تحریر: ابنِ ریاض
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم اس وقت برطانیہ کے دورے پر ہے۔ پاکستان کا برطانیہ میں جتنا اچھا ریکارڈ ٹیسٹ میچز میں ہے اتنا ہی برا ایک روزہ میچز میں ہے۔1974ء کے بعد پاکستان نے برطانیہ میں برطانیہ کے خلاف دو طرفہ سیریز نہیں جیتی اور اس مرتبہ پاکستان کے ارادے اس ریکارڈ کو درست کرنے پر مرکوز تھے تاہم برطانیہ والے یہاں بھی سازش سے باز نہ آئے۔انگریز اپنی فطرت سے باز نہیں آتا تو ہم مسلمان کیسے اپنے اصولوں کو پسِ پشت ڈال سکتے ہیں۔ انگریز کا اصول ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے مگر مسلمان کے لئے صرف جائز ہی جائز ہوتا ہے۔
اس برس پاکستان نے جنوبی افریقہ کو انھی کے میدانوں میں زیر کیا ہے۔اب برطانیہ میں بھی پاکستانی جھنڈا گاڑنے کے لئے تیار تھے۔مشقی میچ میں ہمارے بلے بازوں نے اپنے ہی کھلاڑیوں کے خلاف ساڑھے تین سو رنز کر کے اپنے عزائم واضح کر دیئے تھے۔ اس سے انگریز کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ ان کی ٹیم نے اگرچہ سری لنکا کو ہر میچ میں بآسانی شکست دی مگر پاکستان ٹیم کی کارکردگی سے انھیں اندازہ ہوا کہ اب سری لنکا جیسے معاملات نہیں ہوں گے الٹا لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس پر ان کی ٹیم انتظامیہ نے حالات کو قابو میں کرنے کے لئے غور و خوض شروع کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا تو ان پر یہ عقدہ کھلا کہ پاکستانیوں کو سکول میں رٹے کی ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ تعلیم کے بعد بھی اس کے اثرات سے نکلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔کوئی سوال نصاب سے باہر کا آ جائے جس میں دماغ کا استعمال کرنا پڑ جائے( بھلے سوال انتہائی آسان ہو) تو ہم پاکستانیوں کےہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ہم سوال کا جواب دینے کی بجائے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سوال نصاب سے باہر کا ہے۔ اس کو بدل دیاجائے۔ کرکٹ میں بھی معاملہ مختلف نہیں ہے۔ پاکستانی ٹیم ہمیشہ بڑے کھلاڑیوں پر کام کر کے آتی ہے اور انھیں قابو کر لیتی ہے لیکن جو کھلاڑی اچانک ٹیم میں شامل کردئیے جاتے ہیں وہ ہمیشہ پاکستان کی جیت میں راہ میں کباب میں ہڈی ثابت ہوتے ہیں۔ نیل ملنڈر، اینڈریوسائمنڈز، ڈی گرینڈ ہوم، اعجاز پٹیل اور ڈوان اولیور کے نام تو آپ کے ذہن میں ہوں گے ہی۔ ان سب کھلاڑیوں کا کیریئر پاکستانی ٹیم کا ہی مرہون منت ہے۔ بعض کو تو پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہی کھلایا گیا۔ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی بہت توپ قسم کے کھلاڑی تھے یا پاکستانی کھلاڑی ان کے خلاف کھیل نہیں سکتے تھے ۔ بین الاقوامی کرکٹ میں آپ بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ انضمام الحق چند منٹ کے لئے ٹیم کو باہرلے کر گئے تھے تو بدلے میں میچ دینا پڑا تھا۔ اس لئے پاکستانی پلئیر نے احتجاج کا انوکھا طریقہ نکالا ہے۔ چونکہ یہ نصاب سے باہرکے کھلاڑی تھے تو پاکستانی پلیئرز ان کے خلاف جان بوجھ کر ہلکا کھیلتے تھے اور دیگر پلیئرز کے خلاف نہ صرف رنز کرتے تھے بلکہ ان کی وکٹیں بھی لیتے تھے ۔ اس کا مقصد منتظمین کو اپنے احتجاج سے آگاہ کرنا تھا کہ اگر ہم بڑے کھلاڑیوں کے خلاف کھیل سکتے ہیں تو ان بچوں کے خلاف کھیلنا بھی ہمارے لئے مشکل نہیں مگر اصول چونکہ اصول ہوتا ہے اوراصول کے تحت ہمیں بڑے کھلاڑیوں سے کھیلنا تھا تو ہم ان "بچوں” سے اپنے معیار سے کم تر کھیلتے تھے۔
اس سے انگریزوں کے شاطر دماغ میں ایک خیال آیا کہ پاکستان کے خلاف چند نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے۔اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چند کھلاڑیوں اور چند آفیشلز کا کرونا ٹیسٹ مثبت کیا گیا۔ تاکہ ان کی بجائے نئے کھلاڑیوں کو موقع دے کر پاکستان کوقابو کیا جائے۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ ممکن ہے کہ تین چار نئے کھلاڑی پاکستان کو ہرانے کے لئے ناکافی ہوں تو کسی نے مشورہ دیا کہ پوری ٹیم ہی بدل دو۔ اب تو کرونا کا موسم ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی تجویز پر سب کے چہرے کھل اٹھے اور اس کی منظوری دے دی گئی۔ یوں شکستِ پاکستان کرکٹ ٹیم کی سازش مکمل ہو گئی۔
ہمارے کھلاڑی سادہ ہیں۔ انگریز کی انگریزی سمجھ نہیں آتی تو ان کی چالیں کیسے سمجھیں؟ بیئر سٹو، رائے،مورگن،روٹ ،بٹلر،ووکس ،معین علی،عادل رشید و دیگر کی تیاری کر کے ٹیم کے تجزیہ کار و کھلاڑی تھک گئے اور انھوں نے بچے کھلا دئیے۔ہمارے کھلاڑے اپنی فیملیوں سے الگ تھلک دور دیس میں اس لئے قرنطینے کی سختیاں بھگت رہے تھے کہ مقابلے میں "کاکوں” سے کھیلیں گے؟ ہمارے کھلاڑیوں میں صرف حارث سہیل سمجھ دار تھا جس نے پہلے ہی بیماری کے بہانے اپنی جان بچا لی۔ بھلاچیتے کا بھی کبھی دیگر جانوروں سے مقابلہ ہوا ہے۔ سو ہار جیت بے معنی تھی۔ اصل بات اپنا موقف بغیر بولے پیش کرنا تھا۔ نئی ٹیم کے خلاف احتجاج توکرنا ہی تھا۔ وہی امام جس نے پچھلے دورے میں ڈیڑھ سو کی اننگز سمیت نوے کی اوسط سے رنز کیے تھے،اس احتجاج کابھی امام بنا اور پہلے ہی گیند پر وکٹ دے کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ بابر اعظم کے سامنے بڑے بڑے بالر نہیں چل پاتے اور تیز ترین چار ہزار کا ریکارڈ بھی دسترس میں تھا لیکن اصولوں پر کٹ مرنا یعنی آؤٹ ہونا گوارا کر لیا لیکن باطل کو چوکے نہ لگائے۔ رضوان بھی اپنے پیشرؤں کے سنہری اصولوں پر کاربند تھا اور شہادت کا متلاشی تھا۔ جلد ہی اس کی مراد بھی بر آئی اور وہ عازم پویلین ہوا۔سعود شکیل کا پہلا میچ تھا لیکن اس نے کہیں سے بھی ثابت نہیں ہونے دیا کہ وہ اس میدان میں نیا ہے۔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلا اور امر ہو گیا۔صہیب مقصود پانچ سال بعد آیا تھا۔ اسے صورت حال سمجھنے میں کچھ وقت لگا لیکن انگریز بالر شاید تھک گئے تھے۔ وہ اسے آؤٹ نہیں کر پارہے تھے تو صہیب نے ایسا فیصلہ کیا جو ایک انتہائی دلیر وسر فروش ہی کر سکتا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ انگریز اسے آؤٹ نہیں کر پائے گا اور اس صورت میں اسکے بڑوں کی قربانی رائیگاں جا سکتی ہے تو انھیں رن آؤٹ کا موقع دے دیا۔ فخر زمان آخری دو میچوں میں سینچریاں کر چکا تھا اور اس مرتبہ بھی نصف سینچری کے بالکل پاس تھا لیکن اس نے ایثار کی اعلٰی مثال قائم کرتے ہوئے اپنی وکٹ وکٹ آفریں کے سپرد کر دی لیکن ان پر واضح کر دیا کہ تیسری سینچری اس سے دور نہ تھی لیکن اس کا مقصد سینچریوں سے کہیں بڑا ہے۔ شاداب کچھ دیر تک شاداب رہنے کے بعد مرجھا گیا۔ جب بلے بازوں نے بیٹنگ نہ کی تو گیند باز کیوں کرتے ؟ سب ہی دو چار گیندیں کھیل کر پویلین وارد ہوتے رہے۔
بلے بازوں کی قربانیوں کو گیند بازوں نے بھی یاد رکھا اور جی کھول کر مارکھائی۔ شروع میں شاہیں آفریدی نے ایک وکٹ حاصل کر کے بتایا کہ ہم نے جیسے اس کو آؤٹ کیا ویسے ہی باقی نو کو بھی کر سکتے ہیں لیکن ہماراارادہ نہیں بچوں سے لڑنے کا۔ یوں پاکستان میچ تو بظاہر نو وکٹوں سے ہار گیا مگر آؤٹ آف سیلبس کھلاڑیوں کے متعلق اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔
اس کے علاوہ تکبر بھی ہماری ٹیم کو پسند نہیں۔ہمارے کھلاڑیوں کا کہنا کہ تکبر اللہ پر ہی جچتا ہے۔ انسان کو عاجز ہونا چاہیے۔ جب برطانیہ کی نئی ٹیم کا اعلان ہوا تو کچھ ماہرین نے پاکستان کو سیریز کے لئے فیورٹ یعنی برتر قرار دیا۔ اپنے آپ کو یا اپنی ٹیم کو دوسرون سے برتر سمجھنا بھی تکبر کی ایک قسم ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں کاکہنا ہے کہ جب ہم آخری نمبر پر ہو کر پہلے نمبر والی یعنی فیورٹ ٹیم کا غرور توڑسکتے ہیں (چیمپئز ٹرافی میں) تو ہمیں بھی چاہیے کہ خود کو برتر نہ سمجھیں۔ ہمارے کھلاڑیوں نے میچ ہارکر پیغام دیا ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور کسی کو کرکٹ میں کسی پر برتری حاصل نہیں۔
بادی النظر میں پاکستان ٹیم یہ میچ ہار گئی ہے مگر یاد رکھیے کہ مفادات کے پُتلے جیت کر بھی ہار جاتے ہیں اوراصولوں پر ہارنے والے ہارکر بھی جیت جاتے ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 10th, 2021
زمرہ: طنزو مزاح, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: 1st one day, babar azam, crriket, ECB, pak cricket team, rizwan