پاکستانی تیز گیند بازوں کا جد امجد «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستانی تیز گیند بازوں کا جد امجد

    تحریر: ابنِ ریاض

     پاکستان تیز گیند بازوں کے حوالے سے بہت زرخیز زمین ہے  اور اس ملک نے ہر دور میں بہترین گیند باز دیئے ہیں۔  سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم،وقار یونس، شعیب اختر، عامر، آصف اور بہت سے دوسرے ایسے گیند باز ہیں جنھوں نے ہر ملک اور ہر قسم کی کرکٹ( پانچ روزہ و ایک روزہ) میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ تاہم ان سب میں منفرد،پاکستانی  تیز رفتار  گیندبازی کے جد امجد  اور پہلے عظیم تیز رفتار گیند باز فضل محمود تھے۔ انھوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کو متعارف کروایا اور پاکستان کی ابتدائی کامیابیوں پر فضل محمود کی کارکردگی کی ہی مہر لگی ہوئی ہے۔

    فضل محمود نے قیامِ پاکستان سے قبل ہی اپنی عمدہ گیند بازی  کی دھاک بٹھا دی تھی۔متحدہ بھارت  میں وہ شمالی بھارت کی نمائندگی کرتے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے اور قائد اعظم جب اسلامیہ کالج آئے اورطلباء سے متعارف ہوئے تو پرنسپل نے بطور خاص ان سے متعارف کر وا کر بتایا  سر یہ بچہ کرکٹ بہت اچھی کھیلتا ہے توقائداظم نے ان سے ہاتھ ملایا اور حوصلہ افزائی ان الفاظ میں کی "ویلڈن مائی بوائے، کیپ اٹ اپ”۔ 1946ء میں  وہ انگلستان کا دورہ کرنے والی ٹیم میں محض اس لئے شامل نہ ہو سکے کہ وہ بہت کم سن تھے۔ اگلے برس  انھیں اکتوبر 1947ء میں آسٹریلیا کا پہلا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم میں بھی منتخب کر لیا گیا ۔ فضل  نے پونے میں ہونے والے تربیتی کیمپ میں بھی شرکت کی۔کیمپ ختم ہونے کے بعد کھلاٹیوں کو اکتوبر میں جمع ہونے کا کہا گیا۔ واپسی پر تقسیم ہند کے فسادات میں ان پر بھی بھی حملہ ہوا تا ہم بھارتی سابق کپتان سی کے نائیڈو اپنے بلے سے مظاہرین کے سامنےڈھال بن گئے۔ نائیڈو نے اس روز ایک شخص کی جان نہیں بچائی بلکہ پاکستانی کرکٹ کو پیدائش سے پہلے ہی مرنے سے بچا لیا۔ راستے میں فضل محمودنے جو مناظر دیکھے وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لے کافی تھے۔

     انھوں نے اپنی خدمات نئے ملک کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور دورے سے انکار کر دیا۔ بھارت نے پنجاب کے گورنر افتخار حسین ممدوٹ کے ذریعے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن فضل اپنی بات کے پکے تھے۔ انھوں نے  گورنر کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا "مانی بھائی آپ چاہتے ہیں کہ میں بھارت کے لئے اعزازات حاصل کروں ؟” بریڈمیں کو بالنگ نہ کرنے کا انھیں افسوس ضرور تھا۔  یہ آسٹریلیا میں بریڈ میں کی آخری سیریز تھی ۔بریڈمین نے بھی نئی ٹیم کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس سیریز میں قریب ایک سو اسی فی اننگز  کی اوسط سے رنز بنا ڈالے ۔ وزڈن نے  فضل محمود پر تعزیتی کالم میں لکھا کہ اگر فضل اس دورے پر ہوتے تو بریڈمین کی درج بالا  اوسط(اور  ننانوے کی اختتامی اوسط) کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس سے اچھا خراجِ تحسین کسی گیند باز کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔

    انھیں امید تھی کہ ایک روز وہ  نو آزاد ملک کے لئے کرکٹ کھیلیں گے اور اس کا تعارف بنیں گے۔ اپنی اس خواہش  کے لئے انھوں نے اپنےکیرئیرکے پانچ بہترین سالوں کی قربانی دی۔

    قائد اعظم کھیلوں کی اہمیت سے آگاہ تھے۔وہ جانتے تھے کہ کھیل نئی مملکت کوعالمی سطح پر  متعارف کروانے کا  بہترین ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نےمشکل حالات کے باوجود 1948ء کے لندن اولمپکس میں پاکستانی دستہ بھجوایا۔ کرکٹ کے لئے بہرحال انتظار طویل  اور صبر ازما تھا۔ پاکستان ٹیم نے سیلون کا دورہ کیا اور اس میں کامیابی  حاصل کی۔ بعد ازاں ایم سی سی کی ٹیم پاکستان آئی تو اس کے خلاف بھی فضل محمود نے چھ وکٹیں لے کر کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس سے پاکستان کے ٹیسٹ اسٹیٹس کا مقدمہ مزید مضبوط ہوا۔

    پاکستان خوش قسمت تھا کہ اسے ابتدا میں ہی دو عالمی معیار کے کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہوا۔حنیف محمد اور فضل محمود۔حنیف محمد کو ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے قدم جمانے میں کچھ وقت لگا  اور حنیف محمد کی شاندار اننگز پچاس کے عشرے کے آخر اور ساٹھ کی دہائی میں ہیں  مگر فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں ایسے رچ بس گئے جیسے مچھلی پانی میں۔

    دہلی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے موقع پر انڈین وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو بھی میچ دیکھنے کے لیے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ آئے تھے۔ نہرو کا میچ کے آغاز پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تعارف بھی کرایا گیا۔ انڈین وزیر اعظم کے ساتھ ان کی بیٹی اندرا گاندھی بھی تھیں، جو خود بعد میں انڈیا کی وزیراعظم بنیں تھیں۔

    میچ کے دوران اندرا گاندھی کا فضل محمود پر کسا گیا طنزیہ فقرہ بہت مشہور ہوا۔ فضل محمود جب اندرا گاندھی کے قریب سے گزرے تو انھوں نے کہا "آپ کے لیے نیک تمنائیں لیکن آپ میچ نہیں جیت سکتے”۔اندرا گاندھی نے غالباً یہ بات ایک سے زائد بار کہی تھی۔

    پاکستانی ٹیم دہلی ٹیسٹ ہارگئی تو فضل محمود نے اندرا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا  "اگر آپ پاکستانی ٹیم کی جیت دیکھنا چاہتی ہیں تو لکھنؤ ضرور تشریف لائیے گا "۔

    لکھنؤ ٹیسٹ میں جب نذر محمد نے سنچری مکمل کی تو وہ بڑے فخر سے فضل محمود کو کہنے لگے "کل اخبار میں میری تصویر شائع ہو گی”۔فضل محمود نے فوراً جواب دیا "صرف تمہاری ہی نہیں بلکہ ایک اور بھی تصویر ہو گی”۔اگلے روز اخبار میں نذر محمد کے ساتھ فضل محمود کی بھی تصویر شائع ہوئی تھی جنھوں نے انڈین بیٹنگ لائن کو تتر بتر کر کے رکھ دیا تھا۔ بارہ وکٹیں ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ نئے ملکوں کو ٹیسٹ میچ جیتنے میں سالوں لگ جاتے ہیں مگر فضل محمود کی بدولت پاکستان نے اپنی پہلی فتح کا مزہ ہفتوں میں ہی چکھ لیا۔

    برطانیہ مہمان ممالک کے لئے کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ویسٹ انڈیز کو بائیس سال، جنوبی افریقہ کو اٹھائیس برس،  سری لنکا کو سولہ،بھارت کو انتالیس اور نیوزی لینڈ کو پچپن برس اپنی پہلی فتح کاانتظار کرنا پڑا۔اس کے برعکس پاکستان آسٹریلیا کے  بعد دوسری ٹیم بنا جس نے پہلے ہی سیریز میں برطانیہ میں ٹیسٹ میچ جیتا اور اس کا سہرا صرف اور صرف فضل محمود کے سر تھا۔

    برطانیہ کی ٹیم میں لین ہٹن( اسوقت عالمی ریکارڈ 364 کے مالک) پیٹر مے(بہترین سکور 285) اور ڈینس کامپٹن (اسی سیریز میں 278 رنز کی اننگز کھیل چکے تھے )  جیسے بلے باز موجود تھے اور پاکستان کے متعلق ماہرین اور میڈیا کا خیال تھا کہ انگلستان بآسانی پاکستان کو زیر کر لے گا۔ اس سےپہلے متحدہ  بھارت کچھ دورے کر چکا تھا اور برطانیہ کو اسے زیر کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں برطانیہ کو ایک صفر کی برتری حاصل تھی جس میں موسم کا عمل دخل کافی تھا۔

    آخری ٹیسٹ اوول  میں تھا ۔ ایک لو اسکورنگ میچ میں فضل محمود  کسی طوفان کی مانند تن  تنہا    برطانیہ کی بیٹنگ لائن    کو خس و خاشاک  کی طرح بہا لے گئے اور پاکستان کو ایک  ناقابل یقین  فتح دلا دی۔درج بالا تینوں بلے بازوں کو دونوں اننگز میں آؤٹ کرتے ہوئے بارہ وکٹیں  سمیٹی تو انگستان کے ایک اخبار کی سرخی تھی

    ENGLAND FAZZALED OUT
    اس کے بعد فضل محمود ’’ اوول کے ہیرو‘‘    کہلاتے رہے۔ اس دورے پر اپنی انتہائی شاندار کاکردگی کی بنا پر  فضل  محمود پہلے پاکستان کھلاڑی بنے  جو وژڈن کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہوئے۔

    فضل نے ایسی ہی فتح گر کارکردگی  بعد ازاں آسٹریلیا و ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی دکھائی۔

    عام مشاہدہ یہی ہے کہ نووارد ٹیمیں  تجربہ کار ٹیموں  کا ریکارڈ بہتر کرنے کے کام آتی ہیں۔ان  ٹیموں کے ابتدائی کھلاڑی کافی مشقت اٹھاتے ہیں اور ان کا ریکارڈ بہت ہی عام درجے کا یا زیادہ سے زیادہ اوسط درجے کا ہوتا ہے۔تاہم انھی کا تجربہ بعد میں آنے والے کھلاڑیوں کے کام آتا ہے اور بعد میں آنے والے کھلاڑی  ریکارڈ   درست  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم  تین کھلاڑی  اس سے مستثنٰی ہیں۔ جارج ہیڈلی، حنیف محمد اور فضل محمود۔ یہ تینوں اپنے ممالک کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔اول الذکر  دونوں بلے باز ہیں اور فضل محمود  واحد گیند باز۔ ان کے ریکارڈ کا موازنہ  کسی بھی عظیم  گیند باز کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور  یہ مقابلہ کہیں بھی یکطرفہ نہیں ہو گا۔

     پونے پچیس کی  کیریئر اوسط سے چونتیس ٹیسٹ میچوں میں ایک سو انتالیس وکٹیں ایک عمدہ کیریئر کا غماز ہے۔ ہمارے سامنےسری لنکا،زمبابوے اور بنگلہ دیش کو ٹیسٹ سٹیٹس ملا۔اس کے علاوہ بھی جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، بھارت اور نیوزی لینڈ بلکہ انگلستان اور آسٹریلیا  کے ابتدائی گیندبازوں کو بھی شامل کر لیں اور کسی کا ایسا ریکارڈ دکھا دیں۔

    وہ سو وکٹیں لینےوالے پہلے پاکستانی گیند باز تھے۔  انھوں نے بائیسویں ٹیسٹ میں اپنی سووکٹیں مکمل کیں۔ ستر برس میں صرف وقار یونس اور محمد آصف نے کم میچوں میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر ان ایک سو انتالیس وکٹوں میں ترانوے وکٹیں مستند بلے بازوں کی ہیں جن میں سر لین ہٹن، نیل ہاروے، ٹینس کامپٹن، کلایڈ والکوٹ، کولریڈ ہنٹ، پولی امریگر، وجے میجریکر اور سر گیری سوبرز جیسے بلے باز شامل ہیں۔ چار ممالک کے خلاف بارہ وکٹیں ایک ٹیسٹ میچ میں حاصل کرنے والے شاید واحد تیز گیند باز ہیں۔ مرلی دھرن نے چھ ممالک کے خلاف بارہ یا زائد وکٹیں ایک ٹیسٹ میں حاصل کر رکھی ہیں تاہم مرلی دھرن نے نو ٹیموں کے خلاف بالنگ کی جبکہ فضل محمود نے صرف پانچ ممالک کے خلاف کرکٹ کھیلی۔چار میں سے تین مرتبہ ان کی دس وکٹ کی کارکردگی برصغیر کی سلو وکٹوں پر رہی جہاں  قریب 1980 تک محض  چار فاسٹ باؤلرز نے  ہی میچ میں دس کٹیں  یا زائد وکٹیں  حاصل  کیں۔ فضل محمودکے کارناموں کو ستر برس ہو نے کو آئے مگر  بھارت اور برطانیہ میں آج  بھی  کسی پاکستانی  تیز رفتار  گیند باز کی بہترین کارکردگی کا ریکارڈ   انھی کے پاس ہے۔

    کیتھ ملر نے اپنے ایک خط (تاریخ چھبیس اکتوبر 1998)میں فضل کی آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں تیرہ وکٹو ں کو  جم لیکر کی انیس وکٹوں والی پرفارمنس سے بہتر قرار دیا۔ نیل ہاروے کے بقو ل   فضل محمود میٹنگ وکٹوں  پر انتہائی مہلک و تباہ کن گیند باز تھے اور  بقول  سر ایلک بیڈ سر ” اگر  اس زمانے میں موجودہ دور جتنی کرکٹ ہوتی تو فضل کی ایک ہزار وکٹیں ہوتیں”۔

    فضل محمود انتہائی فٹ کرکٹر تھے۔ کاردار جب کپتان تھے تو انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ فضل میچ کے دوران ان فٹ ہو سکتے ہیں تو وہ ایک زائد بلے باز کھلاتے تھےاپنے کیریئر میں ان کے ساتھی خان محمد اور محمور حسین تھے۔جتنی گیند بازی ان دونوں نے مل کر کی اتنی فضل محمود نے اکیلے کر ڈالی اور ان دونوں کی مجموعی وکٹوں کی تعداد ایک سوبائیس فضل محمود کی ایک سو انتالیس سے کم ہے۔ 1958 میں کنگسٹن ٹیسٹ میں محمود حسین پہلے ہی اوور میں ان فٹ پو گئے تھے۔ یہ وہی میچ ہے جس میں گیری سوبرز نے عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ اس اننگز میں بالنگ کا سارا بوجھ خان محمد اور فضل محمود پر آ گیا۔ فضل محمود نے اس اننگز میں ریکارڈ پچاسی اوور کروائے اور ان کے مقابلے میں خان محمد نے محض چون۔ چون اوور کم نہیں ہوتے لیکن پچاسی کے مقابلے میں تو محض ہی ہیں۔اس کے باوجود فضل نے ان سے کم رنز دئیے اور دو وکٹیں بھی حاصل کیں۔پچاسی اوورز ایک اننگز میں چوتھے سب سے زیادہ اوورز ہیں۔یعنی ان سے تین گیند بازوں نے زیادہ اوورز کروائے ہیں مگر وہ تینوں سلو بالرتھے۔ اس کے علاوہ 1962 کی اپنی آخری سیریز میں انھوں نے ایک دن میں پینتالیس اوورز کروائے۔ ایک دن میں اتنے اوورز تو کسی سلوبالر نے بھی شاید ہی   کرائے ہوں۔

    اگر کہا جائے کہ فضل محمود نے پاکستان کے لئے فتوحات مخالفوں کے  جبڑوں سے چھینی ہیں تو یہ بے جا نہ ہو گا۔  لکھنو میں دیکھیے کہ پاکستان ٹیم نے تیس سو اکتیس کیے اور  فضل کی بدولت یہ اننگز کی  فتح کے لئے کافی ثابت ہوئے۔ اوول میں بلے بازوں نے دو اننگز میں کُل   تین سو بھی نہیں کیے مگر اس پر بھی  فضل  نے میچ پاکستان کے حق میں کر دیا۔آسٹریلیا کو  ان  کی بدولت پاکستان نے اسی اور ایک سو  نناوے پر آؤٹ کیا ۔یوں پاکستان پہلی اننگز میں  ایک سو ستانوے رنز کر کے بھی میچ  نو وکٹوں سے جیت پایا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈھاکہ میں پاکستان میچ کی کسی اننگز میں ڈیڑھ سو بھی نہ کر پایا مگر فضل کی جادوگری  کے باعث  اکتالیس رنز سے جیت گیا۔ صرف ایک مرتبہ  ویسٹ انڈیز میں پاکستانی بلے بازوں نے   قریب پانچ سو رنز  بنائے اور پاکستان اننگز سے میچ جیتا  ورنہ فضل  کے کیرئیر میں پاکستان نے اگر وکٹ کے حساب سےقدرے  مناسب سکور کر دیا تو انھوں نے اپنی بالنگ سے میچ پاکستان کے حق میں کر دیا۔ پاکستان کی سات فتوحات میں انھوں نے پینسٹھ  وکٹیں  اوسط پونے گیارہ  سے بھی کم اوسط میں حاصل کی ہیں۔

    عمران خان اور شاہد آفریدی کا  شمار پاکستان کے خوبرو  کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھیں کھیل کے علاوہ  ان کی پر کشش  شخصیت سے بھی جانا جاتا ہے۔عمران  اور شاہدآفریدی نے اس دور میں کرکٹ کھیلی جب  کھلاڑی کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ  ہوتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا کو مختلف انداز  اور زاویوں  سےدلکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ فضل محمود کا دور وہ تھا جب ٹی وی تھا ہی نہیں۔اوول ٹیسٹ تک میں  صرف آخری رن آؤٹ کی ایک ویڈیو  موجود ہے اور بس۔تاہم  قدرت نے انھیں حسن کی دولت  سے بھی مالا مال کیا تھا۔انتہائی خوبرو انسان تھے۔ نیلی آنکھیں اور دلکش سراپا۔ چھ فٹ دو انچ  قد۔جب برطانیہ  میں ملکہ سے ٹیم کی ملاقات ہوئی تو ملکہ انھیں دیکھ رک گئیں ۔کہنے لگیں کہ آپ کی آنکھیں تو  پاکستانیوں جیسی نہیں ہیں۔ فضل  نے شرماتے ہوئے بتایا کہ  شمالی علاقوں کے باشندوں کی آنکھیں رنگ دار ہوتی ہیں۔فضل محمود کو بعد ازاں بھی سرکاری پارٹیوں میں مدعو کیا جاتا رہا ۔کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ملکہ کی ہمشیرہ  پرنسز مارگریٹ تھیں ۔ کئی اشتہاروں میں ان کی تصور چھپی ۔ امریکی اداکارہ  ایوا گارڈنر  کسی فلم کی شوٹنگ کے لئے لاہور کے ہوٹل میں مقیم تھیں۔ فضل محمود اتفاق سے وہاں  گئے  تو ایوا کی نظر ان پر پڑ گئی۔ وہ ان سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھیں اپنے ساتھ ڈانس کرنے کی پیشکش کی۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی سپر سٹار فلم  "آن” کے لئے بھی پہلے فضل محمود کو بطور ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا لیکن اپنی مصروفیات کے باعث انھوں نے انکار کر دیا اور پھر دلیپ کمار  کو بطور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔رچی بینوڈ نے اپنی سوانح عمری میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہےانھوں  نے جب فضل محمود  کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے ۔بلاشبہ وہ خوبصورت ترین کرکٹر میں سے تھے۔ان کے سپرسٹار   امیج کا کئی کمپنیوں نے  بھی فائدہ  اٹھایا اور اشتہارات میں انھیں  شامل کیا بالخصوص بریل کریم  والوں نے۔تاہم اس زمانے میں اشتہار کا مطلب محض مصنوعات کے ساتھ  بلیک اینڈوائٹ تصویر شائع ہونا ہوتا تھا۔

    ہر دلعزیز ہونے کا یہ عالم تھا کہ 2004ء میں بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو سچن ٹندولکر نے فضل محمود سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ فضل محمود  بھارتی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں گئے اور بھارتی کھلاڑیوں سے ملے تو ٹنڈولکر  نے انھیں بتایا کہ اب بھی ممبئی کے  سابق کھلاڑی انھیں بہت احترام سے یاد کرتے ہیں۔

    فضل  محمود کی شہرت اور مقبولیت  ادب کے میدان میں بھی  جا پہنچی۔ 1955ء  میں لکھی جانے والی مجید امجد  کی نظم "آٹو گراف”  کی یہ سطریں فضل محمود کے بارے میں ہی ہیں۔

     وہ باولر ایک ، مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
    وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں پھری
    حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

    علاوہ ازیں فضل محمود نے اپنی سوانح عمری بھی لکھی۔ قصہ مختصر فضل محمود    پاکستان کرکٹ کے پہلے سپر سٹار تھے ۔ انھوں نے اپنے کھیل اور اپنی  کرشماتی شخصیت سے ایسی روایات کی بنیاد ڈالی ہے جن پر  عمل پیرا ہونا ہر خاص وعام کے بس کی بات نہیں۔ ان کی راہ کے مسافر کو باصلاحیت و جفاکش ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی (اپنی ذات و ملک کے ساتھ) پرخلوص ہونا بھی ضروری ہے۔ پاکستان کرکٹ کا اولین سپر سٹار  تیس مئی 2005ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا مگر  جب تک کرکٹ بالعموم اور پاکستانی کرکٹ بالخصوص باقی ہے فضل محمود  ایک روشن  ستارے کی مانند  نئے کھلاڑیوں کو   مایوسی کے اندھیرے میں رستہ دکھاتے رہیں گے۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔