تحریر: ابنِ ریاض
پچھلے دنوں رمیض راجہ کے چیئرمین کرکٹ کرکٹ بورڈ بننے کی خبروں کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ میں دھماکا خیز تبدیلیوں کا دور شروع ہو گیا ہے۔ عالمی کپ کے لئے ٹیم کا انتخاب اس وقت تنقید کی زد میں ہے۔ اس کے علاوہ ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بالنگ کوچ وقار یونس نے نوشتہء دیوار پڑھتے ہوئے استعفا دے دیا ہے جس پر شائقین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ تاہم ہمارے خیال میں تو یہ بالکل ٹھیک نہیں ہوا۔ عالمی کپ تک انھیں کام کرنے دینا چاہیے تھا اور اس کے بعد بھلے ہٹا دیتے۔ اگرچہ عالمی کپ میں پاکستان کی جیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس پر انتخاب سونے پر سہاگے کا کام کر رہا ہے لیکن اب تو کسی کو قربانی کا بکرا بنانا بھی مشکل ہے۔
ہماری رائے میں تو پاکستان کے وائٹ بال کوچز تبدیل ہونے چاہیے تھے لیکن ٹیسٹ میچز کے لئے وقار یونس اور مصباح الحق کی جوڑی کو برقرار رکھا جانا چاہیے تھا۔ مصباح الحق کو اگرچہ عجلت میں یہ عہدہ دیا گیا مگر بہتر یہ تھا کہ اب انھیں کچھ عرصہ انھیں مزید کام کرنے دیا جاتا۔ عوامی رائے کے برعکس ہمارا خیال یہ ہے کہ وقار یونس پاکستان کے بہترین کوچز میں سے ہیں۔ اس سے یقیناً اکثریت اختلاف کرے گی مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی برا لگتا ہے تو اس کی ساری اچھائی پس پشت چلی جاتی ہیں اور کوئی اچھا لگے تو ساری برائیوں کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ہم اعداد و شمار سے یہ بات ثابت کرتے ہیں۔
وقار یونس نے اگرچہ اپنا آخری میچ 2003ء کے عالمی کپ میں کھیلا تھا مگر اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان انھوں نے 2004ء میں بھارت کے دورہ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ 2004ء کے آخر میں پاکستان ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا جبکہ وقار یونس وہاں کمنٹری پینل میں موجود تھے۔ وی بی سیریز کے دوران انھوں نے ایک روز آ کر رانا نوید اور افتخار انجم کو کچھ مشورے دیئے جس پر عمل پیرا ہو کر انھوں نے آسٹریلوی ٹیم کو دونوں فائنلز میں ڈھائی سو سے کم پر محدود کیا مگر پاکستان کی بیٹنگ لائن وہ ہدف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔بعد ازاں رانا نوید نے بھارت میں بھی ایک روزہ میچوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ایک میچ میں چھ وکٹیں بھی لیں۔
مارچ 2006ء میں انھیں پاکستان ٹیم کا بالنگ کوچ مقرر کیا گیا جبکہ ہیڈ کوچ باب وولمر تھے۔ سری لنکا کے دورے میں انھی کی زیر نگرانی محمد آصف نے پہلی اور آخری مرتبہ میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔ انگلینڈ میں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن اسی دورے کے دوران عمر گل کی ریورس سوئنگ بھی دیکھی گئی۔ بعد ازاں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو امارات میں ہرایا۔ جنوبی افریقہ کے دورے سے قبل انھیں کہا گیا کہ وہ صرف ٹیسٹ سیریز کے لئے وہاں ہوں گے اور ایک روزہ میچوں کے لئے مشتاق جائیں گے تو انھوں نے بالنگ کوچ کی ذمہ داری سے معذرت کر لی بالکل اسی طرح جس طرح حالیہ دورہ انگلینڈ سے قبل یونس خان نے معذرت کی تھی تا ہم پاکستان نے جنوبی افریقہ میں تاحال اپنا آخری ٹیسٹ میچ جیتا۔ اس کا کریڈٹ شاید ہی کوئی وقار یونس کو دے جبکہ پہلی اننگز میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کی بساط ایک سو چوبیس رنز پر لپیٹی تھی جبکہ دوسری اننگز میں شعیب اختر کی غیر موجودگی میں بھی جنوبی افریقی ٹیم کو ایک قابل رسائی ہدف تک محدود کیا تھا۔ بعد ازاں 2013ء میں پاکستانی ٹیم ڈیو واٹمور اور 2019ء میں مکی آرتھر کی معاونت میں کلین سویپ ہو کر آئی۔ بہرحال وقار یونس واپس چلے گئے۔
2009ء میں ایک مرتبہ پھر وقار یونس کو دورہء آسٹریلیا کے لئے بالنگ کوچ بنایا گیا۔ سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان نے شاندار بالنگ کی اور اگر فیلڈنگ اور بیٹنگ ساتھ دیتی تو پاکستان میچ جاتا لیکن جب آپ ہار جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ خامیاں ہی سامنے آتی ہیں۔ بہرحال قصہ مختصر کہ وہ دورہ پاکستان ٹیم کے لئے بھیانک خواب ثابت ہوا اور پاکستان ٹیم ایک بھی میچ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس دورے کے اختتام پر نہ صرف یوسف، یونس اور ملک پر پابندی لگی بلکہ انتخاب عالم کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹنا پڑا اوران کی جگہ وقار یونس پہلی مرتبہ ٹیم کے ہیڈ کوچ بنے۔ ان کا پہلا امتحان ویسٹ انڈیز میں عالمی کپ تھا۔ سینیر کھلاڑیوں سے محروم ٹیم نے سیمی فائنل کھیلا اور مائیک ہسی سڈنی کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستانیوں کے اعصاب پر سوار ہوا اور پاکستانی ٹیم فائنل سے باہر ہو گئی۔
اس کے بعد دورہ انگلینڈ تھا جہاں پہلے پاکستان نے آسٹریلیا سے ہوم سیریز کھیلی۔ پہلا ٹیسٹ پاکستان نہ صرف ہارا بلکہ کپتان نے ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔ دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے حیران کن طور پر آسٹریلیا کو ہرا دیا۔ حیران کن اس لئے شاید 1978ء کے بعد جس مین کیری پیکر میں حصہ لینے کی پاداش میں پابندی کے باعث ایک انتہائی کمزور ٹیم انگلینڈ گئی تھی، یہ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین بیٹنگ لائن تھی۔ شین واٹسن،کیٹچ، پونٹنگ، کلارک اور ہسی کے مقابلے میں عمران فرحت، سلمان بٹ، اظہر علی(دوسراٹیسٹ)، عمر امین(دوسراٹیسٹ)، عمر اکمل(ساتواں ٹیسٹ) اور شعیب ملک(جن کا ٹیسٹ ریکارڈ اور انگلینڈ میں ریکارڈ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں) پر پاکستانی بیٹنگ مشتمل تھی۔ بھلے آصف اور عامر نے عمدہ بالنگ کی مگر ہدف پھر وہی پونے دو سو تھا جو چند ماہ قبل یوسف، فیصل اقبال،مصباح الحق اور عمر اکمل پر مشتمل بیٹنگ لائن کے لئے ناقابلِ عبور پہاڑ بن گیا تھا وہ ہدف ان بچوں نے حاصل کر لیا۔ یہ سولہ سال بعد پاکستان کی آسڑیلیا کے خلاف پہلی فتح تھی اور وہ بھی اس ٹیم کے ساتھ جس میں بیٹنگ میں سوپر سٹار تو کیا سٹار بھی نہ تھا۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز شروع ہوئی تو پہلے دو ٹیسٹ تو اس ٹیم نے ہارے تاہم تیسرے ٹیسٹ سے قبل محمد یوسف ٹیم میں واپس آ گئے۔ یوسف اور اظہر علی کی نصف سینچریوں کے باعث پاکستان نے لیڈ لی۔ چوتھی اننگز میں ڈیڑھ سو کا ہدف ملا اور پاکستان نے گرتے پڑتے وہ حاصل کر لیا۔نو سال بعد پاکستان نے انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر شکست دی۔ قریب تھا کہ لارڈز ٹیسٹ بھی ہم جیت جاتے کیونکہ پہلے روز انگلینڈ کے سو پر سات آؤٹ تھے کہ ہمارے دو ہونہار بالرز اور کپتان نے نہ صرف میچ بلکہ اپنا کیریئر اور ملک کی عزت سب پلیٹ میں رکھ کر مخالفین کو پیش کر دی۔
اس صدمے کے بعد انگلینڈ میں ایک روزہ سیریز پاکستان تین دو سے ہارا۔ نئے کپتان اور نئے سیٹ اپ کے ساتھ کارکردگی زیادہ بری نہ تھی۔ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوم سیریز تھی اور پچھلی سیریز 2007ء وہ پاکستان میں آ کر جیت چکے تھے جبکہ پاکستان کے کوچ جیف لاسن تھے۔ ایک روزہ سیریز میں نتیجہ پھر تین دو رہا مگر تین میچ آخری اوور تک گئے۔ ٹیسٹ میچز میں پاکستان نے مصباح کو کپتان بنایا اور پھر نوجوان ٹیم کے ساتھ پاکستان نے سیریز جنوبی افریقہ کے خلاف برابر کر دی۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ 2006ء سے لیکر 2015ء تک کوئی بھی غیرملکی سیریز نہیں ہارا تھا جس میں بھارت کے دو دورے بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ٹیم نیوزی لینڈ گئی اور وہاں سیریز جیت لی۔ نہ صرف ٹیسٹ سیریز جیتی بلکہ ایک روزہ سیریز میں بھی فاتح رہے۔یہ پاکستان کا نیوزی لینڈ کا آخری کامیاب دورہ تھا۔ یاد رہے نیوزی لینڈ کی ٹیم عام نہیں تھی ۔ میکولم، گپٹل،رائڈر۔ٹیلر،ولیمسن جیسے بیٹسمین تھے جن کا مقابلہ اپنے گراؤنڈز اور حالات میں حفیط، توفیق عمر،یونس، اظہر،مصباح اور اسد سے تھا جبکہ بالنگ میں مارٹن، ساؤتھی، ویٹوری کے مقابل ہمارے عمرگل(کیریئر اوسط چونتیس)، تنویر احمد( جنھیں آپ اے آر وائی کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں) وہاب ریاض اور عبدالرحمان کے ساتھ تھا۔ اس میں بھی شاید وقار یونس کا کوئی کردار نہ تھا۔عمر گل، تنویر احمد اور عبدالرحمان میں اچانک سپر پاورز آ گئی تھیں۔
دو ہزار گیارہ کے عالمی کپ میں پاکستان کی ایک کمزور ٹیم تھی۔ تین کھلاڑیوں پر بین الاقوامی پابندی تھی تو یوسف اور ملک (جن کا برصغیر میں ایک روزہ میچوں میں شاندار ریکارڈ ہے) کو بھی منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم آسٹریلیا کو چونتیس عالمی کپ کے میچوں کے بعد شکست ہوئی اور وہ دینے والی یہی ٹیم تھی جس کے پانچ کھلاڑی نہیں تھے۔ اس کے بعد آپ کی ٹیم نے سیمی فائنل کے لئے کوالی فائی کیا۔ یہاں شعیب اختر کی بجائے وہاب ریاض کو کھلانے کا غیر مقبول فیصلہ کیا گیا جس میں یقیناً وقار یونس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ پھر وہاب ریاض نے کیا کیا یہ آپ جانتے ہیں تاہم پاکستان بدقسمتی سے میچ ہار گیا۔ تاہم 1999ء کے بعد یہ تاحال پاکستان کی عالمی کپ میں بہترین کارکردگی ہے جبکہ یہ ٹیم 1999ء کیا 1992ء کی ٹیم سے بھی بہت کمزور تھی۔ ویسٹ انڈیز میں پاکستان نے ایک روزہ سیریز جیتی اور ٹیسٹ سیریز برابر کی اور اس کے بعد آفریدی سے کچھ اختلافات ہوئے اور وقار نے ذاتی وجوہات کا عذر کر کے اپنی راہیں الگ کر لیں۔
بعد ازاں محسن حسن خان پاکستان کے عبوری کوچ بنے اور 2012ء میں پاکستان نے ہوم سیریز میں انگلینڈ کو امارات میں کلین سویپ کیا۔ تاہم ایک روزہ میچوں کی سیریز انگلینڈ کے نام رہی۔ محسن خان مزید کام کرنا چاہتے تھے مگر ان کی بجائے سری لنکا کے عالمی کپ ونگ کوچ ڈیو واٹمور کو لایا گیا۔ ان کی سرپرستی میں پاکستان نے دوسری مرتبہ ایشیا کپ جیتا مگر یہ محسن حسن کی ٹیم تھی کیونکہ واٹمور نے کچھ ہی عرصہ قبل پوزیشن سنبھالی تھی۔ سری لنکا میں سیریز ہاری۔ 2013ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کو جنوبی افریقہ میں کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں زمبابوے کی ٹیم نے بھی پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں شکست دے دی جبکہ زمبابوے میں کوئی بھی قابل ذکر کھلاڑی نہ تھا( یہ موجودہ انگلش ٹیم کے کلین سویپ سے بھی شرم ناک شکست تھی کیونکہ انگلش کھلاڑی انٹر نیشنل کا تجربہ رکھتے تھے اور کاؤنٹی کرکٹ میں بھی بین الاقوامی کھلاڑیوں کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں)۔ بعد ازاں امارات میں پاکستان نے جنوبی افریقہ سے سیریز برابر کی مگر برتری حاصل کرنے کے بعد دوسرا میچ ہار دیا۔ ایک روزہ میچز کی سیریز میں نو اوورز میں سترہ رنز کی ضرورت تھی اور چھ وکٹیں باقی تھیں مگر ہاکستان نے نہ صرف میچ ہارا بلکہ سیریز بھی چار ایک سے جنوبی افریقہ کے نام رہی۔ تاہم جوابی سیریز میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کو دو ایک سے ہرا کر پہلی مرتبہ باہم ایک روزہ سیریز جیت کر اپنے زخموں کیک کچھ تلافی کی۔
دو ہزار چودہ کے مئی میں وقار نے پھر ہیڈ کوچ کا عہدہ سنبھالا۔ سری لنکا سے ٹیم ہاری۔ اس کے بعد آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کی ٹیمیں پاکستان کی امارات میں مہمان بنیں۔ اس سے فوراً پہلے سعید اجمل و محمد حفیظ کے بالنگ ایکشن پر پابندی لگ گئی۔ پچھلے عالمی کپ کی مانند چند ماہ پہلے پاکستان کے دو بہترین اسپنرز پھر پابندی کی زد میں آئے۔ پاکستان نے یاسر شاہ اور زوالفقار بابر پر اسپن بالنگ کی ذمہ داری ڈالی اور فاسٹ بالنگ میں عمران خان کو استعمال کیا۔ اس بالنگ کے ساتھ پاکستان نےآسٹریلیا کو کلین سویپ کیا اور نیوزی لینڈ سے سیریز برابر کھیلی۔ عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو شکست دی جو بعد ازاں عالمی چیمپئن بنی۔ وقار کے اس دور میں پاکستان نےانگلینڈ کو امارات اور سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ان کے گھر میں ہرایا اور جب وقار نے استعفا دیا تو پاکستان ٹیسٹ میچز میں عالمی نمبر دو تھا جو 2016ء میں مکی آرتھر کی سرپرستی میں انگلینڈ سے سیریز برابر کر کے کچھ روز کے لئےعالمی نمبر ایک بھی بنا۔ تاہم عالمی نمبر ایک بننے میں اسی فیصد سے زائد کردار وقار کا تھا۔
مکی آرتھر کے دور میں پاکستان نے چیمپئن ٹرافی جیتی ضرور لیکن بحیثنت مجموعی یہ ناکامیوں کا دور رہا۔ ویسٹ انڈیز نے چھبیس سال بعد پاکستان کو ہوم سیریز میں ہرایا۔ نیوزی لینڈ میں ٹیم پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ ہوئی۔ دوسرا ٹیسٹ تو ایسے ہارے کہ ایک ہی سیشن میں نو وکٹیں گر گئیں۔ آسٹریلیا میں پاکستان نے اپنی تاریخ کے دو بہترین انفرادی سکور کیے لیکن کلین سویپ پھر بھی مقدر رہا۔ میلبورن میں تیسرے دن تک بیٹنگ کے باوجود اننگز سے ہار گئے۔ ون ڈے سیریز میں چار ایک کی خفت اٹھائی۔امارات میں سری لنکا کی ٹیم جس میں چندیمل اور میتھیوز کے علاوہ کسی کے نام بھی معلوم نہیں تھے وہ کلین سویپ کرگئے بلکہ پہلے ٹیسٹ میں ایک سو چونتیس کا ہدف ہی ناقابل عبور ٹھہرا۔ آسٹریلیا سے محمد عباس کی عمدہ بالنگ کے باوجود مشکل سے جیتے اور کیویز نے پچاس برس بعد پاکستان کو ہوم سیریز میں شکست دی جبکہ ہارنے والے دونوں میچوں کی پہلی اننگز میں پاکستان نے ستر سے زاید کی برتری حاصل کی تھی۔ ون ڈے کی بات کریں تو 2016 میں برطانیہ سے چار ایک کی خفت اٹھائی۔ نیوزی لینڈ سے پانچ صفر سے ہارے۔ جنوبی افریقہ سے تین دو سے ہارے۔ آسٹریلیا نے عالمی کپ سے پہلے امارات میں پاکستان کو پانچ صفر سے کلین سویپ کیا۔ عالمی کپ کی تیاری کے لئے برطانیہ میں پانچ میچ کھیلے تو چار ایک سے ناکامی مقدر ٹھہری۔ عالمی کپ شروع ہوا تو پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز نے وہ ناک آؤٹ پنچ مارا کہ آخر تک اس کے اثرات ساتھ رہے۔ دو عالمی کپ میں نا مساعد حالات میں عالمی چیمپئن بننے والی ٹیموں کے ہاتھوں ہارنا بری کارکردگی تھی اور یہاں ایک ایسی ٹیم جس نے ہمارے علاوہ صرف افغانستان کو ہرایا اس سے ہار کر باہر ہونا اچھی کارکردگی ہے؟ تاہم ٹونٹی ٹونٹی میں ٹیم ضرور نمبر ون رہی۔ اس میں بہرحال کریڈٹ بنتا ہے۔
2019ء سے اب تک قریب دو سال پھر گزار کر ایک مرتبہ پھر حالات دیکھ کر وقار جا چکے ہیں۔ اس مرتبہ نتائج ملے جلے ہی رہے ہیں۔ آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں جاری نحوست تھم نہ سکی۔ جنوبی افریقہ کو پہلی مرتبہ کلین سویپ کیا۔ جنوبی افریقہ میں ایک روزہ سیریز جیتے۔ انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز ہارے اور ایک روزہ میں وائٹ واش ہوئے۔ تاہم ویسٹ انڈیز سے سیریز کے دوران سپورٹس کارنر نامی پیج کے دو معتبر حضرات نے مشاہدہ کیا کہ فہیم کی پیس بہتر ہوئی ہے اور اس سیریز میں وہ وکٹیں لینے والا بالر بھی لگ رہا تھا۔ اور دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کی شاندار بالنگ پر وہ وقار کو دس پندرہ فیصد کریڈٹ دینے پر بھی آمادہ نظر آئے۔ دھائی بعد پہلی مرتبہ پاکستان کو اچھے بالر ملے ہیں اور ان پر کام ادھورا ہی ہے۔ امید ہے کہ ثقلین اور عبدالرزاق ان کی صلاحیتیں مزید نکھاریں گے۔
یوں وقار کے اس دہائی میں ٹیم کے ساتھ تین ادوار گزرے ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں بالنگ کوچ سے ہیڈ کوچ بنایا گیا۔ پھر وہ 2014ء میں ہیڈ کوچ کے طور پر آئے اور اس مرتبہ انھیں بالنگ کوچ بنایا گیا۔ ان ادوار میں انھوں نے میں مینجمنٹ میں بہت کامیابی حاصل کی۔ یہ بات آپ کو عجیب لگ رہی ہو گی لیکن اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں۔ کرکٹ میں مین مینجمنٹ یہی ہو گی نا کہ کوئی بلے باز چالیس کی اوسط سے رنز کرتا ہے تو کوچ اس کی حوصلہ افزائی کرے اور وہ پینتالیس کی اوسط سے رنز بنانا شروع کر دے۔ بالر پہلے تیس کی اوسط سے وکٹیں لے رہا تھا تو کوچ اس کی مدد کرے کہ وہ پچیس پھبیس کی اوسط سے وکٹیں لینا شروع کر دے۔
ذرا کرک انفو پر تلاش کیجیے کہ مصباح الحق کی بہترین کارکردگی کس دور میں ہے؟ چلیں وقار مصباح کو ایک گروپ مان لیں اور یونس کی کارکردگی پر نظر دوڑا لیجیے۔ 2005 اور 2006 کے بعد یونس کے بہترین سال کونسے ہیں؟ 2010 اور 2011 میں ساٹھ کی اوسط اور 2014 میں 66 جبکہ دو ہزار پندرہ میں اکسٹھ کی اوسط جبکہ کیرئیر اوسط باون کی ہے۔ اظہر علی کو لیجیے۔ 2014ء میں اوسط 51، 2015ء میں 57 اور 2016ء میں 63۔ دو ہزار سولہ میں کچھ میچز مکی آرتھر کے ساتھ بھی ہیں لیکن یہ گزشتہ کارکردگی کا تسلسل ہی کہا جا سکتا ہے۔ دو ہزار سترہ میں ویسٹ انڈیز میں دو سینچریوں کے باوجود اوسط نیچے چلی گئی۔ پچھلے سال مناسب کارکردگی کے باوجود اب اظہر کی کیریئر اوسط ساڑھے بیالیس ہے۔ اسد شفیق کو لے لیں۔ 2014ء میں اوسط ساڑھے پینتالیس، 2015ء میں ساڑھے چون جبکہ کیریئر اوسط اڑتیس۔ 2015ء اور 2016ء میں ہم لوگ اظہر اور اسد کو سو میچ کھیلتا اور یونس و مصباح کا جانشین خیال کیا کرتے تھے مگر پھر کیا ہوا؟ حالانکہ اظہر و اسد دونوں کا بہترین سکور مکی آرتھر کے دور میں ہے لیکن ان کا تسلسل ختم ہو گیا۔
آپ ان سب کو چھوڑیں اور سرفراز کی بات کر لیں۔ سرفراز کا 2015ء کے عالمی کپ میں وقار تنازع تو آپ کو یاد ہو گا ہی جب وقار سرفراز کو کھلانے کی بات پر گرم ہو گئے تھے۔ حالانکہ وقار کا نکتہ ٹھیک تھا لیکن میچ ہارنے کی ٹینشن میں وہ گرم ہو گیا تھا۔ نکتہ یہی تھا کہ ریگولر اوپنر کا پہلا حق ہے اور اگر وہ نہ چلے تو سرفراز کو اوپر بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ فرض کریں کہ سرفراز کو پہلے میچ میں اوپر بھیجتے اور وہ ناکام ہوتے تو پھر سب نے شور مچانا تھا کہ ریگولر اوپنر کے ہوتے اس کو کیوں آسٹریلوی پچوں پر چانس دیا گیا۔ بہرحال اسی سرفراز کا ریکارڈ دیکھ لیں۔2014ء میں نو میچوں میں اوسط سڑسٹھ اور 2015ء کے آٹھ میچوں میں اوسط اکیاون۔ اس کے بعد کی کہانی بھی آپ کے سامنے ہے۔ ان کے متعلق آپ کہ سکتے ہیں کہ شاید کپتانی کا دباؤ ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوا ہو۔اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اظہر اور اسد کی فارم کے گرنے کا کیا جواز پیش کیا جائے گا؟
بالرز کی بات کر لیں۔ وہاب ریاض کی بہترین بالنگ دیکھ لیں۔ان کے کیرئیر کے تین اسپیل ہیں۔دو ونڈے کے، ایک چندی گڑھ اور ایک ایڈیلیڈ اور ایک ٹیسٹ میچ کا جب شدید گرمی میں اس نے ابوظہبی میں انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کی کمر توڑی تھی۔ تینوں میں اس کا کوچ دیکھ لیں کہ کون تھا ؟ راحت علی کے اکیس میچوں میں انتالیس کی اوسط سے اٹھون شکار ہیں جبکہ وقار یونس کے اوسط تینتیس اور چونتیس کی ہے اور واحد مین آف دی میچ بھی وقار کی کوچنگ میں ہے۔ عمر گل کی کیریئر اوسط سینتالیس میچوں میں چونتیس ہے لیکن وقار کے ساتھ ستائیس اٹھائیس پر آ جاتی ہے۔سعید اجمل کا بہترین دور دیکھ لیں ۔ آپ یاسر شاہ کو دیکھ لیں۔اس کا بہترین دور کون سا تھا۔ وہ جو دنیا میں سو اور دو سو وکٹیں لینے والے تیز ترین بالروں میں شامل تھا اب اس کا کیا حال ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس کا سینا ممالک کی وجہ سے ریکارڈ خراب ہوا مگر کیا اب وہ ایشیا میں اتنا مؤثر ہے جتنا وہ پہلے تھا؟ اب تو ٹیم میں اس کی جگہ بننا ہی مشکل ہے۔غرض فاسٹ بالر چھورڑیں، کوئی بلے باز ، کوئی اسپن بالر ایسا بتا دیں کہ جس کو ہمارے سلیکٹرز نے وقار کے ساتھ مناسب وقت (آٹھ ، دس ٹیسٹ میچز ) دیا ہواور اس کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی ہ( ماسوائے اکمل و شہزاد کے کہ جن کے بارے میں وقار نے رپورٹ میں بھی لکھا تھا)۔
محمد عباس وہ کھلاڑی ہے جس نے وقار یونس کے بغیر عمدہ پرفارم کیا۔ تاہم بعد ازاں وہ ان فٹ ہو گیا اور دوبارہ اپنی اس فارم کو نہ پا سکا۔ اب ویسٹ انڈیز میں پرانا عباس نظر آ رہا تھا لیکن اسے زیادہ وکٹٰیں نہ مل سکیں۔اس کی بہتر فارم کا کریڈٹ کاؤنٹی لے گئی اور حسن علی کی کارکردگی کا ڈومیسٹک پرفارمنس مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں آؤٹ آف فارم پلیئرز کے ساتھ یہی نہیں ہوتا کہ انھیں ڈومیسٹک میں اپنی خامیاں ٹھیک کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر آپ آسٹریلین کرکٹ کے بارے میں آگاہ ہیں تو وہ اپنی ہوم سیریز میں ہر ٹیسٹ میں صرف بارہ کھلاڑیوں کی ٹیم منتخب کرتے ہیں تا کہ بقیہ کھلاڑی کھیلتے رہیں اور کسی کی ضرورت محسوس ہو تو وہ فارم میں ہو۔ قومی ٹیم سیکھنے کی نہیں بلکہ پرفارم کرنے کا مقام ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کا اعتراض تھا کہ بالرز مشکل صورت حال میں یارکر نہیں کراتے۔ان کے لئے عرض ہے کہ یارکر بہت مہارت مانگتا ہے۔ انیس بیس کی غلطی سے گیند فل ٹاس یا ہاف والی ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کے کھلاڑیوں کی مشق اور اعتماد نہیں ہے تو وہ مشکل وقت میں یہ نہیں کرا پائیں گے۔ اس کے علاوہ فٹنس کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ انرجی یارکر اور باؤنسر پر ہی صرف ہوتی ہے اور اگر کھلاڑی کا فٹنس لیول بہت زبردست نہ ہو تو ٹیسٹ میچ میں دن بھر ساتھ ستر اوورز فیلڈ میں کھڑے ہونے کے بعد یارکر کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یوں بھی وسیم وقار کے علاوہ کوئی بالر بتا دیں جس نے دس سے پندرہ فیصد وکٹیں یارکرز پر حاصل کی ہوں۔
پاکستان میں پانچ غیر ملکی کرکٹ کوچز آئے۔ پائی بس، وولمر، لاسن،واٹمور اور مکی آرتھر۔ کیا ان میں سے کسی کی موجودگی میں ہم نے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جیتنا تو درکنار ڈرا کرنا بھی سیکھا ماسوائے وولمر کے ایک میچ میں جس سیریز سے قبل وقار بالنگ کوچ تھے۔ ایشیائی کنڈیشنز میں تو ہمارے پاس فارمولا ہےایک بنے بنائے فارمولے کو استعمال کرنا کیا کارنامہ ہے؟ برطانیہ میں 1982ء سے اب تک آپ ہر دورے میں میچز جیتے ہیں ماسوائے 2006ء کے کیونکہ وہاں جیت والا میچ ڈیرل ہیئر سے ہم ہار گئے تھے۔
وقار یونس اب جا چکے ہیں اور ثقلین اور عبدالرزاق نئے کوچز ہیں۔ وقار یونس کے متعلق لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر ایک کی اپنی پسند ہو سکتی ہے، غیر ملکی کوچ بھی پسند ہو سکتا ہے اور اس کی حمایت بھی ملک سے غداری نہیں ہے مگر جس نے جو کام کیا ہے اسے اس سے "ڈس کریڈٹ” تو نہ کریں۔ میڈیا اور سابق کرکٹر جو بھی کریں ان کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں لیکن کرکٹ شائق کو تو حقائق دیکھنے چاہیں۔ اگر پھر بھی آپ لوگ مصر ہیں کہ وقار نے کچھ بھی نہیں کیا تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے جناب۔وقار سے تمام تر ہمدردی کے باوجود ہماری وابستگی پاکستان کرکٹ کے ساتھ ہے اور دلی خواہش ہے کہ ثقلین اور عبدالرزاق کی سرپرستی میں ٹیم اپنے سنہری دور کی طرف لوٹے۔