تحریر:ابنِ ریاض
14 مئی 1933ء کو ایک بچہ حقیقتاً منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھاکیونکہ وہ والیء ریاست کا بیٹا تھا۔ یعنی پیدائشی راجہ تھا۔ظاہر ہے کہ ناز و نعم میں پلا ہو گا یہ بچہ اور اس کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہوگا۔ جی ہاں یہ 13 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل چکما ریاست تھی جو مشرقی پاکستانی میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل تھی۔۔ اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی اور یہ بچہ "تری دیو رائے” بھی بدھ ہی تھا۔ 1947ء میں یہ ریاست پاکستان کو ملی تھی۔ غیر مسلم اکثریت والے اس علاقے کے عوام کی خواہش بھارت کے ساتھ الحاق تھا تاہم اس کو خصوصی خودمختاری دی گئی۔ بعد ازاں 1950ء کے عشرے میں حکومت پاکستان نےاس کی حیثیت تبدیل کر دی تا کہ غیر مقامی مہاجرین کی آبادکاری کی جا سکے۔
1953ء میں بیس برس کی عمر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد تری دیو رائے چکما کے پچاسویں راجہ بنے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جب مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو انھوں نے پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ دو بار قومی اسمبلی کے مشرقی پاکستان سے رکن بھی منتخب ہوئے ان کی فہم و فراست اور ہر دلعزیزی سے مجیب الرحمان بھی آگاہ تھے۔ انھوں نے تری دیو کو عوامی لیگ کے ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لینے کی پیشکش کی جس کو انھوں نے مسترد کر دیا۔ بعد ازاں مجیب الرحمان نے اپنی والدہ کو بھی بھیجا۔ حتٰی کہ ان سے کہا گیا کہ انھیں آزادی کے بعد صدر بنا دیا جائے گا بس وہ پاکستان کا ساتھ دینا چھوڑ دیں اس پر انھیں نے تاریخی جملہ کہا "میں اپنی سلطنت تو چھوڑ سکتا ہوں مگر پاکستان سے غداری نہیں کر سکتا”۔ 1970ء کے عام انتخابات میں انھوں نے آزادانہ حیثیت میں حصہ لیا اور اپنی سیٹ جیت لی۔پورےمشرقی پاکستان میں عوامی لیگ صرف دو سیٹیں ہاری تھی جن میں سے ایک یہ تھی دوسری نورالامین ( پاکستان کے واحد نائب صدر)نے جیتی۔ کسی بھی آزاد امیدوار کی یہ واحد سیٹ تھی۔ جب مشرقی پاکستان کے حالات ناقابل واپسی نقطے پر جا پہنچے اور جنگ ناگزیر نظر آنے لگی تو نومبر 1971ء میں
جنرل یحیی خان نے تری دیو رائے کو کہا کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کریں اور پاکستان کے لئے حمایت حاصل کریں تاکہ وہ ممالک اپنے اثر و رسوخ کو پاکستان کے حق میں استعمال کریں۔ وہ اس مشن پر ہی تھے کہ جنگ شروع ہو گئی۔ انھوں نے اپنی کوششیں تیز کر دیں مگر ابھی یہ دورہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پایا تھا کہ بنکاک میں انھیں اطلاع ملی کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا ہے۔
انھوں نے بلاشبہ پاکستان نے اپنی وفا نبھائی تھی اور جس حد تک ممکن تھا انھوں نے عوامی لیگ اور مجیب الرحمان کو انکار کیا اور ملک کی سالمیت کو ہر چیز پر مقدم رکھا تاہم وہ تقدیر سے لڑ نہیں سکتے تھے اور اب یہ حقیقت تھی کہ ان کا علاقہ و قبیلہ ایک دوسرے ملک کا جغرافیائی حصہ تھا۔ اب انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔ اگر وہ بنگلہ دیش جاتے تو یہ ان کا حق تھا۔ وہ ان کی جنم بھومی تھی اور وہاں ان کی عمر بھر کی کمائی جائیداد اور حکومت تھی۔ یہ کوئی ایسی جائیداد نہ تھی جو مستقبل میں انھیں ملنی تھی بلکہ یہ زمین و علاقہ ان کے زیر تصرف تھا ۔ وہ اس کے مالک تھے۔اور قریب دو عشروں سے ان کا حکم چلتا تھا وہاں۔اقتدار کیسی چیز ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ ہمارے سیاست دانوں کو دیکھ کر بخوبی لگا سکتے ہیں جو اقتدار تک پہنچنےکے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اپنانے کو تیار ہیں۔
ہمارے بااختیار طبقات اپنے ہی وطن کی خدمت کے بدلے تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ مربعوں میں زمینیں لیتے ہیں۔ لوگ دو مرلے زمین کے لئے قتل و غارت کر دیتے ہیں یہ توتیرہ ہزار مربع کلومیٹر کی ایک مکمل ریاست تھی۔ علاوہ ازیں عوامی لیگ کےساتھ شامل ہونے پر بے شمار مراعات ان کی منتظر تھیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں تھی۔ ان کی والدہ،بیوی،بچے بہن بھائی، خاندان،علاقے کے لوگ، اپنے آباء و اجداد کی قبریں اور اپنا بچپن یہ سب کچھ وہاں تھا جو حصہ اب نیا ملک بن چکا تھا۔ اگر وہ پاکستان کا انتخاب کرتے تو یہ سب انھیں قربان کرنا پڑتا۔ مزید براں بھلے وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے مگر وہ اپنی اجتماعی عبادات سے محروم ہو جاتے کہ مغربی پاکستان میں بدھ مت کے پیروکار نہ ہونے کے برابر تھے اور جو تھے وہ بھی چکما ریاست کی مانند ایک جگہ نہ تھے بلکہ بکھرے ہوئے تھے۔اس صورت میں سوائے بے یقینی کے کچھ بھی واضح نہ تھا۔
یاد رہے کہ اس وقت ان کی عمراڑتیس سال تھی۔ اس عمر میں انسان سوچتا ہے کہ اب کچھ سال میں اتنا کما لے کہ بڑھاپا سکون سے گزر جائے۔ تاہم انھوں نے اپنی زندگی ہواؤں کے رخ پر نہیں گزاری تھی۔ ان کے لئے اصول اہم تھا چاہے اس کے لئے انھیں زمانے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ پہلی مرتبہ پاکستان نے ان سے کچھ مانگا تھا اور وہ تو راجہ تھے۔ سلطنت کے علاوہ دل کے بھی راجہ تھے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ نیا ملک جب تک مشرقی پاکستان نہیں بنتا وہ کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ وہ بنکاک سے اسلام آباد آگئے۔ یہ راج پات پہلے گوتم بدھ نے چھوڑا تھا۔کئی صدیوں بعد ان کے ایک پیرو نے اسی روایت کو نبھایا اور اپنے کہے کی لاج رکھی۔ وہ جو ایک محاورہ ہے کہ مرد کی ایک زبان ہوتی ہے اس کی عملی تفسیر پیش کر دی۔ان کے قبیلے کی سربراہی ان کے بارہ سالہ بیٹے کو مل گئی۔
ان کا امتحان ابھی ختم نہ ہوا تھا۔ ستمبر 1972ء میں جب بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ کی رکنیت کا معاملہ آیا تو پاکستانی وفد تری دیو رائے کی قیادت میں نیویارک بھیجا گیا۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کی رکنیت پر اعتراض نہیں تھا لیکن پاکستان کا مطالبہ تھا کہ پہلے اس کے جنگی قیدیوں کا معاملہ حل کیا جائے۔ جب مجیب الرحمان کو معلوم ہوا کہ تری دیو پاکستانی وفد کے قائد ہیں تو اس نے تری دیو کو پاکستان سے توڑنے کے لئے ان کی والدہ چکما قبیلے کی ملکہ راج کماری بانیتا رانی کی قیادت میں وفد بھیجا۔ انھیں کہا گیا کہ ان کے بیٹے کو پاکستان نے زبردستی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ وہ ان کو واپس لیکر آئیں۔ اگرچہ یہ عمل صدر کے پروٹوکول کے خلاف ہے مگر تری دیو بنگلہ دیش واپس آ جائیں تو صدر مملکت خود ائیر پورٹ پر جائیں گے اور ان کا ہیرو جیسا استقبال ہو گا۔عجیب صورت حال تھی کہ صاحب اختیار” این آر او "دینے پر تُلا ہوا تھا اور متاثرہ فریق تھا کہ وہ اس پر رضامند ہو کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ والدہ نے نیویارک میں بیٹے کو فون کر کے کہا کہ بیٹا تمھیں لینے آئی ہوں۔ اب واپس چلو تو انھوں نے اپنے بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کا احوال پوچھا اور خاموش ہو گئے۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جنرل اسمبلی میں ماں بیٹا آمنے سامنے تھے اور اپنے اپنے ملکوں کے موقف پیش کر رہے تھے۔ بیٹے نے اس کمال سے پاکستان کا مقدمہ لڑا کہ پاکستان کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔یہ کئی سالوں بعد پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی اور اس کا سارا کریڈٹ تری دیو رائے کو جاتا تھا کہ جن کو لالچ کے بعد اب جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس مرتبہ بھی دھرتی کا یہ بیٹا خریدا نہ جا سکا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب وطن کوضرورت پڑی تو ماؤں نے اپنےبیٹے قربان کیے مگر وطن پرکسی بیٹے نے اپنی ماں قربانی کی ہو شاید تاریخ نے بھی یہ منظر پہلی مرتبہ ہی دیکھا تھا۔
مجیب الرحمان نے جس استقبال کا وعدہ کیا تھا وہی حکومت پاکستان نے بھی فیصلہ کیا کہ اگر تری دیو( کیونکہ سامنے والدہ تھیں تو عام خیال تھا کہ شاید ماں انھیں منا لے) پاکستان آئے تو ان کا ہیرو جیسا استقبال ہو گا چنانچہ جب وہ نیویارک سے پاکستان آئے تو ان کے استقبال کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پوری کابینہ کے ساتھ ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
پاکستان میں ان کا گھر تھا نہ ٹھکانہ اور نہ کوئی روزگار۔انھیں تا حیات وفاقی وزیر کاعہدہ دیا گیا۔ اقلیتوں کے امور کا قلم دان انھیں دیا گیا۔ یہ یقیناً اچھا قدم تھا مگر جتنی قربانی انھوں نے پاکستان کے لئے دی اس کا عشر عشیر تو کیا ہزارواں حصہ بھی نہیں تھا۔
جغرافیے نے کاٹ دیے راستے میرے
تاریخ کوگلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
انھیں پاکستان کا صدر بننے کی پیشکش بھی ہوئی مگر وہ جانتے تھے کہ 1973ء کے آئین کے تحت وہ صدر تبھی بن سکتے ہیں اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیں سو انھوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ ان کے پاس ان کا مذہب ہی اب اپنے آباء و اجداد کی آخری نشانی تھا اور وہ شاید اس سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ بعد ازاں ضیاء دور میں انھیں ارجنٹائن اور جنوبی امریکہ کے دیگر ممالک میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ پندرہ برس بعد 1996ء میں واپس آئے تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ وفاقی وزیر کی مراعات تو حاصل تھیں انھیں مگر اب وہ تنہا تھے اور حکومت میں بھی نئے لوگ تھے جو ان سے اس طرح واقف نہ تھے سو انھیں اجلاسوں میں بلایا جاتا اور نہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا۔
ایسے ہی دنوں میں شاید اپنی کتاب میں انھوں نے لکھا۔” میں اپنے پیاروں کو، اپنی جنم بھومی کو کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا۔ زندگی اب تنہا گزرے گی۔ اپنے خاندان کے لوگوں سے،اپنے پہاڑوں سے اور جنگلوں سے میرا اب کوئی سمبندھ نہیں۔ میرے پِ
تا جی کی تربیت اور میرا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں جو 1947ء سے 1971ء تک پاکستانی شہری تھا اب اس سے غداری کروں۔”
شوکت عزیز کے دور میں تری دیونے انھیں خط لکھا جس میں کہا کہ ان کی میت کو بنگلہ دیش میں دفن کیا جائے۔ وفا تو ملک کے ساتھ انھوں نے عمر بھر کی تاہم تقدیر کو گوارا نہ ہوا کہ ان کا ظاہر بھی اس ملک میں مدفون ہو جسے ان کا باطن اپنا وطن قرار نہیں دیتا۔ 17 ستمبر 2012ء کو جب انھوں نے آخری سانس لی تو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور چکما علاقے میں شورش کے باعث اس وصیت پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور یوں وہ شخص جو چالیس برس تک اپنے جنگلوں اور پہاڑوں کویاد کرتا رہا آج مارگلہ پہاڑ اور اس کے جنگلوں کے دامن میں ہی خاک اوڑھےسو رہا ہے۔
ہم تری دیو رائے کے مقروض ہیں۔ ہم ہر اس شخص کے مقروض ہیں جس نے 1971ء میں پاکستانی کی بقا کی اپنی مقدور بھر جنگ لڑی۔ ہم ان کے بھی مقروض ہیں جنھیں بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت پچھلے کئی سالوں سے غداری کے مقدموں میں سزائے موت دے رہی ہے اور ان لاکھوں بہاری پاکستانیوں کے بھی جنھیں نہ بنگلہ دیش کی حکومت اپنا شہری قراردیتی ہے اور نہ حکومت پاکستان ان پر رحم کرتی ہے۔ جو کئی نسلوں سے کیمپوں میں پیدا ہو کر وہیں پوری زندگی گزار کر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: ستمبر 16th, 2021
زمرہ: شخصیات, صفحہ اول تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: 1971, Bangladesh, chatagong, East Pakistan, Tridev, Yahya Khan