تحریر: ابنِ ریاض
خواتین کو بہت کم مواقع ایسے ملتے ہیں کہ جہاں وہ ثابت کر پائیں کہ وہ مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ یہ خراج تحسین ہے ایک ایسی لڑکی کو جو تھی تو بھارتی لیکن اس کا کارنامہ پاکستان کی فضا میں تھا۔
7 ستمبر 1963 کو چندی گڑھ میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام نیرجا بھانوٹ رکھا گیا۔ وہ دو بھائیوں کی اکلوتی اور چھوٹی بہن تھی۔ ابتدائی تعلیم چندی گڑھ میں حاصل کی ۔کچھ ہی عرصے بعد اس کے والدین بمبئی منتقل ہو گئے اور اس کی بقایا تعلیم بمبئی میں مکمل ہوئی۔ انیس سال کی عمر میں والدین نے اس کی شادی طے کر دی۔ والدین کے ارمان جو بھی ہوں مگر یہ شادی ناکام ثابت ہوئی۔ نیرجا کا شوہر اچھا انسان ثابت نہیں ہوا اور اس نے چھوٹی عمر کی رعایت نیرجا کو نہ دی اور بات بے بات ہاتھ بھی اٹھاتا تھا اپنی بیوی پر۔ یہ شادی صرف دو ماہ ہی برقرار رہی اور نیرجا والدین کے پاس واپس آ گئی۔نیرجا نے والدین کے گھر جا کر اپنے مقدر کو کوسنے، گھٹ گھٹ کر جینے اور احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش شکل تو وہ تھیں اور سکونت بھی بمبئی میں تھی تو انھوں نے ماڈلنگ میں کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے "پین ایم ” نامی امریکن ائیر لائن میں فلائٹ اٹنڈنٹ کی اسامی کے لئے درخواست دی اور انھیں اس کام کے لئے منتخب کرلیا گیا۔
اپنی دوسری فلائٹ سے ایک دو روز قبل نیرجا کی والدہ نے ان سے شکوہ کیا کہ بیٹا تم اس مرتبہ اپنی سالگرہ پر گھر نہیں ہوگی۔ہم تمھارے لئے تحفہ لے رکھیں گے اور وعدہ لیا کہ واپسی پر وہ سب کے ساتھ مل کر اپنی سالگرہ منائے گی۔نیرجا اس بات پر رضامند ہو گئی۔ سفر پر نکلنے سے پہلے نیرجا جب اپنی والدہ سے ملی تو نجانے انھیں کیا خیال آیا کہ نیرجا کو روک کر کہا "بیٹا جہاز تو اغواء بھی ہو جاتے ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو تم نے بھاگ کر اپنی جان بچانی ہے”۔ ماں کی بات سن کر نیرجا بولی ” ممی اگر تم جیسی مائیں ہونے لگیں تو اس دیش کا کیا ہو گا ؟ میں بھاگ جانے کی بجائے مر جانے کو ترجیح دوں گی”۔
5 ستمبر 1986 کواپنی تئیسویں سالگرہ سے دو روز قبل انھیں اپنی دوسری فلائٹ "پین ایم تہتر” پر بطور سینیئر ائیر ہوسٹس بمبئی سے امریکہ جانا تھا۔ اس فلائٹ نے کچھ دیر کراچی میں اور بعد ازاں فرینکفرٹ میں کچھ دیر قیام کرنا تھا۔ فلائٹ تین سو اسی (380) مسافروں اور عملے کے تیرہ(13) اراکین کے ساتھ روانہ ہوئی اور کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کیا۔ جہاز فرینکرٹ کے لئے پرواز کرنے والا تھا کہ ایئر پورٹ پر کچھ افرادکی مشکوک حرکتوں سے نیرجا نے اندازہ لگایا کہ یہ ہائی جیکرز ہوسکتے ہیں۔ نیرجا نے کاک پٹ میں رابطہ کیا اور کپتان کو صورت حال سے مطلع کیا۔ اسی دوران اسلحہ سے لیس اغواء کار جہاز میں داخل ہو گئے۔دونوں کپتان اور مین انجینئر کاک پٹ سے ہی باہر نکل گئے۔یوں جہاز اب ہوا میں اڑ نہیں سکتا تھا۔ اب جہاز کا چارج نیرجا نے سنبھال لیا کیونکہ عہدے کے لحاظ سے وہ اب جہاز میں عملے کی سب سے سینیئر رکن تھیں۔
جہاز پر ہائی جیکروں کو دیکھ کر مسافروں کا پریشان اور بدحواس ہونا فطری عمل تھا۔انھوں نے سب سے پہلے مسافروں کو پرسکون کیا۔ مسافروں کو سمجھایا کہ اغواء کاروں کا مقصد انھیں نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ان کے مطالبات مختلف ہیں۔ اس لئے کسی غلط حرکت سے گریز مسافروں کےمفاد میں ہے۔ اغواء کاروں کا مقصد اپنے ساتھیوں کی رہائی تھی اور ان کا نشانہ امریکہ مسافر واثاثہ جات تھے۔تاہم پائلٹ کے نہ ہونے سے وہ جہاز اڑا نہ سکتے تھے۔انھوں نے کراچی ائیر پورٹ سےپائلٹ بھیجنے کا مطالبہ کیا اور نا بھیجنے کی صورت میں سخت نتائج کی دھکمی کی۔ بعدازاں انھوں نے ایک امریکی بھارتی کو شناخت کیا اور اسے قتل کر کے دروازے سے باہر پھینک دیا۔ اس کا مقصد کراچی ہوائی اڈے کی انتظامیہ پردباؤ ڈالنا تھا، کچھ دیر بعد انھوں نے عملے سے کہا کہ سب مسافروں کے پاسپورٹ جمع کیے جائیں تا کہ وہ مزید امریکیوں کو شناخت کر سکیں مگر نیرجا کے سمجھانے پر اس کی ساتھیوں نے امریکی مسافروں کے پاسپورٹ ایسے چھپائے کہ کسی ایک امریکی کا پاسپورٹ بھی انھیں نہ مل سکا۔ اس دوران نیرجا نے مسافروں کی سلامتی و زندگی کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ایسے ہی قیامت خیز حالات میں سترہ گھنٹےگزرگئے اور جب جہاز اڑنے کے آثار نظر نہ آئے تو اغواء کاروں نے تھکن سے مغلوب اور مایوس ہو کر اورممکنہ کمانڈو ایکشن کےڈر سے مسافروں پر فائر کھول دیا۔ اس موقع پر نیرجا نے آنکھ بچا کر جہاز کا ایک ایمرجنسی ایگزٹ کھول دیا۔ اس وقت اگر وہ چاہتیں تو اغوا کاروں سے جان بچانے والی پہلی ہستی بن سکتی تھیں اور یہ بالکل بھی غلط نہ ہوتا۔ نیرجا نے پچھلے کئی گھنٹے اپنے مسافروں کے لئے اپنی ذمہ داری اور ہمت سے بڑھ کر کام کیا تھا۔یہاں بھی نیرجا نے اپنے مسافروں کو خود پر ترجیح دی اور ان کو باہر نکلنےمیں مدد دی اور کئی مسافروں کو جہاز سے باہر نکالا۔اسی اثناء میں نیرجا کی نظر تین بچوں پر پڑی جو اپنے سرپرستوں کے بناء تھے اور اس صورت حال میں ڈر اور خوف سے رو رہے تھے۔نیرجا انھیں باہر نکالنے میں مصروف تھی کہ اغواء کاروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئی اور زخموں کی تاب نہ لا کر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔نیرجا کی سالگرہ کے روز اس کے والدین نے اپنی بیٹی کی میت وصول کی۔
نیرجا والدین کی اکلوتی بیٹی اور بھائیوں کی اکلوتی چھوٹی بہن تھی اور گھر والوں کو انتہائی عزیز تھی اوراسکے علاوہ ماڈلنگ اور ہوابازی میں ایک شاندار کیریئر اس کا منتظر تھا۔ علاوہ ازیں مسافر جہاز کے عملے کے رشتے دار نہیں تھے اور بالفرض ہوتے بھی تو رشتے داروں کی خاطر بھی کون جان خطرے میں ڈانتا ہے کجا کہ اجنبیوں کے لئے اپنی جان تک دے دی۔ یہ بھی یاد رہے کہ انھیں اپنی جان بچانے کے دو یقینی مواقع بھی ملے۔ وہ چاہتی تو پائلٹس کے ساتھ ہی کاک پٹ سے نکل جاتی۔ پھر جب مسافروں کو بچانے کے لئے نیرجا نے ایمرجنسی ڈور کھولا تھا تو وہ موقع بھی اس لڑکی کے پاس تھا مگر نیرجا نے ثابت کیا کہ انسان جب کسی کو مشکل میں دیکھتاہے تو پھر وہ مذہب و وطن سے بالاتر ہو کر ان کی مدد کرتا ہے اور انھیں مشکل سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
عام بات چیت میں بلند و بالا دعوٰی کرنا ایک بات ہے اور حقیقی صورت حال میں اس دعوے پر پورا اترنا بالکل مختلف بات ہے۔ تاریخ اپسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ لوگوں نے دعوے تو ہزار ہزار سال تک جنگ کرنے کے یا محبت میں آخری سانس تک وفا نبھانے کے کئے لیکن جب وقت قیام آیا تو سجدوں میں گر گئے۔ اس واقعے سے ہمیں وہ پاکستانی سکول ٹیچر سمیعہ یاد آ گئی جو جلتی گاڑی سے نکل سکتی تھی مگر اپنے طلباء کو آگ میں جلتا دیکھنا اس گوارا نہ تھا اور اپنے طلباء کے ساتھ ہی اس نے جان دے دی تھی۔آرمی پبلک سکول کی پرنسپل میڈم طاہرہ کو یاد نہ کرنا بھی زیادتی ہو گا جو دہشت گردوں کے سامنے اپنے طلباء کی جان بچانے کے لئے کھڑی ہو گئیں تھی اور دہشت گردوں نے انھیں شہید کردیا تھا۔ ان دونوں خواتین کی قربانی بھی بہت عظیم ہے مگرنیرجا ان کی بھی پیش رو تھی۔
نیرجا بھانوٹ کے کارنامے کو حکومتِ پاکستان نے بھی سراہا۔انھیں "تمغہ پاکستان” سے نوازا گیا۔سنیل گواسکر کو پاکستان کے عالمی کپ جیتنے کی پیشین گوئی کرنے پر گولڈ میڈل دیا گیا اور اسکے علاو دلیپ کمار کو بھی پاکستان میں اعزاز سے نوازا گیا مگر پاکستان سے اعزاز حاصل کرنے والی پہلی بھارتی یہ نو عمر لڑکی نیرجا ہی تھی۔ بھارتی حکومت نے حالتِ امن میں دشمن کا بہادری سے مقابلے کرنے کا سب سے بڑا اعزاز اشوکا چکرا سے نوازا۔ تئیس برس سے کم عمر میں مرد وزن میں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر اور پہلی خاتون ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کی تنظیموں نے انھیں بعد ازمرگ اعزازاتسے نوازا۔ تاہم یہ سب اعزازات ان کے کارنامے سے کہیں زیادہ چھوٹے ہیں کیونکہ یہ کارنامے کے بعد دیئے گئے ہیں۔جب وہ مسافروں کی جان بچانے کی کوشش کر رہی تھی تو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اسے اتنے اعزازات ملیں گے اور وہ اپنے خاندان بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک روشن مثال بن جائے گی۔
نیرجا نے ثابت کیا کہ خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے مگر یہ تاثرکسی طرح بھی ٹھیک نہیں۔ خواتین کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں ۔ ان کے میدان چونکہ مختلف ہیں تو انھیں ایسی جرات و بہادری دکھانے کے مواقع کم ملتے ہیں تاہم جب موقع ملے تو نہتی لڑکی اسلحہ بردار مردوں کےنہ صرف مقابل آ سکتی ہے بلکہ ان کے عزائم بھی خاک میں ملا سکتی ہے۔ بلاشبہ نیرجا جیسے افراد ہی انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: ستمبر 4th, 2021
زمرہ: شخصیات تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Ashoka Chakra, Bombay, Chandigarh, india, karachi, Mumbai, Neerja Bhanot, Pan Am, tamgha e Pakistan