تحریر: ابنِ ریاض
آج ایکسپریس اخبار میں ایک خبر پر نظر پڑی جس میں سندھ اسمبلی میں ایم ایم اے کے ایک رکن سید عبدالرشید نے لازمی شادی ایکٹ کا مسودہ پیش کیا ہے۔اس مسودے کے مطابق والدین پرضروری ہے کہ وہ اپنے اٹھارہ سال کے بچوں(صرف بچوں کی، بچیوں کی نہیں )کی شادی کریں۔
اس بل میں کہا گیاہے کہ حکومت سندھ اس امرکو یقینی بنائے کہ والدین اٹھارہ سال کی عمر میں پہنچنے والے عاقل(بالغ والی شرط چونکہ مشکل تھی تو وہ اس میں شامل نہیں کی گئی) بچوں کی لازمی شادی کروائے۔اگر والدین اٹھارہ برس سے زائد کے بچوں کی شادی میں تاخیرکرتے ہیں تو انھیں ڈپٹی کمشنر کو ٹھوس وجوہات کے ساتھ تحریری طور پرآگاہ کرنا ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر کے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں یقیناً تادیبی کارروائی بھی ہو گی جس کا تذکرہ خبر میں نہیں ہے۔بل کی شق نمبر تین میں بتایا گیا ہے کہ جرمانہ ڈپٹی کمشنر آفس کے سرکاری بینک اکاؤنٹ میں جمع کروایا جا سکے گا۔ جرمانہ یقیناً تگڑا ہو گا ورنہ لوگ شادی کرنے کی بجائے جرمانے بھرتے رہیں گے۔اسمبلی سے منظوری کی صورت میں بل پورے صوبے میں نافذالعمل ہو گا۔
ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ بل منظور ہو گیا ہے تو چشمِ تصور سے اس بل کی منظوری کے بعد کے حالات دیکھتے ہیں اور موجودہ حالات سے ان کا تقابل کرتے ہیں۔ اگرچہ بل کا مسودہ متحدہ مجلس عمل نے پیش کیا ہے تاہم منظوری کے بعد حکومت سندھ اسے اپنا لے گی اور لوگوں کو اپنے بچے شادی کی طرف راغب کرنے اور اس میں مدد دینے کے لے "آصفہ جہیز سپورٹ فنڈ” اور "بختاور شادی سپورٹ فنڈ” اور "بلاول بھٹو زرداری میرج سینٹر” جیسے ادارے بنائے گی۔ ان اداروں سے نہ صرف حکومت کے قریبی عوام کی بے روزگاری ختم ہو گی بلکہ یہ ہر خاندان کو پانچ سو روپے شادی کی مد میں اور ایک ہزار جہیز کی مد میں دے کر والین کا بوجھ ہلکا بلکہ ختم کر دیں گے۔
آج کل سترہ اٹھارہ سال کے بچے طب، انجینئرنگ،فوج اور دیگر محکموں میں جانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں تاہم بل پاس ہونے کے بعد اس داخلے کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔ جرمانے سے بچنا زیادہ اہم ہوگا۔ اِدھر بچے/بچی کی عمر اٹھارہ ہوئی اور اُدھر والدین بھاگے نادرا کے دفتر میں۔ وہاں بچے کا شناختی کارڈ بننے کے لئے دیا اور شادی دفترکی جانب بھاگے تا کہ اچھا رشتہ کوئی آیا ہو تو فوری بچے/بچی کا کر دیا جائے ورنہ وہاں رجسٹڑ تو کر دیا جائے۔ چونکہ رش زیادہ ہو گا تو ممکن ہے حکومت شادی میں تین ماہ کی رعایت دے تاکہ مناسب بر دیکھا جا سکتے۔ ایسا ہو گیا تو خوب ورنہ تین ماہ بعد حکومت کے ڈیٹا بیس سے پہلا رشتہ آنے پر شادی کر دی جائے گی ۔ اس صورت میں ذات پات، علاقہ وغیرہ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ تعلیم اور روزگار تو ویسے بھی اٹھارہ سال میں مسئلہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ شادی دفاتر بھی حکومت سے رجسٹرڈ ہوں گے تا کہ سرکاری ریکارڈ اپ ٹو ڈیٹ رہے۔
ہمارے ہاں بچوں کی عمرکم رکھنے کا بھی رواج ہے تا کہ کہیں ان کا سال ضائع ہو تو اس کا ازالہ ہو سکے اور اگر سرکاری نوکری ملے تو کم عمرکی وجہ سے ملک کی زیادہ خدمت کر سکیں۔اس سے بعد میں آنے والوں کا حق مارا جاتاہے۔ اگر یہ قانون پاس ہو گیا تو غلط عمریں لکھنے کی روایت از خود دم توڑجائے گی کیونکہ والدین نےایسا کچھ کیا بھی توعاشق مزاج بچوں نے خود ہی سرکاری ارادوں کے سامنے بھانڈا پھوڑ دینا ہے کہ ہماری تو عمر اٹھارہ ہو چکی ہے ۔ والدین چونکہ ہماری شادی نہیں کرنا چاہتےاس لئے سرکار سےغلط بیانی کر رہے ہیں۔ سرکار غلط بیانی کی سزا مقرر کر کے بھی اپنے خزانے کو بھرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
اس بل سے ملک میں اطمینان و قناعت بھی بڑھے گی اور بچوں کی دماغی سطح بھی بلند ہو گی۔ابھی بعض لڑکیاں اس خوف سے ہی فیل ہو جاتی ہیں کہ والدین نے پاس نہ ہونے پر ان کی شادی کر دینی ہےاور بعض لڑکے بھی اساتذہ و دیگر خوف کے مارے امتحان پاس نہیں کر پاتے اوررکشہ چلاتے یا کوئی ہنرسیکھ لیتے ہیں۔ اب چونکہ پاس اور فیل ہونے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہو گا اورسب کی ہی شادی کرا دی جائے گی تو اس سے بچوں کے دل و دماغ سے خوف نکل جائے گا اور وہ پاس ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس ضمن میں وفاق کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے گزشتہ بر بغیر امتحان کے بچوں کو پاس کر کے اس رسم میں اپنا حصہ ڈالا۔
انیس بیس سال کی عمر میں میاں بیوی چھوٹےسے بچے کے ساتھ سکول میں جا رہے ہوں گے۔ ہمارے ہاں دو ڈھائی سال کا بچہ ویسے بھی سکول بھیج دیا جاتاہے۔ اب اس کے ابتدائی سال بھی ضائع نہیں ہوں گے۔ ماں کی گود سے بچہ بھی پڑھنے لگے گا تو اگلی نسلیں ہماری کیسے آئن سٹائن اور نیوٹن نہیں بنیں گی؟ جان لیجیے کہ یہ بل بالواسطہ ہمیں تعلیمی معیار میں باقی دنیا کے مقابل لانے اور بعد ازاں ان سے بھی آگے نکل جانے میں مدد دے گا۔
بیس سال میں والدین بننے والے بچے چالیس میں نانا دادا اور پھر ساٹھ میں پڑنانا پڑ دادا بھی بن جائیں گے۔اب تیس چالیس سا ل کی عمر میں شادیاں ہوتی ہیں تو بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔بچوں کی پڑھائیاں ،نوکری اور شادی تک اکثر والدین تو پوتے اور نواسے دیکھنے کی آس میں ہی دنیاسے کوچ کر جاتے ہیں۔اب حکومت کی مہربانی سے اب عوام کئی نسلیں دیکھیں گے ۔ اس سے آبادی میں ظاہر ہے بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔ملک چھوٹا سا ہے اور پہلے ہی وسائل کی کمی ہے۔زرخیز زمین اور صاف پانی نایاب ہیں۔اگر بچے سائنس میں آگے نہ بھی بڑھے تو اتنی آبادی تو جہاں جائے گی وہاں پہلے موجود آبادی نے بھاگ ہی جانا ہے۔ اس طرح پاکستانی کشمیر اور فلسطین کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
ایک ہمارا دور تھا کہ بچے کو سونے کا نوالہ کھلاؤ یا نہ کھلاؤ کچھ مضائقہ نہیں تھا مگر شیر کی آنکھ سے ضروردیکھتے تھے۔ اکثر تو بچوں کو گھر اور سکول میں شیر کے پنجوں سے بھی واسطہ پڑتا تھا اور ناراض ہونے اور شکایت لگانے پر داد رسی میں مزید مار پڑ جاتی تھی۔ کھانا پسند کا نہ تو تو نخرےکرنے پر پہلے جوتے کھاتے تھے بچے اور بعد میں کھانا۔ استاد کو بھی کھلی چھٹی تھی کہ گھریلو مسائل کا تناؤ طلبا پر اتر کر پرسکون ہو جائے۔ اس دورکے بچوں کے مزے ہیں۔ والدین نے بچوں کو ہاتھوں کے چھالے بنا کررکھا ہوا ہے اور اساتذہ کو "مار نہیں پیار”کا درس دیا جا رہا ہے ۔بچوں پر "دستِ شفقت” کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک برس میں ان بچوں نے اتنی چھٹیان کر لی ہیں جو ہم نے اپنے پورے دورِ تعلیم میں بمشکل کی ہوں گی۔اب حکومت ان بچوں کی شادی کا بھی سوچنے لگی ہے۔
اگر سندھ حکومت کا یہ قانون کامیاب ہو گیا تو دوسرے صوبوں اور وفاق کو بھی یہ اپنانا پڑے گا۔حکومت نے پس و پیش کی تو نوجوان طلباء و طالبات نے احتجاج کرکے حکومت کو یہ قانون اپنانے پر مجبور کر دیں گے کہ جو حقوق سندھ کے طلباء کو مل رہے ہیں وہی باقی صوبوں اور وفاقی طلباء کو بھی دیئے جائیں۔ باقی پاکستانی طلباء و طالبات کے بھی دل و جذبات ہیں۔
ہمارے ایک دوست کے مطابق حکومت ہمیشہ الٹا چلتی ہے۔پہلے محکمہ بہبود آبادی بنایا۔ اس غلطی کے ازالے کے لئے اب شادیوں پر زور ہے۔خیر دیر آید درست آید ہمارے دور میں ایسا قانون ہوتا تو ہماری اکتیس سال کی عمر میں شادی نہ ہوئی ہوتی۔ اس دور میں لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی اپنی شادی کی بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔اگر کوئی لڑکا ہمت کر کے ایسا کر بھی لیتا تو ٹکا سا جواب ملتا کہ پہلے کچھ کما تولو۔اپنا کماؤ اور کر لوشادی۔لڑکا اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔اگر ہم سے ایک نسل پہلے ایسا قانون آ جاتا تو سوچیں کہ ملک اس وقت وزیر داخلہ کے بغیر ہوتا۔ ہمارے وزیر داخلہ ملک کا سوچتےیا اپنے بچوں کا۔یہ عذر البتہ وہ کر سکتے تھے کہ شرائط چونکہ انھیں منظور نہیں ہیں سو وہ شادی پر خدمت عوام کو ترجیح دیں گے۔
حکومت کے فیصلے کے خلاف بولنے والوں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ حسن جہانگیر کا گانا "شادی نہ کرنا یارو پچھتاؤ گے ساری لائف” پر پابندی لگا دینی چاہیے اوراگر وہ احتجاج کریں یا کوئی اور ان کا گانا چلائے توکارِ سرکار میں مداخلت کے جرم میں ہوا اور لات سے تواضع کرنی چاہیے یعنی حوالات بھیج دینا چاہیے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 27th, 2021
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Assembly, Bilawal Bhutto, DC Office, Deputy Commissioner, Marriage, Pakistan Peoples party, Peoples party, ppp, Sindh