تحریر: ابنِ ریاض
ایک عشرہ قبل تک کرکٹ میں بھارت کی پہچان اس کے بلے باز اور سپنرز تھے۔ ہم انیس سو اسی کی دہائی کے وسط سے کرکٹ دیکھ رہے ہیں اور میڈیم پیس باؤلرز میں کسی کا نام سنا تو وہ کیپل دیو کا تھا۔ کیپل دیو کا ساتھ کبھی راجر بنی نے دیا تو کبھی منوج پربھارکر نے۔ نوے کی دہائی میں سری ناتھ آئے اور پھر ظہیر خان۔ بھارت میں چند سال قبل تک تیز گنیند باز اس قدر نایاب تھے کہ ظہیر خان اورسری ناتھ قریب تیس کی کیرئیر کی اوسط کے باوجود بھارت کی آل ٹائم الیون میں بطور گیند باز شامل ہو گئے۔ستر کی دہائی میں کیپل دیو کی آمد سے قبل یوں بھی ہوا کہ چند ہوم سیریز میں بھارت نے تین سے چار سپنرز کھلائے اور سنیل گراسکر نے بیٹنگ کے ساتھ ساتھ باؤلنگ کا بھی آٖغاز کیا۔
اس تناظر میں بھارت کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیران کن انکشاف ہوتا ہے کہ بھارت کا عالمی کرکٹ میں پہلا عمدہ تاثر تیز گیند بازوں کی سر زمین کا تھا۔1932ء سے 1936ء تک بھارت نے سات ٹیسٹ میچ کھیلے۔ سات ٹیسٹ کیرئیر تو کہلاتے ہیں مگر ایسا کیرئیر نہیں کہلائے جا سکتے جس میں دیر پا تاثر قائم کیا جا سکے مگر متحدہ ہندوستان کے ابتدائی بالرز نے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا۔محمد نثار انتہائی تیز رفتار بالر تھے تو ان کا ساتھ دینے والے لدھابھائی امر سنگھ لائن و لینتھ کے ماہر۔ آپ اس جوڑی کو قدیم دورکی شعیب اختر و محمد آصف کی جوڑی کہہ سکتے ہیں۔تاہم امر سنگھ باؤلر سے زیادہ باؤلنگ آل راؤنڈرتھے۔ محمد نثار پر بات ان شاء اللہ کسی اور تحریر میں ہو گی۔ابھی کے لئے امر سنگھ پر کچھ بات کرتے ہیں۔
امر سنگھ نے بھارت کی طرف سے ابتدائی سات ٹیسٹ کھیلے۔ حروف تہجی کے لحاظ سے وہ بھارت کی پہلی ٹیسٹ کیپ ہیں۔تیس کی اوسط سے اٹھائیس وکٹیں اور بلے بازی میں ساڑھے بائیس کی اوسط ایک نوزائیدہ ٹیم کے کھلاڑی کے لئے تسلی بخش کارکردگی قرار دی جا سکتی ہے۔تاہم ان کے پاس دو ایسے ریکارڈ ہیں جو کوئی ایشین کھلاڑی ان سے نہیں چھین سکتا ۔ 1932ء میں لارڈز کے پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے دوسری اننگز میں اکیاون رنز بنائے۔ بھارت بلکہ ایشیا کے وہ پہلے بلے باز ہیں جنھوں نے نصف سینچری بنائی۔ 1933-34ء میں انھوں نے مدراس میں چھیاسی رنز دے کر سات وکٹیں لیں۔یوں اننگز میں سات وکٹیں لینے والے وہ پہلے ایشین کھلاڑی بنے۔ ان کی یہ کارکردگی اٹھارہ سال تک کسی بھی بھارتی باؤلر کی بہترین کاکرکردگی رہی۔ ان کا ریکارڈ ونو منکڈ نے 1952ء میں پاکستان کے خلاف بہتر کیا تا ہم کسی فاسٹ بولر کو اس سے بہتر کارکردگی دکھانے میں چھپالیس برس لگے جب 1979-80ء میں پاکستان کے خلاف کیپل دیو نے سات وکٹیں حاصل کیں۔
۔ ایک نئی ٹیم کا کھلاڑی ہونے کے باعث امر سنگھ نے اپنا آخری ٹیسٹ پچیس برس کی عمر میں ہی کھیل لیا۔ تاہم ان کا فرسٹ کلاس ریکارڈ بھی انتہائی شاندار ہے۔ وہ رانجی ٹرافی میں سو وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر تھے۔ علاوہ ازیں وہ لنکا شائرلیگ کھیلنے والے پہلے بھارتی کھلاڑی تھے۔ وہاں انھوں نے ساڑھے اکتیس کی اوسط سے رنز بنائے اور پندرہ کی اوسط سے وکٹیں لے کر بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں میں اپنی مہارت کو تسلیم کروایا۔ امر سنگھ کا فرسٹ کلاس ریکارڈ بھی بہت شاندار ہے۔ انھوں نے بانوے میچوں میں تین ہزار تین سو رنز پچیس کی اوسط سے رنز بنائے جس میں پانچ سینچریاں اور اٹھارہ نصف سینچریاں شامل ہیں جبکہ پانچ سو وکٹیں محض اٹھارہ کی اوسط سے حاصل کیں۔ بہترین باؤلنگ تئیس رنز دے کر آٹھ وکٹیں۔ اننگز میں پانچ وکٹیں بیالیس مرتبہ اور میچ میں دس وکٹیں چودہ مرتبہ۔ امر سنگھ نے دو مرتبہ برطانیہ کا دورہ کیا مگر قیاس یہی ہے کہ ان میں نصف سے زیادہ میچ یقیناً بھارت میں ہی کھیلے ہوں گے ۔بھارت کی وکٹیں اس دور میں بھی کوئی جوہانسبرگ یا پرتھ کی وکٹیں نہیں ہوں گی بلکہ بلے بازوں اور اسپنرز کی مدد گار ہی ہوں گی۔ ان وکٹوں پر امر سنگھ کی کارکردگی یقیناً عالمی معیار کی ہے۔
امر سنگھ کےمعیار کا اندازہ انگلینڈ بلے بازوں کے تبصروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سر والی ہمینڈ کے مطابق انھوں نے جن خطرناک ترین گیند بازوں کا سامنا کیا ان میں امر سنگھ سر فہرست تھے۔ والی ہیمنڈ نے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈکے علاوہ مقامی انگریز باؤلرز کا بھی سامنا کر رکھے تھا جبکہ سر لین ہٹن نے کہا کہ اس وقت امر سنگھ کے معیار کا کوئی باؤلردنیا میں نہیں۔یار رہے کہ سر لین ہٹن اور سر والی ہیمنڈ دونوں نے تین سو کی اننگز ٹیسٹ کرکٹ میں کھیل رکھی تھیں۔ ان کا سات ٹیسٹ کھیلنےوالے گیند باز کو اس طرح خراج تحسین پیش کرنا یقیناً امر سنگھ کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
امر سنگھ 21 مئی 1940ء کو انتیس سال کی ایک مختصر اننگز کھیلنے کے بعد ٹائیفائڈ کے ہاتھوں بولڈ ہو کر عالم فانی سے کوچ کر گئے تاہم ہندوستان اور ایشیا کی کرکٹ تاریخ میں وہ بلاشبہ امر ہیں۔ امر سنگھ بھارت کے وفات پانے والے ٹیسٹ کرکٹرز میں تاحال سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں۔