس سیریز کے مثبت پہلوؤں پر اگر نظردوڑائی جائے تو کچھ اہم نکات یہ ہیں۔
پچھلے کئی سالوں میں ہمارے لوئر آرڈر بلے باز چلتی پھرتی وکٹ ہوا کرتے تھے۔ بیس تیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ رنز میں آخری چار پانچ وکٹیں گر جاتی تھی جس سے پاکستان کے میچ ہارنے کے تناسب میں بہت اضافہ ہوا۔گزشتہ چند سیریز میں ہمارے لوئر آرڈر بلے بازوں نے بہت اہم اور قیمتی رنز بنائے ہیں۔ اس سیریز میں تو لوئرآرڈر بلے بازوں کا کلیدی کردار رہا۔فہیم و رضوان نے بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا ہی مگر ان کا ساتھ جس طرح بالروں نے دیا وہ انتہائی دلچسپ و خوش گوار منظر تھا۔ پہلے ٹیسٹ میں ایک سو اٹھاون کی برتری دلانا ہو یا دوسرے ٹیسٹ میں ایک مناسب ہدف کو ناقابل عبور بنانا ہو پاکستانی نچلے بلے بازوں نے اپنا کردار بخونی نبھایا۔ اگر کہا جائے کہ دونوں ٹیموں میں فرق لوئرآرڈر رنز کا تھا توبے جا نہ ہو گا۔
کافی عرصے بعد پاکستان نے اس سیریز میں بہتر فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا اور عمدہ کیچز پکڑے۔ عمران بٹ نے رنز تو زیادہ نہیں بنائے مگر دونوں میچوں میں بہت عمدہ کیچز پکڑے۔ فیلڈنگ میں بھی پاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے کہ پاکستان ٹیم کی فیلڈنگ مخالف ٹیم سے بہتر رہی ہو۔
اس عشرے میں پہلی مرتبہ کسی بھی پاکستانی بالر نےمیچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔ گزشتہ عشرے میں سعید اجمل نے چار مرتبہ جبکہ یاسر شاہ نے تین مرتبہ یہ کارنامہ سر انجام دیا تاہم اس دوران صرف ایک مرتبہ فاسٹ بولر محمد عباس دس وکٹیں ایک میچ میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب حسن علی کی دس وکٹوں کے بعد امید ہے کہ مزید بھی پاکستانی باؤلرز ایسے کارنامے سر انجام دیتےرہیں گے۔
سب سے اہم بات جو ہمیں دکھائی دی وہ اس سیریز میں وکٹ لینے کا انداز تھا۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور پھر نیوزی لینڈ میں ہمیں مخالف ٹیم کو آؤٹ کرنے میں شدید مشکل پیش آئی۔ ظاہر ہے ہمارے فیلڈرز نے کئی کیچ چھوڑے اور مخالف بلے بازوں کو لمبا سکور کرنے کا موقع دیا۔ علاوہ ازیں ہمارے گیند باز کلین بولڈ اور ایل بی ڈبلیو کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے تا ہم اس سیریز میں پاکستانی باؤلرز نے چالیس وکٹوں میں سے سولہ وکٹیں کلین بولڈ اور ایل بی ڈبلیو کی صورت میں حاصل کیں۔ گویا چالیس فیصد وکٹوں کے لئے بالرز کو کسی فیلڈر پر انحصار نہیں کرنا پڑا۔اس سے بالرز کا اعتماد بھی بلند ہوا اور فیلڈرز پر دباؤ بھی کم ہوا جس سے فیلڈنگ میں بہتری بھی واضح نظر آئی۔دو میچوں میں کیچز کے علاوہ چار رن آؤٹ اس کی واضح مثال ہیں۔ جب کہ رن آؤٹ ہونے والے کھلاڑی سیٹ ہو کر اچھا کھیل رہے تھے۔
امید ہے کہ یہ سیریز محض عمدہ کارکردگی کی نایاب جھلک ثابت نہیں ہوئی گی بلکہ ایک نئے اور بہتر دور کا آغاز ثابت ہو گی۔