تحریر: ابنِ ریاض
کل مورخہ تیس جولائی دو ہزار اکیس کے ایکسپریس اخبار میں کھلوں کے صفحے پر موجود ایک چند سطری خبر پر اچانک نظرپڑی جس نے رک کر پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ظاہر ہے کہ صفحہ پاکستان ویسٹ انڈیز، بھارت سری لنکا کی کرکٹ خبروں اور اولمپکس سے متعلق خبروں سے پر تھا۔ سو یہ خبر بغور دیکھنے پر ہی ملی۔ تفصیلات کے مطابق ہاکی کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل سینٹرل کانٹریکٹ کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ کھلاڑی بین الاقوامی معیار کی فٹنس حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ بارہ کھلاڑی قریب ضرورپہنچے۔ رپورٹ کے مطابق کھلاڑیوں کو فٹنس حاصل کرنے میں تین سے چاہ ماہ لگ سکتے ہیں۔رپورٹ کی بنیاد پرسینٹرل کانٹریکٹ دینے کا فیصلہ اگلے ہفتے ہو گا۔ ہاکی فیڈریشن نےبتیس کھلاڑیوں کو مدعو کیا تھا جن میں سے بیس کو ماہانہ کنٹریکٹ سے نوازا جائے گا ۔اگلی ایک سطر ہاکی کا نوحہ اور زوال کی اصل وجہ ہے۔ لکھا تھا کہ بیس کھلاڑیوں کو اے، بی اور سی کیٹگری میں بالترتیب پچاس ، چالیس اور تیس ہزار ماہانہ رقم ملے گی۔
پچھلے ماہ ہی کرکٹرز کے سینٹرل کانٹریکٹ کا اعلان ہوا ہے اور اس میں اے کیٹگری کو ماہانہ سوا بارہ لاکھ ،بی والوں کو ساڑھے نولاکھ اورسی والوں کو شاید ساڑھے پانچ لاکھ ماہانہ ملیں گے۔ گویا کرکٹ کے کھلاڑی ہاکی کے کھلاڑی سے کم از کم پچیس گنا زیادہ کما رہا ہے۔ میچ فیس تو ایک ٹی ٹونٹی کی سی کیٹگری کے کھلاڑی کی سال بھر کی فیس کے قریب ہے۔اسکے علاوہ اشتہارات لیگز یہ وہ سو کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ایک ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ملک کے شہری میں۔ کرکٹ اور ہاکی میں معاوضات کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ 1976 کے دورہ نیوزی لینڈکے موقع پر کرکٹرز نے اپنا معاوضہ بڑھوانے کی کوشش کی تھی۔ ابتداء میں ان کو انکار کر دیا گیا اور بی ٹیم بھی پہلے ٹیسٹ کے لئے تیارکر دی گئی لیکن بعد ازاں بھٹو سے رابطہ کر کے کھلاڑیوں نے اپنی بات تسلیم کروا لی۔ اب ہاکی کے معاوضے کرکٹرز کے مقابلے میں نصف ہو گئے مگر ہاکی والوں کے پاس ایک آسرا تھا کہ انھیں اداروں میں ملازمتیں حاصل تھیں۔یتاہم انیس سواسی کی دہائی میں سابق گول کیپر شاہد علی خان کو کہتے سنا تھا کہ ہمیں ستائیس روپے فی میچ معاوضہ ملتا ہے۔ معاوضے میں اضافے کی بات کرتے ہیں تو ایسا سمجھا جاتاہے گویا ہم ملک سے غداری کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ یوں ہی چلتا رہا اوراب تین چار عشروں میں معاملہ یہ ہے کہ قومی کھیل کے سینٹرل کانٹریکٹ یافتہ کھلاڑی اورمحلے میں کام کرنے والے مزدور کے معاوضے میں چنداں فرق نہیں۔ایک کھلاڑی کے دور حکومت میں کھلاڑیوں کا ایسا استحصال افسوس ناک ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کرکٹ بورڈ کی آمدنی کے بہت ذرائع ہیں اور وہ حکومت سے گرانٹ بھی نہیں لیتا بلکہ اس کا تو یہ عالم ہے کہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی قومی اسمبلی کو نہیں بتاتا۔ہاکی فیڈریشن کے اتنے ذرائع نہیں اوراس کو شاید سالانہ گرانٹ بھی ملتی ہے تاہم کیا ہاکی فیڈریشن کے صدر، سیکرٹری اور دیگر عملہ بھی اسی کسمپرسی میں گزر بسر کر رہا ہے ؟2009 میں سوا ارب کی گرانٹ ملی تھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کو مگر وہ کہاں گئی کسی کو بھی علم نہیں ؟اولمپکس میں جو سیر کر رہے ہیں کیا ان کا جانا ضروری تھا یا یہ پیسہ طلحہ طالب یا ہمارے شوٹر گلفام جوزف کو دیا جا سکتا تھا ؟ ہر فیڈریشن اپنے ذرائع بڑھانے کی ذمہ دار ہے تاہم کھلاڑیوں کی کم از کم تنخواہ تو مقرر ہونی چاہیے جو مناسب ہو۔
آج کل تو ایک مزدور بھی آٹھ نو سو دیہاڑی لیتا ہے جبکہ مستری کی ہزار سے اوپر ہوتی ہے۔کیا آج کے دورمیں تیس ہزار میں گھر چلایا جا سکتا ہے ؟ اتنی رقم تو ایک متوسط گھر میں بھی بلوں پرلگ جاتی ہیے۔کیا ان کھلاڑیوں کے ساتھ پیٹ نہیں لگے ہوئے یا ان کے والدین اور گھر والےانسان نہیں ہیں؟ ان کی ضروریات نہیں ہیں؟ کیا اس تنخواہ سے یہ بین الاقوامی معیار کی فٹنس والی خوراک کھا سکتے ہیں اور اپنے لئے ٹریننگ کا انتظام کر سکتے ہیں ؟ کیا اس تنخواہ پر ہم ان سے میڈلز کی امید رکھنے میں حق بجانب ہیں ؟ کئی کئی لاکھ ماہانہ لینے والے اور ہر قسم کی سہولتوں سے لیس کرکٹرز اگر پانچویں چھٹی پوزیشن ہر ہیں تو ہزاروں میں تنخواہ لینے والی ہماری ہاکی ٹیم دنیا میں ٹاپ ٹونٹی میں شامل ہے تو کیا یہ لڑکے شاباش کے مستحق نہیں ہیں؟ کیا ملک کی نمائندگی کرنے والوں کی یہ بے عزتی نہیں ہے؟ اگر ملک کی نمائندگی اور اس کے لئے کام کرنا اعزازہے تو پھر سب کوہی بغیر پیسوں کے یہ کام کرنا چاہیے۔کیا ہاکی کے اچھے بین الاقوامی کھلاڑی ایسی تنخواہ اپنی کرنسیوں یونی ڈالرز پونڈز، فرانک وغیرہ میں نہیں لے رہے ہوں گے۔ اس لحاظ سے تو ہمارےکھلاڑی پتھر سے ٹینکوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ چند روز قبل جو کچھ ہاکی لیجنڈ سمیع اللہ کے مجسمے کے ساتھ ہوا ہے کیا وہی ہم اپنے قومی کھیل کے ساتھ نہیں کر رہے ؟ زیادہ دن نہیں ہوئے نوید عالم کو کینسر کے باعث کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرتے۔زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر جو منصور احمد کے ساتھ اور اب نوید عالم کے ساتھ ہوا کیا کوئی ہوشمند انسان ہاکی کھیلے گا ؟
اس رقم میں کھلاڑی کھیل پرتوجہ دیں گے یا اپنے گھرکے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں غلطاں رہیں گے ؟ اگر فیڈریشن تمام بیس کھلاڑیوں کو اے کیٹیگری بھی دے دے تو یہ سال کے ایک کروڑ بیس لاکھ بنتے ہیں۔ہمارے خیال میں تو وہ بارہ خوش نصیب ہوں گے جنھیں کانٹریکٹ نہیں ملے گا کہ وہ اپنے "فضول شوق” پر مٹی ڈال کر کسی اور کام سے لگ جائیں گے ۔ آج کے دور میں یہ رقم کھلاڑی کے لئے مذاق بلکہ اس کی بے عزتی ہے۔ فیڈریشن اگر حکومت سے رقم نہیں لے سکتی تو ان کھلاڑیوں کی ملازمت کا بندوبست کرے۔ حکومت سے مدد لے کر کہیں سے اسپانسر شپ ہی لے لے۔سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے لئے ایک ٹیم کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ملک میں ویسے بھی لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو ان سے قومی خدمت کے طور پر کام لئے جا سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کو آپ قائل کریں کہ یہ ملی ذمہ داری ہے تو ان کے لئے بیس پچیس کھلاڑیوں کے اخراجات اٹھانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پی ایس ایل کی طرز پر لیگ بنائی جا سکتی ہے لیکن اس سب کے لئے خلوص دل سے کوشش و عمل ضروری ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہےتوکھلاڑیوں کو کانٹریکٹ نہ دیں اور یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروا دی جائے۔ ہاکی کو ختم کر دیا جائے اور ٹیکسوں کا پیسہ کسی اچھے اور ضروری کام پر لگا دیا جائے۔دوسری صورت میں پاکستان ہاکی کو پرائیویٹائز کر دیا جائے۔ اگر پی آئی اے اور سٹیل مل ہوسکتے ہیں تو اس میں کیاحرج ہے ؟ شاید کچھ بہتری آ ہی جائے۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 31st, 2021
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں