پاکستان جنوبی افریقہ  سیریز  2021 ء  (میزبان جنوبی افریقہ) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستان جنوبی افریقہ  سیریز  2021 ء  (میزبان جنوبی افریقہ)

    تحریر: ابن ریاض

    جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے ہمیشہ سے مشکل ترین دورے ثابت ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں تاحال پاکستان نے ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی بلکہ آسٹریلیا میں دو عشروں اور جنوبی افریقہ میں ڈیڑھ عشرے میں کوئی ٹیسٹ جیتنا تو درکنار ڈرا بھی نہیں کیا۔ تاہم سفید بال کرکٹ کے لئے یہ ممالک پاکستان کے لئے قدرے بہتر ہیں۔پاکستان نے اپنا واحد عالمی کپ آسٹریلیا میں جیتا۔علاوہ ازیں یہیں   1997 میں ایک تین ملکی سیریز کا بھی پاکستان فاتح رہا تا ہم بعد ازاں محدود اوورز کے میچز کے لئے بھی حالات کافی مشکل ہو گئے۔ جنوبی افریقہ کی بات کی جائے تو پہلے ٹی ٹونٹی عالمی کپ کا فائنل پاکستان نے کھیلا۔اسکے علاوہ پچھلے عشرے میں ٹی ٹونٹی اور ایک روزہ میچز کی ایک  ایک سیریز پاکستان کے نام رہی ہے۔

    اس مرتبہ پاکستانی ٹیم محدود اوورز کی سیریزوں کے لئے افریقہ پہنچی۔ یہاں تین ایک روزہ میچز اور چار ٹی ٹونٹی کھیلے جانے تھے  اور پاکستان کی جیت کے امکانات بالخصوص ٹی ٹونٹی میں اس لئے روشن تھےکہ جنوبی افریقہ کے پانچ اہم کھلاڑیں نے دو ایک روزہ میچوں کے بعد آئی پی ایل کھیلنے جانا تھا۔ ایک روزہ میچوں کی سیریز پاکستان دو ایک سے جیتا اور ٹی ٹونٹی سیریز تین ایک سے۔ پہلی مرتبہ پاکستان نے جنوبی افریقہ میں ایک سے زائد سیریز اپنے نام کیں۔

    پہلے ایک روزہ میچ میں بابر کی سینکڑے اور امام کی نصف سینچری کی بدولت پاکستان نے پونے تین سو کے ہدف کا کامیاب  لیکن خون خشک کرنے والاتعاقب کیا۔ دوسرے میچ میں جنوبی افریقہ نے تین سو چالیس کا پہاڑ کھڑاکر دیا اور پاکستانی بلے باز ریت کی دیوار کی طرح گرنے لگے ماسوائے فخر زمان کے۔ انھوں نے ون ڈےکی بہترین اننگز میں سے ایک کھیلی اور یک طرفہ ہار کو ایک زبردست فائٹنگ میچ میں تبدیل کر دیا۔ ایک سو ترانوے پر جب وہ متنازع آؤٹ ہوئے تو دوسرا بہترین انفرادی سکور اکتیس تھا۔  تیسرے ایک روزہ میں جنوبی افریقہ کی قدرے نا تجربہ کار ٹیم تھی اور پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے فخر کی سینچری اور بابر کے چورانوے رنز سے تقویت پاتے ہوئے تین سو بیس رنز سکور کیے جس کے جواب میں افریقہ ٹیم دو سو بانوے پر ہمت ہار گئی اور یوں سیریز پاکستان کے نام ہوئی۔

    ٹی ٹونٹی سیریز کے پہلے میچ میں قریب ایک سو نوے کا ہدف تھا جو پاکستان ٹیم نے رضوان کی ناقابل شکست نصف سینچری کے باعث کامیابی سے عبور کر لیا۔ دوسرے میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی اور پوری ٹیم ایک سو چالیس رنز ہی بنا سکی جو میزبان نے چودہ اوورز میں  پورا کر کے سیریز برابر کر دی۔ تیسرے میچ میں جنوبی افریقہ نے دو سو رنز کے زائد کا ہدف دیا تو پاکستان ٹیم کے اوپنرز بابر اور رضوان نے ہنستے کھیلتے مکمل کر لیا۔ بابر نے ایک انتہائی خوبصورت سینچری بنائی جبکہ رضوان نے ناقابل شکست تہتر رنز کی باری کھیلی۔آخری میچ میں جنوبی افریقی ٹیم ایک سو چوالیس ہی بنا سکی تاہم پاکستان ٹیم جو اپنی اننگز کے دس اوورز تک یکطرفہ جیت رہی تھی اس نے غیر متوقع طورپر میچ دلچسپ بنا دیا اور پاکستان بمشکل یہ ہدف عبور کر کے سیریز جیت پایا۔

    یہ سیریز جیسے شروع ہوئی تھی حیرت انگیز طور پرویسے ہی ختم ہوئی۔پہلے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے ایک شاندارآغاز کے بعد وکٹیں گنوائیں اور آخری دو اوورز میں سات آٹھ کی اوسط درکار تھی۔  اس موقع پر نگیڈی نے ایک نو بال سے پاکستان کو لائف لائن دی اور پاکستان ہارتے ہارتےایک گیند قبل میچ جیت گیا۔ اس   زورفہیم نے پاکستان کی نیا پار لگائی ۔آخری ٹی ٹونٹی میں بھی یہی صورت حال ہو گئی جب دو اوورز میں پاکستان کو سولہ رنز چاہیے تھے اور اس مرتبہ نو بال کرانے کا جرم مگالاسے سرزد ہوا۔اس مرتبہ نواز کی شکل میں ایک بائیں ہاتھ کا  بلے باز  ایک گیند قبل  میچ ختم کر گیا۔مشکل صورت حال میں اس طرح تسلسل سے نوبالز پر ہمیں عامر و آصف کی یاد آئی(بدقسمتی سے)۔

    اس سیریز کے چار میچ سینچورین اور تین وینڈررز(جوہانسبرگ) میں کھیلے گئے۔ جوہانسبرگ میں پاکستان ایک میچ جیتا اور دو ہارے جبکہ سنیچورین میں پاکستان نے اپنے تمام میچ جیتے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو سینچورین کی پچ اپنے ساتھ لے آنی چاہیے۔ بابر کی دونوں اور فخر کی ایک سینچری بھی یہیں بنی جبکہ ایکس و ترانوے والی ریکارڈساز اننگز جوہانسبرگ میں کھیلی گئی۔

    پچھلے بیس برس میں ہم نے نیوزی لینڈسے دو اور برطانیہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے ایک ایک سیریز جیتی تھی سو سینا ممالک سے اس صدی میں یہ ہماری چھٹی ایک روزہ سیریز کی کامیابی ہے۔ سو مخالف  ٹیم جیسی بھی ہو کچھ عرصے بعد ریکارڈ میں صرف کامیابی اور ناکامی ہی دیکھی جاتی ہے اور ایک بڑی ٹیم کے خلاف اس کے گھر میں کامیابی سے یقیناً ٹیم کا مورال بلند ہو گا۔

    کرکٹ میں پینتیس سال میں ہم نے جتنی بھی سپر پاروز دیکھی ہیں ان میں کم از کم چاریا پانچ کھلاڑی عالمی رینکنگ میں ابتدائی پوزیشنوں پر براجمان ہوتے تھے۔ ویسٹ انڈیز کی اسی کی دہائی کی ٹیم میں گرینج، ہینز رچرڈز، مارشل، گارنر ایمبروز والش کو لیجیے۔ آسٹریلیا کی نوے  اور دو ہزار کی دہائی میں واہ برادرز، پونٹنگ ،میک گراتھ، شین وارن اور گلکرسٹ کر لیجیے۔پچھلے ڈیڑھ عشرے میں پاکستانی کھلاڑی عالمی درجہ بندی میں کافی نیچے تھے۔ کبھی کبھارکوئی ایک آدھ کھلاڑی آ جاتا تو وہ بھی وہاں اکیلا ہی ہوتا جیسے سعید اجمل ہمارے ذہن میں آ رہے ہیں۔ اس سیریز کے بعد پاکستان کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ابتدائی تینوں بلے باز بابراول، فخر سات اور امام تیرہ نمبر ہیں جبہ بالنگ میں شاہین کا نمبر بھی ابتدائی پندرہ میں ہے۔اگر ایک دو کھلاڑی اور اپنی رینکنگ اور کارکردگی بہتر کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب  پاکستان بڑی ٹیموں کو مستقل بنیادوں پر ہرانے لگے گا۔

    اس سیریز میں پاکستانی ٹیم بالکل بھارت کی  2017ء کی  ایک روزہ ٹیم کی طرح لگی ۔اس وقت  شرما ، دھون اور کوہلی ہی قریب تمام بیٹنگ کر لیتے تھے اور جب پاکستان نے فائنل میں انھیں ابتدائی دس اوورز میں آؤٹ کر دیا تو میچ ہم بآسانی جیت گئے۔ مڈل آرڈ میں ہمیں کچھ کھلاڑی چاہییں۔ انتظامیہ کو سوچنا ہو گا کہ آصف اور حیدر کو مزید کتنے مواقع دینے ہیں۔ دانش عزیز کو دو مواقع دیئے گئے مگر دونوں مرتبہ وہ نورکیا کے ایک شاندار اسپیل کی نظر ہو گئے۔ان اسپیلز کے دوران انھوں نے دیگر کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا سو بہتر تو تھا کہ دانش کو تیسرا میچ کھلایا جاتا جب نورکیا نہیں تھا تا ہم اب انھیں زمبابوے کے خلاف مسلسل موقع ملنا چاہیے تاکہ  ان کی اہلیت کا مناسب اندازہ ہو سکے۔

    باؤلنگ کی بات کی جائے تو اسے تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج کل جب کہ ایک روزہ میچز میں ساڑھے تین سو رنز عام بنتے ہیں اس میں دو میچوں میں ہماری ٹیم نے میزبان کو تین سو نہیں کرنے دئیے۔ ایک میں تین سو چالیس ہوئے مگر اس میں جنوبی افریقہ کی مکمل بالنگ کی موجودگی میں فخر کے قریب دو سو رنزاور پاکستان کا سترہ رنز سے ہارنا  اس بات کا ثبوت ہیں کہ چپ بیٹنگ کے لئے انتہائی سازگار تھی۔ اگر ایک دو کھلاڑی فخر کا کچھ دیر ساتھ دیتے تو وہ ہدف بھی پورا کیا جا سکتا تھا۔یار رہے کہ اسی میدان پر 2003 کے فائنل میں آسٹریلیانے تین سو ساٹھ  رنز کا ہدف دیا تھا بھارت کو اور پھر 2006 میں وہ ایک روزہ میچ بھی یہیں کھیلا گیا تھا جس میں چارسو چونتیس رنز  کا  جنوبی افریقہ نے کامیاب تعاقب کیا تھا۔

    ہماری انتظامیہ کولوڈ مینجمنٹ پر بھی غورکرنا چاہیے۔پاکستان  کرکٹ میں کوئی کھلاڑی بھی باہر بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ ایک میچ کے چار پانچ ہزار ڈالر ملتے ہیں تو ان کا نقصان  کیسے برداشت کرے کوئی ۔ اس کے علاوہ یہ خوف بھی دامن گیر ہوتا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور نہ لے لے۔ تاہم انتظامیہ کو  کھلاڑیوں  کو سمجھانا چاہیے کہ آرام  اورمناسب  لوڈ ان کے کیرئیر کے طول کے لئے از حد ضروری ہے۔  شاہین شاہ  ہمارا  اہم بالر ہے اور وہ ہر میچ مسلسل کھیلرہا ہے۔ رضوان   وکٹ کیپر تو  ہے ہی اور ساتھ میں ٹی ٹونٹی کا اوپنر بھی ہے ۔ ان دو کھلاڑیوں کالوڈ  کافی سے زیادہ ہے ۔انھیں مناسب آرام دینا چاہیے۔

    اس برس ٹی ٹونٹی کا عالمی کپ بھی بھارت میں ہے اور وہاں کی وکٹیں اسپن بالرز کو مدد دیتی ہیں۔ نواز اور عثمان پاکستان کے اہم ہتھیار ہوں گے۔ مڈل آرڈر میں اس وقت کی کارکردگی کی بنا پر تو شعیب ملک کی جگہ بنتی ہے۔ پاکستان کو حفیظ اور شعیب کی آف اسپن سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور ابھی سے انھیں میچ میں چند اوورز کرانے کے لئے تیار کرنا چاہیے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔