تحریر : ابنِ ریاض
انیس سو چھتیس میں بھوپال متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی انتہائی ذہین تھے۔ پاکستان بنا تو اپنی جنم بھومی سے ناتا توڑ کے نئی مملکت کی تعمیر و ترقی کے جذبے و امید کے ساتھ نئی مملکت کو مسکن بنایا اور پڑھائی شروع کر دی۔ اس زمانے میں جب پاکستان کی کل خواندگی پچیس چھبیس فیصد سے زیادہ نہ تھی، انھوں نے انجینئرنگ یعنی جدید سائنس میں ڈگری حاصل کی اور پھر ان کی علمی پیاس انھیں بیرون ملک لے گئی۔ جہاں جرمنی اور ہالینڈ کی جامعات سے انھوں نے اعلٰی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر ڈاکٹر بن کر دم لیا۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔
وہ ہالینڈ میں ایک شاندار اور عمدہ زندگی گزار رہے تھے۔ انھوں نے وہاں شادی بھی کر لی تھی اور اس لحاظ سے وہ وہاں کی شہریت کے بھی اہل تھے بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ وہاں کی شہریت رکھتے ہوں۔ تاہم زندگی نے رخ تب بدلا جب 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے۔ اس سے خطے میں طاقت کا توازن ایک دم بگڑ گیا اور پاکستان کے پاس برابری کی سطح پر آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ انھوں نے اپنی خدمات اپنے نئے مسکن کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور انھیں بتایا کہ اگر انھیں سہولت فراہم کی جائے تو اس معاملے میں بھی بھارت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ ظاہر ہے اس اعلان کی انھیں بعد ازاں قیمت بھی چکانی پڑی۔ تاہم پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کام شروع ہو گیا۔ ہالینڈ نے ان پر اپنی ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام لگایا ۔ا س کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔یہ بات ایک عام فہم شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان میں ان کی سہولیات ا ور مراعات ہالینڈ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ سہولتوں کا گلہ کیا اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ۔ مطالبہ کیا تو ان وسائل کا جن کی بدولت ملک جلد سے جلد ایٹمی طاقت بن سکتا تھا۔ حکومتوں کے لئے یہ زندگی و موت کا مسئلہ تھا۔ چنانچہ ان کے مطالبات جیسے تیسے کر کے پورے کیے جاتے رہے اور چند ہی سالوں میں پاکستان نے ایٹم بنا بنا لیا۔ 1998ء میں بھارت نے دوبارہ ایٹمی دھماکے کیے تو حکومتِ پاکستان نے ان کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ چاغی میں ہونے والے دھماکے بھی ڈاکٹڑ صاحب کی زیر نگرانی ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کے ادارے نے پاکستان کے دفاع کے لئے کتنے ہی میزائل (جن میں ایک ہار کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے غوری میزائل بھی شامل ہیں)،ریموٹ کنٹرولڈ مائن ایکسپلوڈرز، ٹینک شکن گن، ملٹی بیرل راکٹ لانچر اور لیزر رینج فائنڈر بنائے۔
آج ہم جو یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں ہے اور ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ ڈاکٹر کی ڈگری رکھتے ہیں لیکن کیا ڈاکٹر صاحب اور معدودے چند افراد کے علاوہ کسی کی ڈگری پاکستان کے کام آئی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے۔ ہر شخص نے ہی جانا ہے لیکن جانے سے پہلے وہ پاکستان کو بہت کچھ دے گئے۔ انھوں نے پاکستان کو اپنا مستقبل اور اپنی زندگی کا بہترین وقت دیا۔ وہ چاہتے تو یورپ میں متمول زندگی گزار سکتے تھے۔ کسی اچھے تحقیقاتی ادارے کے ساتھ ہوتے توعین ممکن ہے کہ نوبل انعام یا کوئی اس جیسا انعام ان کے سینے پر سج چکا ہوتا اور وہ شاہی پروٹوکول کے مزے لیتے اور وی آئی پی زندگی گزارتے۔ اس کے برعکس انھوں نے شاہی پر فقر کو ترجیح دی اور اپنی توانائیاں تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک کے لئے صرف کر دیں۔ کتنے ہی لوگ سہانے مستقبل کے لئے یورپ و امریکہ کے خواب دیکھتے ہیں اور اگر وہاں جانے کا موقع ملے تو پلٹ کر اپنے ملک واپس نہیں آتے۔ اگر آ جائیں تو چند دن گزار کر پھر واپسی کا سفر اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر نے عیاشی و مال و دولت اور لائف اسٹائل کو لات ماری اور قائد کے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے واپس چلے آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یقیناً اس پر قابل ستائش ہیں مگر پاکستان ان کا اپنا ملک تو تھا۔ ان کی بیگم کی قربانی کو دیکھیں کہ جو پلی بڑھی ہی یورپ میں لیکن اپنے شوہر کی محبت میں سب تیاگ آئی۔ ان کا شوہر سولہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور وہ ایک اجنبی مقام پر ان کا سارا دن انتظار کرتی رہتیں اوراگر کبھی وہ پریشان یا متفکر ہوتے تو شام کو شاید اپنے مجازی خدا کی ڈھارس بندھواتی کہ آپ یہ کام کر لیں گے۔ یہ خاتون اگر نہ ساتھ ہوتیں تو شاید ڈاکٹر صاحب کامیاب نہ ہوتے۔ یہ ملک ان کی خاموش قربانی کا بھی مقروض ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سال قبل تک پاکستان کا ایٹمی پلانٹ اسلامی بم کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اور یہ اس شخص کے مرہون منت ہے جو آج زمین اوڑھ کر سویا ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ فواد چودھری نے ایک پروگرام میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ایٹمی کردار کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو ٹیم ورک ہوتا ہے، ایک بندہ تھوڑی کرتا ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ پاکستان بھی قائد اعظم نے اکیلے نہیں بنایا تھا، وہ بھی ایک اجتماعی کوشش تھی لیکن چونکہ زیادہ کردار قائد اعظم کا تھا تو انھی کو ہی بانی سمجھا جاتا ہے۔ اگر مزید بات سمجھ نہ آئے تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ 1992ء کا عالمی کپ عمران خان نے اکیلے نہیں جیتا تھا بلکہ وہ بھی ایک اجتماعی کوشش تھی۔ سیمی فائنل میں انضمام نہ کھیلتا یا فائنل میں وسیم اکرم کا وہ اسپیل نہ ہوتا تو پاکستان کیسے جیتتا لیکن عمران خان چونکہ کپتان تھے تو سارا سہرا انھی کے سر بندھ گیا اور اسی بنیاد پر وہ وزیر اعظم بھی بن گئے۔ سو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سہرا بہرحال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہی بندھتا ہے۔
اس کے برعکس اگر پوچھا جائے کہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان سے کیا ملا تو شاید دکھ، اذیتوں اور تکالیف کے سوا ان کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ ان پر ایٹمی ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام تھا مگر پاکستان کی ایک محب وطن حکومت نے تو انھیں "بین الاقوامی چور/وارداتیا” ثابت ہی کر دیا۔ آپ کمال دیکھیں کہ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ اتنا محفوظ تھا کہ بھارت اور اسرائیل باوجود کوشش کے بال بیکا نہ کر سکے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ دفاعی ادارہ نہایت مہارت اور خلوص نیت سے اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ ایسا صاف تھا کہ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی دی لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔اس بات کا اندازہ کرنا یوں مشکل نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے علاوہ کسی کو سزا ہوئی اور نہ الزام ہی لگا۔ اس پر کم از کم ڈاکٹر صاحب کو آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کرنا تو بنتا تھا۔چونکہ غلطی تو انھوں کی تھی تو سزا کے مستحق تو وہ تھے۔ یہ تو ہمارے حکمران نیک دل تھے کہ ان کو "صرف” معافی مانگنے پر ہی چھوڑ دیا گیا۔بعد ازاں انھیں گھر میں ہی نظر بند کر دیا اور کتنا ہی عرصہ انھیں اپنی بیٹیوں سے ملاقات بھی نہیں کرنے دی جاتی تھی۔ ستر اسی سال کے بوڑھے کے ساتھ ایسا سلوک اور وہ بھی وہ شخص جس نے اپنا سب کچھ کچھ پاکستان کو دیا ہو، بھلا کبھی سنا آپ نے ؟ زندگی کے آخری سترہ اٹھارہ برس انھوں نے نظر بندی میں گزار دیئے۔ہمسایہ ملک کا ایٹمی سائنسدان صدر بن گیا اور ہمارا ایٹمی سائنسدان چور قرار پایا، اگر سہیل وڑائچ کے پروگرام میں وہ پاکستانی حکمرانوں کو احسان فراموش کہہ رہے ہیں تو وہ غلط نہیں کہہ رہے بلکہ اگر سچ کہا جائے تو صرف حکمران ہی نہیں عوام نے بھی ثابت کیا کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔
بظاہر دیکھا جائے تو عوام ڈاکٹر عبدالقدیر سے بے انتہا محبت کرتی تھی اور ہے اور آج ان کی نماز جنازہ اس کا ثبوت بھی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ حکومت اور حکموتی اداروں نے کیا مگر کیا یہ سچ نہیں کہ جیسے کوفے والوں کے دل حسین کے ساتھ تھے اور تلواریں یزید کے ساتھ ت۔ ایسے ہی ہمارے دل تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھے مگر ہم نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ یاد رکھیے کہ ڈاکٹر صاحب سیاسی جماعتوں سے بہت بالاتر تھے۔۔ وہکسی جماعت کے نہیں تھے وہ پاکستان کے بیٹے تھے۔ تاہم ان اٹھارہ سالوں میں ہم نے وکلاء تحریک کو کامیاب ہوتے دیکھا، ہم نے افتخار چودھری کو بحال ہوتے دیکھا۔ ہم نے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیکھا۔ اپنے مفاد کے لئے پی ڈی ایم دیکھی۔ غرض سب کچھ دیکھا لیکن ایسی کوئی تحریک ایسا کوئی جلسہ، ایسی کوئی قومی یا صوبائی اسمبلی میں قراردار جس میں مطالبہ کیا گیا ہو کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ہیرو ہیں، انھیں متنازعہ نہ بنایا جائے اور حکومت کے انھیں مجرم قرار دینے کے فیصلے کی ہم مذمت کرتے ہیں ،ہماری نظر سے تو نہیں گزری۔ اس جرم میں میں، آپ بلکہ ہم سب بطور معاشرہ شریک ہیں۔ وہ شخص حسین رضی اللہ تعالٰی کی مانند سب کچھ چھوڑ کر ہم میں آیا تھا کہ ہمیں بار آور کر دے۔ بدقسمتی سے ہم نے اس سے وہی سلوک کیا جیسا حسین رضی اللہ تعالٰی کے ساتھ کوفہ والوں نے کیا۔ چنانچہ وہ روٹھ کر چلا گیا
اب ڈھونڈ انھیں چراغِ رخِ زیبا لے کر
ہم لوگ ہر سال بڑی عقیدت سے محرم مناتے ہیں اور حسین علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کوفہ والوں کی سنت پر عمل بھی کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں قحط الرجال کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے لئے دعائیں سب کریں گے۔ وہ ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے لئے دعائیں خود نکلتی ہیں کیونکہ ہم مانیں یا نہ مانیں انھوں نے اپنے لئے صدقہ جاریہ کا انتظام کر لیا ہے تاہم آج ان کی روح بہت خوش ہو گی۔ آج وہ بہت پرسکون ہوں گے کہ ان پر سے سکیورٹی رسک کا دھبہ ہٹ گیا ہے۔ آج کوئی بھی ان سے ملنے جا سکتا ہے کیونکہ قبر سے کسی کو سکیورٹی رسک نہیں ہوتا۔