تحریر:ابنِ ریاض
1990 کے عشرے کے وسط تک پاکستان ٹیلی ویژن پر 14 اگست اور 23 مارچ جیسے قومی دنوں پر جو پروگرام پیش کیے جاتے تھے ان میں کھیلوں کا بھی نمایاں حصہ ہوتاتھا۔ ان پروگراموں میں پاکستان کی مختلف کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا تذکرہ کیا جاتا تھا کہ کیسے ،کہاں اورکن کھلاڑیوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں سبز ہلالی پرچم کو بلند کیا-یہاں یہ بھی بتا دیں کہ نوے کی دہائی کے وسط تک پاکستان کھیلوں کے لئے انتہائی زرخیر ملک تھا۔ کرکٹ ،ہاکی ،سکواش اور سنوکر میں ہم بیک وقت عالمی چیمپئن تھے۔ اس کے علاوہ ہماری والی بال اور باکسنگ کم از کم ایشیا کی حد تک بہت اچھی تھی۔ریسلنگ میں بھی ہماری ٹیم میڈل نکالا کرتی تھی۔ باکسنگ میں تو ہم دو چار میڈلز کی امید رکھا کرتے تھے۔ کشتی رانی میں بھی پاکستان کی ٹیم اچھی تھی۔ 1978ء کے بنکاک اور 1982 کے نیو دہلی ایشین کھیلوں میں پاکستان نے بہرام آواری کی شاندار کارکردگی کے باعث اس کھیل میں گولڈ میڈل لیا تھا۔ ہمارے اتھلیٹس بھی کسی سے کم نہ تھے اور 1990ء کے بیجنگ ایشیائی کھیلوں کا تو ہمیں اچھے سے یادہے کہ پاکستان کے غلام عباس نامی اتھلیٹ نے چار سو میٹر رکاوٹوں کی ریس میں گولڈ میڈل حاصل کیاتھا۔ ان پروگراموں میں عبدالخالق کا ذکر لازم تھا مگر پھر اتھلیٹکس میں دیگر کھیلوں کی مانند پاکستانی کارکردگی بھی زوال پذیر ہوئی تو دلچسپی بھی ختم ہونے لگے۔ عبدالخالق کا نام ذہن سے محو ہو گیا۔ پھرجب انٹر نیٹ آیا تو ہم نے ان کے کارنامے ڈھونڈنے چاہے تو غلطی سے عبدالخالق کی بجائے عبدالرزاق اتھلیٹ کے نام سے سرچ کرتے اور کچھ نہ ملتا۔ بعد ازاں بھارت نے بھاگ ملکھا بھاگ فلم بنائی اور اس میں عبدالخالق کا ذکر آیا تو پاکستانی عبدالخالق سے متعارف ہوئے۔ جاویدچودھری نے ان پر کالم لکھا۔ پھر ڈان اور نیوز نے بھی تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ پاکستانی ہیرو پر فلم تو کیابنتی اسے دنیا سے گئے بھی ربع صدی گزر چکی اور کسی کو علم ہی نہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے ہمیں اپنے ہیرو سے بھارت نے روشناس کروایا۔
جنڈ اعوان چکوال میں 23 مارچ 1933ء میں جنم لینے والا بچہ پاکستان کا بہترین اتھلیٹ بنا۔ بچپن سے ہی وہ کبڈی کے بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کی صلاحیت دیکھتے ہوئے انھیں آرمی بوائز کمپنی میں بھرتی کر لیا گیا۔ اس کمپنی کا کام بہترین اتھلیٹ اور کھلاڑی تیار کرنا تھا اور عبدالخالق نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دیا۔1950ءکی دہائی ان کے کیریئر کا بہترین دور تھا۔ اسی عشرے میں انھوں نے زیادہ تر میڈلز جیتے۔ یوں بھی اتھلیٹ کا بہترین دور چھبیس ستائیس سال تک ہی ہوتا ہے۔
1954ء کے منیلا ایشیائی کھیلوں میں سومیٹر کا فاصلہ ساڑھے دس سیکنڈ میں طے کر کے ایشیائی ریکارڈقائم کیا تھا۔ نہرو یہاں مہمان خصوصی تھے۔ نہرو نے عبدالخالق کو ‘فلائنگ برڈ آف ایشیا’ کا خطاب دیا تھا۔1958ء کے ٹوکیو ایشیائی کھیلوں میں انھوں نے تین طلائی تمغے حاصل کیے۔پاکستان چھ اتھلیٹکس تمغوں کے ساتھ دوسرے اور مجموعی طور پر تمغوںکی تعداد کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر رہا۔ 1962ء کے ایشیائی کھیلوں میں بھی تمغے ان کے سینے پر سجے اور وکٹری سٹیڈ پر پاکستان کا قومی ترانہ بجا۔ 1956ء کے میلبورن اولمپکس میں ان نے سو میٹر کے پہلے دو راؤنڈز میں پہلی پوزیشن لی اور مجموعی طور پر ساتویں۔ اس وقت عالمی چیمپئن شپ تو ہوتی نہیں تھی تو اولمپکس میں ساتویں پوزیشن کا مطلب ہوا عالمی درجہ بندی میں وہ ساتویں درجے تک جا پہنچے ۔ گویا آسان لفظوں میں اس وقت دنیا کے دس بہترین اتھلیٹس میں ان کا نمایاں مقام تھا۔ایک ہی دن میں ان کی دو سو میٹر اور سو میٹر دوڑیں آ جانے سے ان کی کارکردگی میں فرق پڑا ورنہ عین ممکن تھا کہ پاکستان کا اولمپک کھیلوں میں اتھلیٹکس کا پہلا میڈل بھی عبدالخالق کے نام ہوتا۔
پاکستان کا نام دنیا میں روشناس کروانے میں اس اتھلیٹ کا بڑا کردار ہے۔ان کے بیٹے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کی جرسی پر پاکستان لکھا ہوا تھا تو جب انھوں نے دوڑجیت لی تو منتظمین نے اعلان کیا کہ مسٹرپاکستان نے مقابلہ جیت لیا ہے۔اس پر انھوں نے جا کر منتظمین کو بتایا کہ ان کا نام عبدالخالق ہے اور پاکستان ان کے وطن کا نام ہے تو منتظمین نے اپنی غلطی کی تصحیح کی۔ ایک مرتبہ ہیلسنکی میں انھوں نے دوڑ جیتی تو فن لینڈ والوں کے پاس پاکستان کا قومی ترانہ ہی نہ تھا۔ اس پر عبدالخالق اور پاکستانی دستے کے دوسرے اراکین نےترانے کے متبادل لڈی اور بھنگڑا ڈال کر میڈل وصول کیا۔
1971ء میں وہ یقیناً مشرقی پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے چنانچہ جب ملک دو لخت ہوا تو جنگی قیدیوں میں عبدالخالق بھی شامل تھے۔ پاکستانیوں نے تو انھیں احترام دیا یا نہیں اس سے ہم واقف نہیں مگر ان کے بھائی کے بقول اندرا گاندھی نے چونکہ انھیں منیلا ایشین گیمز میں دیکھ رکھا تھا اور ان سے واقف تھیں تو بھارت کی وزیر اعظم نے انھیں رہا کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔تاہم انھوں نے شکریے کے ساتھ اندرا گاندھی کی پیشکش رد کر دی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہی رہا ہونے کا فیصلہ کیا۔
چارگولڈ میڈل لینے والے پر بھارت نے فلم بنا دی اور چھتیس سونے کے تمغے،پندرہ چاندی اور بارہ کانسی کے تمغے یعنی ترینسٹھ بین الاقوامی تمغے پاکستان کے لئے ایک بندےنے حاصل کیے اور وہ دنیا سے چلا گیا اور کسی کو علم تک نہیں ہوا۔گیارہ اور بارہ مارچ 1988 کے اخبارات میں شاید ہی ان کی وفات سے متعلق کوئی دو چار سطری تحریر ہو۔ اگرچہ اس کی امید کم ہی ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ اور اتھلیٹک فیڈریشن آف پاکستان کو بھی اکیس توپوں کی سلامی کہ نیا اتھلیٹ تو کوئی ابھارا اور جو تھا اسے بھلانے میں دیر نہیں کی۔
ہمارا اپنے ہیروز کے ساتھ سلوک کیسا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ پڑوسی ملک نے مہندرا سنگھ دھونی کو لیفٹننٹ کرنل بنا دیا اور ہمارا پاکستانی اتنے گولڈ میڈل لینے اور فوج میں ہونے کے باوجود صوبے دار ہی رہا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعزازی طور پر کسی افسر رینک پر ہی ترقی دے ہی جاتی۔چند برس قبل عبدالخالق مرحوم کی بیوہ کو پاکستان سپورٹس بوڑد نے مدعو کر کے ایک سووینیر پیش کیا۔انھوں نے درخواست کی کہ چکوال میں کوئی کھیلوں کا میدان بنایا جائے اور اسے ان کے مرحوم شوہر کے نام سے منسوب کیا جائے۔ ہمارے خیال میں وہ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں ۔ پاکستان سپورٹس بورڈ اور اولمپک ایسوسی ایشن کو کسی بین الاقوامی معیار کے سٹیڈیم کو ان سے منسوب کرنا چاہیے۔ پاکستان سپورٹس کمپلیکس کو یا ان کے کسی حصے کو عبدالخالق کے نام سے منسوب کیا جائے اور وہاں ان کے کارنامے آویزاں کیے جائیں۔
ابھی محمد وسیم نامی باکسر اور محمد انعام بٹ نامی ریسلر پاکستان کے لئے کوئی نہ کوئی تمغہ لے آتے ہیں۔ کھیلوں کے اداروں کو ان کی بھرپور سرپرستی کرنی چاہیے اور ان کا حال عبدالخالق جیسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ یہ کھیل بھی تاریخ میں گم ہو جائیں گے۔