تحریر: ابنِ ریاض
جنوبی افریقہ کی کرکٹ سے ہمارا پہلا تعارف 1992 کے عالمی کپ میں ہوا۔ اس سے قبل کوئی بائیس برس تک یعنی کہ 1970 سے 1991 تک جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم پر نسلی تعصب کی بنا پر کھیلوں کی پابندیاں عائد تھیں۔ جب 1970 میں جنوبی افریقہ پر پابندی عائد کی گئی تو اس وقت جنوبی افریقہ ایک زبردست ٹیم تھی اور پابندی سے قبل اپنی آخری سیریز میں آسٹریلیا کو چار صفر کی شکست دے کر چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ پابندی کے باعث کئی عظیم کھلاڑیوں کا کیریئر اپنے اوج کمال پر پہنچنے سے قبل ہی اختتام کو جا پہنچا۔ ان میں بیری رچرڈز، ایڈی بارلو ، مائیک پراکٹر اور کلائیو رائس شامل ہیں۔ تاہم 1992 کے عالمی کپ میں جب جنوبی افریقہ کی ٹیم کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ اتنے برس کی کرکٹ کی دوری سے ان کے معیار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بلکہ جنوبی افریقہ کی فیلڈنگ نے سب کو ہی حیران کر دیا۔انضمام الحق کا رن آؤٹ 1992 کا ایک یادگار لمحہ تھا۔ جنوبی افریقہ نے نہ صرف فیلڈنگ کے نئے معیار قائم کیے بلکہ اپنی کارکردگی سے سیمی فائنل میں بھی جگہ بنائی تاہم ایک متنازع قانون کی وجہ سے وہ فائنل سے باہر ہو گئے۔
اس ٹورنامنٹ میں ہماری نظرجس کھلاڑی پر رہی وہ ہنسی کرونئے تھے۔ بائیس سال کا لڑکا جس نے عالمی کپ میں کارکردگی واجبی سی تھی۔ پاکستان کے خلاف ایک چالیس کا ہی سکور کیا تاہم ہمیں ان کی شخصیت نے از حد متاثر کیا۔ لمبا قد اور متناسب جسم کہ دیکھنے سے ہی کھلاڑی لگے۔ چہرے پر ایک متانت اور سنجیدگی ۔ آنکھوں میں سیکھنے کی جستجو اور کچھ کر دکھانے کا عزم۔ ان کی فیلڈنگ بھی بہت شاندار تھی۔ان کا امتیازی وصف کھیل سے ان کا جنون اور ٹیم سے ان کی وابستگی تھی۔ انھیں بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے قوم جمانے میں کچھ ٹائم لگا مگر سال بھر میں ہی وہ ٹیم کا لازمی حصہ بن گئے۔ جب جنوبی افریقہ کی ٹیم 1994 میں پاکستان آئی تو سہ ملکی سیریز میں اسے پاکستان اور آسٹریلیا کے ہاتھوں تمام چھ میچوں میں شکست ہوئی تاہم کرونئے نے شاندار بیٹنگ کی۔ ایک میچ میں نوے اور ایک دوسرے میچ میں سینکڑا بھی جڑا۔ ان کی کارکردگی کو دیکھ کر انھیں کیپلر ویسلز کی جگہ جنوبی افریقہ کا کپتان بنا دیا گیا۔ کپتان بنتے ہی انھوں نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی حالت ہی بدل دی۔
ان کا پہلا امتحان نیلسن منڈیلا ٹرافی تھی۔اس میں جنوبی افریقہ کے علاوہ پاکستان، سری لنکا اور نیوزی لینڈکی ٹیمیں شامل تھیں۔ جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ابتدائی دو فائنلز میں ہرا کر یہ ٹرافی اپنے نام کر لی۔پھر ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان ٹیم کو شکست دی۔ اس کے بعد 1996 کے عالمی کپ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم فیورٹ کے طور پر شامل ہوئی اور اپنے تمام پول میچ جیتےمگر کوارٹر فائنل میں برائن لارا نے ایک انتہائی شاندار اننگز کھیل کر ان کا عالمی کپ کا سفرختم کر دیا۔ تاہم اگلے برس انھوں نے پاکستان میں ٹیسٹ سیریز جیتی۔ابتدائی دو ٹیسٹ ڈرا ہو گئے تھے لیکن تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو جیتنے کے لئے چوتھی اننگز میں ایک سو چھیالیس کا ہدف ملامگر پوری ٹیم محض ترانوے رنز پر ہمت ہار گئی۔ 1997میں پاکستان میں ہونے والا چار ملکی ملکی آزادی کپ بھی اپنے نام کیا۔ 1998 میں پہلا آئی سی سی ناک آئوٹ ٹورنامنٹ (موجودہ چیمپئن ٹرافی) بھی جنوبی افریقہ کے نام رہا۔ 1999 کے عالمی کپ میں بھی جنوبی افریقہ اعزاز جیتنے کے لئے مضبوط ترین ٹیم تھی مگر بدقسمتی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ سیمی فائنل میں ایلن ڈونلڈ کے رن آئوٹ ہونے پر میچ ٹائی ہوا مگر سپر سکس میچ میں آسٹریلیا کی جنوبی افریقہ کے خلاف جیت کے باعث جنوبی افریقہ ایک مرتبہ پھر باہر ہو گیا۔ ٹوٹی کہاں پر آ کے کمند۔ ہنسی کرونئے کا اس وقت کا اداس اور مغموم چہرہ کرکٹ کی اداس مگر دماغ پر نقش یادگاروں میں سے ایک ہے۔
2000 کے ابتدا میں انھوں نے بھارت کو بھارت میں شکست دی۔ جنوبی افریقہ نے اس کے بعد اب تک بھارت کو بھارت میں نہیں ہرایا۔ اس کے بعد شارجہ کپ میں فائنل میں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو شکست دی۔ یہ جنوبی افریقہ کے لئے ان کا آخری میچ ثابت ہوا۔ اس میچ کےکچھ روز بعد بھارتی پولیس نے ان پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا۔ انھوں نے اس کی تردید کی۔ ہنسی کرونئے کی شہرت اور کردار ایسا تھا کہ دنیا بھر میں ان کی تردید کو تسلیم کر لیا گیا۔ ان کے لئے یہ کافی تھا۔ اگر کرونئے ہم جیسا مسلمان ہوتا تو اپنے رب سے معافی مانگتا اور کچھ پیسے کسی نیک کام میں لگا کر اپنے آپ کو مطمئن کرتا اور جڑا رہتا کھیل سے۔ بورڈ کے کسی نمائندے کو اعتماد میں لیتا اور اپنے کارنامے پس منظر میں رہنے دیتا۔ جنوبی افریقی ٹیم اس وقت ٹیسٹ اور ایک روزہ میں عالمی درجہ بندی میں اول نمبر پر تھی۔ وہ اس کا کپتان تھا سو بورڈ اس پر جرمانہ کرتا جیسے آسٹریلوی بورڈ نے مارک وا اور شین راون پر کیا تھا جب انھوں نے جواریوں کو پچ کی معلومات دینے کا بتایا تھا۔ اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ اقرار کر کے وہ نہ صرف کرکٹ سے دور ہو گا بلکہ اس کی سالوں کی کمائی عزت اور نیک نامی بھی ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گی اور وہ ملعون و معتوب ٹھہرےگا۔ وہ مسلمان نہیں تھا مگر اس کا ضمیر زندہ تھا۔ اس نے ہمت و راست بازی کی انتہا کر دی۔ اس نے سرِ عام اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ اب بورڈ کے پاس بھی اسے سزا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جو اس نے بخوشی قبول کر لی۔ کرکٹ کا ایک روشن ستارہ راتوں رات شودر قرار پایا۔ وہی جو اس کی تعریفین کرتے نہ تھکتے تھے اب ان کی زبانوں میں اس کے لئے نشتر تھے۔ تاہم یہ راستہ اس نے خود چنا تھا سو وہ اس پر ثابت قدم رہا۔ ایک بار اس نے کرکٹ بورڈ سے درخواست کی کہ اسے کالے بچوں کو کرکٹ سکھانے کی اجازت دی جائے مگر اس کی یہ درخواست بھی رد کر دی گئی۔ اس کے بعد اسے ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی اور یوں زندگی آگے بڑھنا شروع ہو گئی مگر اعترافِ جرم کے صرف سوا دو سال بعد قدرت کو اس پر رحم آ گیا اور اس کی سزا ختم کر دی گئی کیونکہ کرونئے محض ساڑھے بتیس برس کی عمر میں فضائی حادثےمیں دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔
ہنسی کرونئے ایک اوسط درجے کا کھلاڑی تھا مگر اللہ نے اسے قیادت کی صلاحیت فراوانی سے نوازی تھی۔ اس نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کو ایک درمیانی ٹیم سے دنیا کی بہترین ٹیم بنا دیا۔ وہ اپنے مثال سے ٹیم کو ترغیب دیتے تھے۔ فیلڈنگ اس کی بے مثال تھی اور اگر کبھی مخالف کی شراکت داری خطرناک صورت حال اختیار کرتی تو اکثر اپنی گیند بازی سے انھوں نے اسے توڑا۔سچن ٹنڈولکر نے اعتراف کیا کہ انھیں ہنسی کرونئے کو کھیلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ آؤٹ ہو جائیں گے۔ تاہم وہ کرکٹر سے کہیں بڑے انسان تھے۔ وہ غیر مسلم تھے مگر انھوں نے اپنے عمل سے صحابہ کی یاد تازہ کر دی۔ جب صحابہ کرام سے کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو وہ خود کو سزا کے لئے از خود پیش کر دیتے تھے۔ یہی عمل ہنسی کرونئے نے بھی کیا۔ وہ ہم جیسے انسانوں کے لئے ایک نمونہ ہے کہ جو اپنی غلطیوں پر ڈھٹائی سے اڑ جاتے ہیں۔ ان کی وفات پر نیلسن منڈیلا نے بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ حادثے کے بعد اپنی زندگی کی ہمت و ثابت قدمی کے ساتھ از سر نو تعمیر کر رہا تھا اور ان لوگوں کے لئے روشنی کی مثال تھا جو اپنی کسی کوتاہی کے باعث اپنی زندگی خراب کر دیتے ہیں۔
اگرچہ ہنسی کرونئے ہمارے پسندیدہ کھلاڑی ہیں اور ہماری خواہش تھی کہ ان کو معاف کر دیا جائےج مگر جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی کہ انھوں نے کرونئے کو سزا دے کر میچ فکسنگ کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ کھیل میں ملاوٹ کرنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے سبق نہ سیکھا اور ہمارے کھلاڑی اب بھی ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں اور ہم انھیں اس بات پر معاف کر دیتے ہیں کہ انھوں نے سزا پوری کر لی۔کبھی یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں کھلاڑی نے خود غلطی تسلیم کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فکسنگ ابھی تک ختم نہیں ہو پائی اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے ۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جون 1st, 2021
زمرہ: شخصیات, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: cricket, hansie cronje, match fixing, nelson mandella, south africa, World Cup