تحریر :ابنِ ریاض
جب اسی کے عشرے کے وسط میں ہم نے کھیل کھیلنا اور ٹی وی پر دیکھنا شروع کیے تو پاکستان میں کرکٹ تو معروف و مقبول تھی ہی مگر قومی کھیل ہاکی کا بھی طوطی بولتا تھا۔ ہاکی میں اس وقت پاکستان عالمی و اولمپک چیمپئن تھا۔ 1986 میں ہم ایشیائی کھیلوں میں پہلی مرتبہ جنوبی کوریا سے ہارے اور پھر لندن عالمی کپ میں بارہ میں سے گیارہویں پوزیشن لی۔ تاہم اگلے دو عالمی کپ اور اگلی ایشیائی کھیلوں میں پاکستان نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ ہر برس منعقدہونی والی چیمپئنز ٹرافی میں بھی پاکستان اگرچہ 1994 میں ہی گولڈ میڈل لے پایا مگر سلوراور براؤنز اکثر لیتا رہا۔ قریب دوہزار تک ہاکی سے ہماری دلچسپی رہی اور بعد ازاں آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔
پاکستان نےہاکی میں پچھلی صدی میں بہترین کھلاڑی پیداکیے۔ اقتدار حسین دارا سے یہ فہرست شروع ہوتی ہے اور سہیل عباس تک چلتی ہے۔ بریگیڈیئر عاطف،نصیر بندہ، طارق عزیز، ڈار برادرز،سمیع اللہ، کلیم اللہ، اصلاح الدین، حسن سردار اختررسول اور شہباز احمد اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ ہاکی کے ان سب کھلاٹیوں سےنہ صرف ہم غائبانہ متعارف تھے بلکہ ان کے کارنامے بھی ازبر تھے۔انھی میں ایک دمکتا ستارہ منور الزماں بھی تھے۔
منور الزماں کوہم نے کھیلتے نہیں دیکھا کیونکہ ان کا دور 1971 سے 1980 تک کا ہے تا ہم ان کا شمار پاکستان کے بہترین فل بیکس میں ہوتا ہے۔ 1950 میں پیداہونے والے اس کھلاڑی کو پہلاموقع تب ملا جب پہلے عالمی کپ کے پاک بھارت سیمی فائنل میں تنویر ڈار زخمی ہوئے۔ تنوہر ڈار ٹیم کے سب سےتجربہ کاری اورٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی تھے۔ یہ دھچکہ تھا ٹیم کے لئے مگر منور الزماں نے اسے موقع گردانا۔ پاکستان ٹیم کو پینلٹی کارنر ملا تو سب کی نظروں اورامیدوں کا مرکز یہ لیفٹ فل بیک بن گیا۔انھوں نے قوم و ٹیم کومایوس نہیں کیا اوران کے گول کی بددولت پاکستان بھارت کو ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا اور بعد ازاں عالمی چیمپیئن بنا۔ اپنی عمدہ کارکردگی کے باعث منور الزماں ٹیم کالازمی حصہ بن گئے اورستر کا عشرہ چٹان کیطرح پاکستان گول پرہونے والے حملوں کا دفاع کرتے رہے۔
اگلے برس یعنی 1972 کے میونخ اولمپکس میں پاکستان اولمپک فائنل جرمنی سے متنازع امپائرنگ کے باعث ہار گیا توپاکستانی ٹیم نے احتجاجاً تمغے اپنی ہاکیوں اور بوٹوں میں لٹکا دیئے جس پر بین الاقوامی ہاکی فیڈریشن نے پاکستان کے گیارہ کھلاڑیوں پر یا حیات پابندی لگا دی تا ہم پاکستان ہاکی فیڈریشن کی اپیل پر پابندی تین سال کر دی گئی۔ پابندی کا شکار کھلاڑیوں میں منور الزماں بھی شامل تھے۔
اس پابندی کے باعث منظورالحسن کوموقع ملا اور انھوں نے بطور فل بیک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ منورکی واپسی کے بعد پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہو گیا۔منور اور منظور الحسن دونوں میں کمال کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ دونوں ٹھنڈے مزاج کے کھلاڑی تھے اور کھیل میں ان کی مہارت بھی شاندار تھی۔ایک دوسرے کی بھرپور معاونت کرتے تھے اور ایک دوسرے کو کور کرتے تھے جس سے مخالف ٹیموں کو اس دفاع میں دراڑ ڈالنا جوئے شیر لانے کے باعث تھا۔
یہ دونوں کھلاڑی پاکستان کی بہترین دفاعی جوڑی مانے جاتے ہیں۔اس شاندار دفاع کے باعث ہمارے فارورڈکو بھی کھل کھیلنے کا موقع ملتا تھا اور نتیجتاً وہ بھی مخالفین پر برق بن کر گرتے تھے۔ یہی وہ دور ہے جسے پاکستان ہاکی کا سنہرا ترین دور کہا جاتا ہے اور جس میں پاکستان قریب ہر ٹورنامنٹ میں فیورٹ کی حیثیت سے شرکت کرتا تھا اور اکثرو بیشتر فاتح لوٹتا تھا ورنہ سیمی فائنل تک رسائی تو معمولی بات تھی۔ اس دور میں منور الزماں نے اپنا کردار شاندار انداز سے نبھایا۔
ان کا کیریئر چھ سات سال پر محیط ہے (پابندی کےسال نکال دئیے جائیں تو) لیکن ان سالوں میں دو ایشیائی کھیلوں(1974 اور 1978) کے طلائی تمغے، دو عالمی کپ(1971 اور 1978) کے طلائی اور ایک چاندی(1975) کا تمغہ ،اولمپکس میں ایک چاندی(1972) اور ایک کانسی(1976) اور ابتدائی دو چیمپئن ٹرافیوں (1978 اور 1980) کے طلائی تمغوں کے علاوہ بے شمار تمغے ان کے سینے پر سجے۔صرف اولمپک گولڈ میڈل وہ حاصل نہ کر سکے لیکن تمام ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان 1980کے روس اولمپک کا بائیکاٹ نہ کرتا تو پاکستان ہاکی ٹیم بآسانی اولمپک گولڈ میڈل جیت جاتی۔ روس کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک نے ان اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔
1980 میں دوسری چیمپئن ٹرافی میں وہ پاکستان کے کپتان تھے۔ پاکستان کی پہلی آسٹرو ٹرف 1980 میں کراچی میں بچھائی گئی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر ائیر مارشل نور خان نے خود افتتاح کرنےکی بجائے منور الزماں سے کہا کہ وہ افتتاح کریں۔جو اس وقت پاکستانی ٹیم کے قائد تھے اور انھوں نے گیند کو آسٹرو ٹرف پر پھینک کر اس کا افتتاح کیا۔
منور الزماں نے ایک سو انیس میچزکھلے اور چوالیس گول کیے۔ گول کرنے سے زیادہ اہم ان کا فل بیک کا رول تھا جس میں انھوں نے لاتعداد گول بچائے۔ پاکستان ٹیم نے ان کی قیادت میں چوبیس میچ کھیلے اور بقول بی بی سی پاکستان نے ان تمام میچوں میں فتح حاصل کی۔ یہ بات ہم نے پہلے بھی پڑھ رکھی تھی کہ ان کے دورمیں پاکستان کوئی میچ ہارا نہیں تھا۔زیادہ سے زیادہ مخالف ٹیمیں میچ ڈرا کر پائیں مگر بی بی سی نے ڈرا کو بھی ختم کر دیا تواس لحاظ سے شاید ہی کوئی ایساکپتان اس کھیل میں گزراہو جس کے دامن پر ایک بھی شکست کا داغ نہ ہو۔ 1980 میں منور الزماں بین الاقوامی ہاکی سے ریٹائر ہو گئے۔ تاہم کھیل سے ان کی محبت کم نہ ہوئی اور وہ اس سے منسلک رہے۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے پاکستان ٹیم کی کچھ عرصہ کوچنگ بھی کی۔ 1994 پاکستان ہاکی کے لئے ایک بہترین سال ثابت ہوا۔ سال کے ابتداء میں منور الزماں کی قیادت میں جیتنے کے چودہ سال بعد پاکستان نے چیمپئز ٹرافی تیسری اور آخری مرتبہ جیتی۔ اسی برس ویڑنز ہاکی کا بھی عالمی کپ منعقد ہونا تھا۔ اس عالمی کپ کی تیاریوں میں منور الزماں بھی شامل تھے۔ کراچی میں کیمپ جاری تھا کہ 28جولائی 1994 کو مشق کے دوران وقفے میں منور الزماں کو دل کا شدید دورہ پڑا ۔ جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ جس آسٹروٹرف کا انھوں نے برسوں پہلے افتتاح کیا تھا اپنی آخری سانسیں بھی انھوں نے اسی پر لیں اور چوالیس برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ باقی رہے نام اللہ کا