گھر سے چوہے نکالنا  کوئی  آسان  کام نہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • گھر سے چوہے نکالنا  کوئی  آسان  کام نہیں

    تحریر : ابنِ ریاض

    ہماری بلڈنگ میں آٹھ گھر ہیں جن میں سے صرف دو اس وقت استعمال میں ہیں۔ ایک میں ہم رہتے ہیں اور ایک گھر میں ایک اریٹرین خاندان رہائش پذیر ہے۔ اس عمارت میں آئے ہمیں ڈھائی سال سے زائد ہو چکے ۔ جب ہم اس عمارت میں آئے تھے تو ایک کے علاوہ سب گھر ہی بھرے پُرے تھے۔بعد ازاں سعودی عرب  کے  حالات کے باعث ایک ایک کر کے لوگ جانے لگے۔اریٹرین خاندان کے آنے سے پہلے ہماری یہ عمارت بالکل صاف تھی۔اس میں کسی قسم کا کوئی کیڑا مکوڑا بھی نہیں تھا۔لیکن پچھلے ایک ماہ سے ہمارے باورچی خانے میں ایک چوہے کی آمد تھی۔ اس کا اندازہ اس کے پورے باورچی خانے میں پھیلائے ہوئے گند کو دیکھ کر ہوتا تھا۔

    ہم نے آج تک چوہا کیا کوئی اور جانور نہیں مارا۔ حیاتیات بھی میٹرک کرنے کے بعد  ہم نے اسی لئے نہیں رکھی تھی کہ نہ صرف ان جانوروں کی تصاویر بنانی پڑیں گی بلکہ ان کو مارنا بھی پڑے گا دونوں ہی کام جوئے شیر لانے کے برابر۔ پاکستان میں گھر میں چوہا آتا تھا تو ہم چوہے مار ٹیم میں شامل ضرور ہوتے تھے۔ اس میں ہماری مہارت و لیاقت کا عمل دخل نہیں بلکہ وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ کھلاڑیوں کی کمی رہی ہے۔۔ پاکستان میں چوہے مارنے کا طریقہ بڑا ہی ظالمانہ ہے۔  جس  گھر میں چوہا نظر آ جائے سب سے پہلے تو ارد گرد کے کمروں کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں۔  پھر گھر کے افراد اپنے ہاتھ میں آلات حرب پکڑتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں وائپرتو کسی کے  ہاتھ میں ڈنڈا۔ اور کچھ نہ ملے تو جھاڑو تو ہے ہی اور سب ختم ہو جائے توہاتھ میں جوتا پکڑ لو اور چوہے کو گیند سمجھ کر اس سے ہاکی کھیلنا شروع کر دو۔ آخرکار وہ مر ہی جائے گا۔ یہ کھیل ہم نے بھی پاکستان میں کھیلا مگر اس میں ہم گول کیپر یعنی دروازہ کیپر ہوتے تھے کہ بس چوہے کو کمرے سے باہر نہ نکلنے دیں ۔ویسے تو ہمیں دروازے کے سامنے کھڑا دیکھ کر ہی چوہا اپنا رخ بدل لیتا تھا تاہم کبھی اسے ہمارے ڈنڈے یا جوتی سے کوئی ضرب پڑ گئی ہو تو اس کی قسمت ورنہ ہم نے اس  گناہ سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے علاوہ وہ چوہے دان بھی استعمال کیا جاتا تھا پاکستان میں جو چوہے کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کر دیتا تھا۔

    صبح صبح بیگم کو پورے کچن کی صفائی کرنی پڑتی۔  سناتی وہ ہمیں گویا کہ ہم اسے بلا کر گھر لائے ہیں۔ منہ اندھیرے توتو میں میں اچھی بات تو نہیں ہوتی۔ اب ہمیں اس چوہے سے نجات کا کچھ کرنا تھا۔ پاکستان والا طریقہ یہاں نہیں چل سکتا تھا۔ کیونکہ  کچن میں دو اطراف ریک ایک طرف سنک اور ایک طرف فریج سو ہم ڈنڈا اٹھا کر سلطان راہی مرحوم والی بڑھک تو مار سکتے تھے مگر ڈنڈا چلانے کی جگہ نہ تھی اور چوہا  ریک کے نیچے یا ادھر ادھر باآسانی چھپ سکتا تھا۔ بیگم تو ہماری طرح فل بیک یا کیپر بننے کو بھی تیار نہ تھیں بس ہمیں حکم سنا دیا کہ اس سے جان چھڑوائیں۔ نوکر  کی تے نخرہ کی۔ گھر میں ایک چوہے دان تھا جس میں چوہا قید ہو جاتا ہے اور آپ اسے باہر جا کر آزاد کر سکتے ہیں۔ہم نے اس چوہے دان میں پھل کے ٹکڑے  ڈال کر رکھ دئیے۔ اور چوہے دان کو باورچی خانے میں رکھ دیا۔اگلی صبح دیکھا تو وہ ٹکڑے نکال کر لے گیا تھا مگر چوہے دان میں پھنسا نہیں تھا۔ یقیناً کہیں سے  کمانڈو کی تربیت لیے ہوا تھا یہ چوہا۔ اس سے اگلے روز بھی ایسا ہوا۔  کچھ اس کا بھی حوصلہ بڑھ گیا تھا کہ ایک روز سر شام ہم پانی پینے گئے تو دیکھا کہ سانڈ نما موٹا تازہ چوہا وہاں موجود ہے۔ ہمیں دیکھ کر اس نے چھلانگ  لگائی اور ریک اور کھڑکی پر قدم رکھ کےایگزاسٹ سے باہر نکل گیا۔ موٹے انسان سے ہلا نہیں جاتا اوریہ چوہا ہو کر ایسااتنا  چست و چالاک۔ ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ اس راستے سے باورچی خانے میں داخل ہوتا ہے۔ ہم نے اب ایکزاسٹ سارادن اور ساری رات  چلانا شروع کر دیا۔ اس سے کچھ دن سکون ہوا کہ وہ ہمار باورچی خانے سے دور رہا۔ایک رات کھڑکی کھلی رہ گئی تو اگلے روز اس کی جالی میں چوہے نے سوراخ کر رکھا تھا۔ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تھا مگر باورچی خانے کی جالی پر چونکہ چکنائی پڑتی تھی تو چوہا سوراخ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب کھڑکی بھی بند ہو گئی مگر ایک روز مائیکرو ویو چلایا تو وہ نہ چلا۔ معلوم ہوا کہ اس کے دروازے کا ہک خراب ہو گیا ہے اور وہ بند نہیں ہو پا رہا۔   مائیکرو ویو کو ہم نے بصرف زر کثیر ٹھیک کروایا۔

    ابھی اس جھٹکے سے نہ سنبھلے تھے کہ لگاتار چلنے سے ایگزاسٹ خراب ہو گیا۔ اس چوہے نے ہمیں ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ اب مالی نقصان بھی دینا شروع کر دیاتھا۔ ہم نے ایگزاسٹ والی جگہ کو پلاسٹک شیٹ  سے بند کرنا چاہا لیکن ایگزاسٹ پر ٹیپ ہی نہ چپکی۔ یہاں بھی چکنائی والا ہی مسئلہ تھا۔ ہم نے کسی طرح اسےلپٹا ہی دیا ایگزاسٹ کے گرد مگر یہ بھی ایک دو روز میں ہی جواب دےگئی۔ ایک مرتبہ پھر اس کا راستہ کھل گیا۔ باورچی خانے کا زیادہ سامان اب ہم رات میں لاؤنج میں رکھ دیتے تھے مگر باورچی خانہ پھر بھی بیگم کو پورا دھونا ہی پڑتا تھا صبح صبح کہ معلوم نہیں کہاں کہاں اس نےقدم مارے ہوں گے۔ اس چوہے کی کمینگی کا بدلہ بیگم ہم سے لیتی تھی۔ پہلے ہم چوہے مار گولیوں کے خلاف تھے کہ وہ کھا کر چوہا کسی پائپ لائن میں مر گیا تو اور بڑا مسئلہ ہو جائے گا مگر ایگزاسٹ سےاس کی آمد ورفت  دیکھ کر ہم نے سوچا کہ گولیوں میں  بھی مضائقہ نہیں۔ ہم نے بقالے سے پوچھا کہ کوئی چوہے مار گولیاں ہیں مگر معلوم ہوا کہ یہاں یہ نہیں ہوتی۔ پھر چوہوں کا حل پوچھا تو  جواب ملا کہ ایک گوند ملتی ہے پلاسٹک پلیٹ پر لگی ہوئی۔ جہاں چوہا آتا ہے  وہاں رکھ دو۔ چوہا جب آئے گا تو اس پر چپک جائے گا پھر اس کو پھینک آنا۔ ہم نے دو پلیٹیں خرید لیں۔رات کو گھر میں موجود چاہے دان میں بھی کھانے کے ٹکڑے رکھے اور ان دو پلیٹوں پر بھی اور  ایک پلیٹ اور چوہے دان باوررچی خانے کے فرش پر رکھا اور ایک ریک پر  رکھ دی جو اس چوہے کے آنے جانے کا راستہ تھا۔ پھر کچن بند کر کے ہم چلے گئے۔صبح اٹھ کر باورچی خانے میں داخل ہوئے تو فرش پرپلیٹ اور چاہے دان تو موجود تھے مگر ریک والی پلیٹ غائب تھی۔ ادھر ادھر دیکھا تو ریک والی پلیٹ ریک کے نیچے پہنچ چکی تھی  اور اس کی گوند کا کچھ حصہ  فرش پر لگا ہوا تھا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ چوہے نے ریک والی پلیٹ پر پاؤں رکھا تو وہ اس میں پھنس گیا۔ اس نے نکلنے کے لئے زور لگایا(اچھا خاصا سانڈ سا تو تھا) تو پلیٹ ریک سے نیچے گر گئی جس سے وہ آزادہو گیا اور بھاگ گیا۔

    اگرچہ چوہا ہمارے پھندے سے بچ نکلا تھا مگر ہمیں   امید ہو گئی کہ اب اس کے دن گنےجا چکے ہیں۔ اگلے روز ہم نے پھر یہ سب کر کے رکھا اور اس مرتبہ ہم نے پلیٹیں زمین پر رکھیں اور چوہے دان کو ریک پر۔ اگلی صبح ہم باورچی خانے میں گئے تو کچھ بھی نہ تھا۔ہمارے نکلتے ہی بیگم کچن میں گئیں کہ دیکھیں اس نے کہاں کہاں گند پھیلایا تو ایک دم اچھل کرچیختی ہوئی باہر نکلیں کہ پلیٹ پر چوہا پھنسا ہوا ہے۔ آپ نے دیکھا کیوں نہیں ؟  ہم نے کہا کہ تب تو نہیں تھا شاید بعد میں آیا ہو تو کہنے لگیں کہ ہاں میرے سامنے پلیٹ پر چڑھا تھا۔ ہم نے کہا کہ پھر ہم کیسے دیکھتے ؟ ہم نے دیکھا تو یہ چھوٹا سا چوہا تھا۔ ہمیں افسوس ہوا کہ وہ ہمارا ‘مطلوبہ’چوہا نہ تھا مگر ساتھ ہی خوشی بھی ہوئی کہ ایک مہینے بعد سہی ہم نے کھاتاتو کھولا ہے اور بیگم کو بھی تسلی دی کہ یہ پکڑا گیا ہے تو بڑے کے بھی دن زیادہ نہیں۔ اس پلیٹ کو ہم  شاپر میں ڈال کر باہر پھینک آئے۔

    اگلے روز اب ایک  گوند والی پلیٹ اور ایک چوہے دان تھا ہمارے پاس۔چوہے دان میں ہم نے روٹی رکھی اور اس کو بند کرنے والے ڈنڈے سے باندھ دیا۔ پہلے ہم اس ڈنڈے سے باندھنے کی بجائے آگے رکھ دیتے تھے کہ چوہے  کے جسم کا کوئی حصہ تو اس ڈنڈے سے ٹکرائے گا ہی اور وہاس میں بند ہو جائے گا۔  اس مرتبہ ہم نے روٹی لی اور اس کو ڈنڈے سے باندھ دیا۔ اس کا نتیجہ حسبِ توقع نکلا اور صبح جب ہم باورچی خانے گئے تو اس مرتبہ چوہے دان میں چوہا تھا مگر اب بھی یہ چھوٹا اگرچہ پہلے والے سے بڑا تھا۔ تاہم یہ چوہا ندیدہ تھا کیونکہ اس نے ساری روٹی کھا لی تھی۔ سوچا ہو گا کہ اب نکل تو سکتا نہیں ہوں ابھی تو پیٹ بھر لوں۔ اس مرتبہ ہم نے چوہے دان اٹھایا اور گھر کے قریب پارک میں لے گئے۔ ہماری بلڈنگ کے باہر بلیوں کی کوئی کمی نہیں  اور جتنا ان چوہوں نے ہمیں تنگ کیا اس کا بدلہ تو یہی بنتا تھا کہ انھی بلیوں کے حوالے کر دیں اس چوہے کو۔تاہم  ہمیں گوارا نہ ہوا کہ کئی گھنٹوں سے بند چوہے کو ان کے آگے چھوڑدیں۔ تاہم پارک میں وہ چوہا خود ہی اس طرف چلا گیا جس طرف ایک بلی موجود تھی۔اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔

    اگلے دن کچھ نہیں ہوا۔ اس سے اگلے روز پھر چوہے دان بند تھا۔ اس مرتبہ قدرے بڑا چوہا تھا تاہم اتنا بڑانہیں تھا جتنا ہم نے کھلے عام دیکھا تھا۔ ممکن ہے ہماری عینکوں نے اسے بڑا کر دکھایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ چوہے دان میں اتنے گھنٹے گزارنے سے وہ کمزور ہو گیا ہو کیونکہ اس مرتبہ روٹی کا ٹکڑا پورا ہی موجود تھا۔ شاید چوہے کو اپنے اعمال یاد آ رہے ہوں اور اسے محسوس ہو رہا ہو کہ اس مرتبہ کوئی این آر او نہیں ملنے والا کیونکہ مقابل عمران ہی تھا۔ مالی نقصان تو اس نے کیا  مگر بازیابی کیا کرتے۔ بس اسے پھر گھر بدر کیا اور سکھ کا سانس لیا۔اس کے بعد بھی ہم نے کچھ دن تک یہ مشق جاری رکھی مگر مزید کوئی چوہا پھنسا اور نہ ہی باورچی خانے میں ان کی موجودگی کا کوئی ثبوت ملا۔۔ اس تمام مشق سے ہم نے یہ سیکھا کہ ناجائز قبضوں سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں بھلے قبضہ گھر کا ہو زمین کا ہو یا ملک کا۔  ہر صورت میں زورِبازو اور حکمت عملی سے کام لینا پڑتا ہے ورنہ دوسری صورت میں صبر کا گھونٹ پینا پڑتا ہے جو ضروری نہیں کہ اس کے پھل کی مانند میٹھا ہو۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔