تحریر:ابنِ ریاض
کرکٹ کے کھیل کو مقبول بنانے اور اسے عوام الناس تک پہنچانے میں لاتعداد کھلاڑیوں کا حصہ ہے جنھوں نے اپنے کھیل سے شائقین کو محظوظ کیا اور کھیل کی ترویج میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج ہم ان کھلاڑیوں کا تذکرہ کریں گے جنھیں تقدیر نے بہت زیادہ لمبی عمر عطا نہیں کی مگر اس کم عمری میں بھی وہ کھیل کے میدانوں میں اپنے نقوش چھوڑ گئے۔ ان میں سے کچھ کے توکیرئیر کا آغاز ہوا اور کچھ نے اپنا کیرئیر مکمل کر لیا تا ہم وقت نے انھیں اپنا تجربہ کسی کو منتقل کرنے کی مہلت نہ دی۔ کچھ ایسے ہی کرکٹرز سے آپ کو متعارف کرواتے ہیں۔
جارج لوہمین(1865 تا 1901): اگر انھیں بولنگ کا بریڈمین کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ بریڈمین کی اوسط چند رنز کی کمی کی وجہ سے تین ہندسوں میں نہ پہنچ سکی ۔ اسی طرح لوہمین کیاوسط چند وکٹوں کی کمی سے ایک ہندسے میں نہ داخل ہو سکی۔ اٹھارہ ٹیسٹ میچوں میں ایک سو بارہ وکٹیں اور فی وکٹ اوسط محض پونے گیارہ۔سو سے زائدوکٹیں لینے والوں میں دوسری بہترین اوسط ساڑھے سولہ رنز فی وکٹ ہے پندرہ سے زائد وکٹیں لینے والے کسی باؤلر کی اوسط ان سے کم نہیں اور نہ ہی کسی باؤلر کا سٹرائک ریٹ ان کے 34 گیند فی وکٹ سے بہتر ہے ۔ انگلینڈ کے یہ گیند باز ساڑھے چھتیس برس کی عمر میں 1901ء میں انتقال کر گئے تھے۔
جمی سنکلیئر (1876 تا 1913): جنوبی افریقہ کے پہلے ورلڈکلاس آل راؤنڈرتھے۔پچاس سے زائد وکٹیں لیں اور جنوبی افریقہ کی پہلی تین سینچریاں انھوں نے ہی سکور کی ہیں۔ایک ہی ٹیسٹ میچ میں اننگز میں پانچ وکٹیں لینے اور سینچری بنانے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔
ٹپ فاسٹر(1878 تا1914): انگلینڈ کے بلے باز آر ای فاسٹر ٹپ فاسٹر کے نام سے مشہور تھے۔کرکٹ کے ساتھ وہ فٹ بال کے بھی بین الاقوامی کھلاڑی تھے۔ انھوں نے بھی آرچی جیکسن کی مانند محض آٹھ ہی ٹیسٹ میچ کھیلے تاہم کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام امر کر گئے۔ انھوں نے 1903ء میں اپنے کیرئیر کی پہلی اننگز میں 287 رنز بنائے۔ یہ 1930ء تک کسی بھی کھلاڑی کا بہترین انفرادی سکور رہا۔ اس کے علاوہ ایک سو بارہ برس تک کسی بھی غیرملکی کھلاڑی کا آسٹریلیا میں بہترین انفرادی سکور رہا ـ2016ء میں راس ٹیلر نے 290 کی اننگز کھیل کر اس ریکارڈ کو توڑا) اور تا حال کسی بھی کھلاڑی کا پہلے ٹیسٹ میں بہترین سکور ہے۔ شوگر کی بیماری کا شکار ہو کریہ کھلاڑی 1914ء میں چھتیس برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملا-
وکٹر ٹرمپر(1877 تا 1915): بریڈمین سے پہلے آسٹریلیا کے سب سے بڑے بیٹسمین وکٹر ٹرمپر تھے۔ انھوں مشکل وکٹوں کا بلے باز اور مرد بحران کہا جاتا تھا۔ وہ ان پچوں پر سکور کرتے تھے جہاں دوسرے بلے باز لڑکھڑا جاتے تھے۔کرکٹ کی تاریخ میں ساتویں اور آٹھویں سینچری سب سے پہلے وکٹر ٹرمپر نے ہی بنائی۔ ان کی 1911 ء میں جنوبی افریقہ کے کلاف 214 رنز کی اننگز نوے برس تک ہارنے والی ٹیم کی طرف سے بہترین انفرادی سکور رہا۔وکٹر ٹرمپرنے ساڑھے سینتیس برس کی عمر میں برائٹ ڈیزیز کے ہاتھوں وفات پائی۔
آرچی جیکسن(1909 تا 1933): آسٹریلوی بلے باز جو سر ڈان بریڈ میں کے ہم عصر تھے اور گمان کیا جاتا تھا کہ یہ بریڈمین کے ہم پلہ بھی ہیں بیٹنگ میں۔ کچھ ماہرین کی نظر میں وہ بریڈمین سے بہتر تھے کہ وہ اوپننگ اور مڈل آرڈر دونوں جگہ ایک جیسی بیٹنگ کر سکتے تھے۔اپنی پہلی اننگز میں ایک سو چونسٹھ (164)رنز بنا کر انھوں نے اس کا ثبوت بھی دیا مگر وہ سات مزید ٹیسٹ ہی کھیل پائے۔ وہ پہلے ٹیسٹ میں سینچری بنانے والے تاحال سب سے کم عمر آسٹریلین ہیں اور ان کا سکور پہلی اننگز میں سب سے زیادہ رنز کرنے والوں میں آسٹریلیا میں دوسرے نمبر ہے تاہم انھوں نے صرف ساڑھے تئیس برس کی عمر پائی اور جس دن آسٹریلیا باڈی لائن ایشز ہارا اسی روز ٹی بی سے ان کا انتقال ہوا۔
ہیڈلی ویریٹی(1905 تا 1943): ہیڈلی انگلینڈ کے سلو لیفٹ آرم باؤلر اور نچلے نمبروں کے بلے باز تھے جنھوں نے تین نصف سینچریاں بھی سکور کیں۔جبکہ چالیس ٹیسٹ میچوں میں ایک سو چوالیس(144) وکٹیں چوبیس (24) کی اوسط سے لیں۔بیسویں صدی میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کو لارڈز گراؤنڈ پر محض ایک مرتبہ 1934ء میں شکست دی ہے اور اس شکست میں ہیڈلی کا سب سے بنیادی کردار تھا۔ انھوں نے اس میچ میں ایک سو چار رنز دے کر پندرہ وکٹیں لی تھیں جن میں بریڈمین کو دونوں اننگز میں آؤٹ کرنا بھی شامل ہے۔بریڈ مین کو سب سے زیادہ مرتبہ آؤٹ کرنے کا اعزاز بھی انھی کے پاس ہے۔یہ دوسری جنگ عظیم کے برطانوی فوجیوں میں بھی شامل تھے اور 1943 ء میں اٹلی کے جنگی قیدیوں کے ایک کیمپ میں انتقال کر گئے تھے۔
امرسنگھ (1910 تا 1940): متحدہ بھارت کی پہلی ٹیم میں بطور میڈیم پیس بالر شامل تھے۔ انھوں نے محض سات ٹیسٹ کھیلے اور اٹھائیس وکٹیں حاصل کیں۔ بھارت بلکہ ایشیا کی پہلی نصف سینچری بنانے کا اعزاز انھیں حاصل ہے۔ بہترین بالنگ چھپاسی رنز دے کر سات وکٹیں اٹھارہ برس تک کسی بھارتی کی ایک اننگز میں بہترین بالنگ رہی جبکہ کسی بھارتی فاسٹ بالر کی چھیالیس برس تک بہترین کارکردگی رہی۔ امر سنگھ محض انتیس سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔بھارت ک انتقال کرنے والے سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر امر سنگھ ہی ہیں۔
کولی اسمتھ(1933 تا1959): کولی اسمتھ ویسٹ انڈیز کے بلے باز اور آف اسپن باؤلر تھے ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھیں پہلے ہی ٹیسٹ میں سینچری کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے چھبیس ٹیسٹ میچوں میں چار سینچریاں اور چھ نصف سینچریاں بنانے کے علاوہ اڑتالیس وکٹیں بھی حاصل کی۔ستمبر 1959ء میں وہ سر گیری سوبرز کے ساتھ لندن میں ایک کار میں سفر کر رہے تھے کہ وہ کار حادثے کاشکار ہو گئی۔ گیری سوبرز کو ہلکی چوٹیں آئیں۔ کولی اسمتھ بھی اس وقت بظاہر تو ٹھیک تھے مگر انھیں کچھ اندرونی چوٹیں آئیں اور بعد ازاں تین دن کومہ میں رہنے کے بعد وہ برطانیہ میں ہی انتقال کر گئے۔
سر فرینک وورل(1924 تا 1967):پاکستان کے دو ڈبلیوز سے کہیں پہلے ویسٹ انڈیز کے تین ڈبلیوز تھے جنھوں نے کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ ان میں سے ایک وورل تھے۔ ان کی اوسط پچاس کے قریب ہے اور باقی دونوں ڈبلیو( ویکس اور والکوٹ) سے کم ہے مگر یہ ویسٹ انڈیز کے پہلے کالے کپتان تھے اور انھوں نے ویسٹ انڈیز کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1960-61 میں انھی کی قیادت میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا میں سیریز برابر کی تھی جس میں کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹائی میچ بھی شامل تھا۔ یہ سیریز کرکٹ کی بہترین سیریزوں میں شمار کی جاتی ہے۔ انھیں کرکٹ میں خدمات پر سر کا خطاب بھی دیا گیا اور آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ میچز کی سیریز ‘سر فرینک وورل ٹرافی’ کہلاتی ہے۔ سر فرینک وورل محض بیالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
کین ویڈزورتھ(1946 تا1976): کین ویڈزورتھ نیوزی لینڈکے وکٹ کیپر تھے۔ 1969ء سے 1976ء انھون نے تینتیس(33) ٹیسٹ اور تیرہ(13)ایک روزہ میچوں میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی۔ 1974ء میں نیوزی لینڈ کی آسٹریلیا کے خلاف پہلی کامیابی میں وننگ رنز انھوں نے بنائے۔ اس کے علاوہ وہ پہلے وکٹ کیپر ہیں جنھوں نے ایک روزہ میچز میں سینچری بنائی۔ انتیس برس کی عمر میں وہ جلد کے کینسر میں مبتلا ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
مسافرالحق(1944 تا 1983): مسافر الحق بائیں ہاتھ سے میڈیم پیس باؤلنگ کرتے تھے۔ انھوں نے 1964-65 میں پاکستان کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا جس میں انھوں نے سینتیس(37) اوورز میں چوراسی(84) رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ یہ بری کارکردگی نہیں کہی جا سکتی مگر اس کے بعد وہ کوئی میچ نہیں کھیلے۔ وہ امیر الہی کے بعد انتقال کرنے والے دوسرے پاکستانی کرکٹر تھے۔
میلکم مارشل(1958 تا 1999): اسی کی دہائی میں کرکٹ سے واقفیت رکھنے والوں کے لئے میلکم مارشل گھریلو نام تھا۔میلکم مارشل کو کرکٹ کا عظیم ترین اور مکمل باؤلر تسلیم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بہترین گیند بازوں وسیم، اکرم، اسٹین وغیرہ کے پسندیدہ ترین کھلاڑی میلکم مارشل ہی تھے۔اسی کی دہائی ویسٹ انڈیز کرکٹ کا سنہری دور تھا اور ان کے گیند بازوں کے سامنے بلے باز تنکوں کی مانند بکھر جاتے تھے اور ان گیند بازوں میں میلکم مارشل ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ہر قسم کی وکٹوں پر انھوں نے ہر قسم کے بلے بازوں کو زیر کیا۔ پونے چار سو وکٹیں ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ ساڑھے اکتالیس برس کی عمر میں کینسر کے مرض کے باعث انتقال کر گئے۔
رمن لامبا(1960تا 1998): رمن لامبا بھارتی بلے تھے۔ان کا کرکٹ کیرئیر بھی اس فہرست کے اکثر کھلاڑیوں کی طرح طویل نہیں تھا۔ ان کے ریکارڈ میں بس چار ٹیسٹ اور بتیس ون ڈے ہیں۔ ون ڈے میں البتہ ایک سینچری انھوں نے اسکور کی تھی۔ 1989ء میں پاکستان کے دورے پر آنے والی بھارتی ٹیم میں وہ شامل تھے اور یہیں اپنا آخری ون ڈے میچ انھوں نے کھیلا تھا۔ 1998ء میں بنگلہ دیش میں کھیلتے ہوئے وہ بغیر ہیلمٹ پہنے فاروڈشاٹ لیگ پر فیلڈکر رہے تھے کہ بلے باز نے پل شارٹ کھیلی جو ان کی پیشانی پر لگی۔ اس وقت تووہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے قدموں سے ڈریسنگ روم تک گئے مگر پھر ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ کومہ میں چلے گئے جہاں تین دن حیات و موت سے کشمکش کے بعد وہ اڑتیس برس کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
ٹریور مڈونڈو (1976 تا 2001): زمبابوے کے مڈل آرڈر بلے باز نے تین ٹیسٹ اور تیرہ ون ڈے انٹر نیشنل کھیلے۔ اپنے آخری ٹیسٹ میں ناقابل شکست چوہتر(74) رنز کی اننگزکھیل کر زمبابوے کو شکست سے بچایا مگر پھر اگلے ٹیسٹ میچ سے قبل ہی ملیریا کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کے چند روز بعد زمبابوے نے بھارت سے ٹیسٹ میچ کھیلا جو زمبابوے کی ٹیم نے جیت کر اپنے مرحوم ہم کار کو خراج تحسین پیش کیا۔
بین ہولیوک(1977 تا 2002):بین ہولیوک ایڈم ہولیوک کے چھوٹے بھائی تھے۔ انھوں نے برطانیہ ی جانب سے دو ٹیسٹ اور بیس ایک روزہ کھیلے تھے۔ون ڈے میں انھوں نے دو تیز رفتار نصف سینچریاں بنائی تھیں مگر ماہرین کے بقول ابھی ان کا بہترین وقت آنا تھا تاہم اس سے قبل ہی پرتھ آسٹریلیا میں ایک کار حادثے میں وہ انتقال کر گئے۔ وہ برطانیہ کے انتقال کرنے والے سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔
ہنسی کرونئے(1969 تا 2002): کرونئیے جنوبی افریقہ کے بہترین کپتان تھے۔جنوبی افریقہ نے 1992 کے عالمی کپ میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی مگر عالمی کپ کے بعد جنوبی افریقہ کی کارکردگی کا معیار عالمی کپ جیسا نہیں تھا کرونئیے نے 1994ء میں کرونئیے نے کیپلر ویسلزکی میچ کے دوران زخمی ہونے پر قائم مقام کپتان کے فرائض انجام دئیے اور ایک سو سترہ(117) رنز کا کامیاب دفاع کر کے آسٹریلیا کے خلاف ہارا ہوا ایک میچ جیت ڈالا۔ 1994ء میں انھیں باقاعدہ کپتان بنایا گیا اور پھر وہ دور شروع ہوا جس میں جنوبی افریقہ ہر ٹورنامنٹ میں فیورٹ کی حیثیت سے شامل ہوتی۔ جنوبی افریقہ نے کئی ٹورنامنٹ جیتے جن میں منڈیلا ٹرافی، شارجہ کپ، پاکستانی کا آزادی کپ اور منی ورلڈکپ شامل ہیں۔ ان کی قیادت میں جنابی افریقی نے پہلی اور تاحال آخری مرتبہ بھارت کو بھارت میں شکست دی مگر پھر میچ فکسنگ سکینڈل آیا اور کرونئیے کے اعتراف کے بعد انکے کرکٹ میں کسی بھی حیثیت سے کام کرنے پا تا حیات پابندی لگا دی گئی۔ کرونئے کرکٹ کے بعد نئی زندگی شروع کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایک کمپنی میں ملازمت بھی حاصل کر لی تھی مگر پھر ایک علاقائی سفرکے دوران ایک طیارہ جس میں وہ سوار تھے حادثے کا شکار ہو کر تباہ ہو گیا اور اس میں کرونئیے سمیت شامل تمام افراد جاں بحق ہو گئے۔
منجور الاسلام رانا(1984 تا 2007) :بنگلہ دیش کے بائیں ہاتھ کے بلے باز اور بائیں ہاتھ سے آہستہ رفتار گیند باز تھے۔ چھ ٹیسٹ میچوں میں پانچ وکٹیں اور ایک نصف سینچری جبکہ پچیس ایک روزہ میچوں میں ایک نصف سینچری اور تئیس(23) وکٹیں ان کے ریکارڈ میں شامل ہیں۔ 2007ء کے عالمی کپ کے لئے وہ ٹیم میں شامل نہیں تھے اور جب ان کی ٹیم عالمی کپ کھیل رہی تھی تو وہ شاہراہ کے حادثے میں انتقال کر گئے۔ اگلے روز بنگالی ٹیم کا بھارت سے میچ تھا اور بنگلہ دیش نے بھارت کو اپ سیٹ شکست دی اور اپنی یہ فتح مرحوم کھلاڑی کے نام کر دی۔منجور الاسلام رانا بین الاقوامی کرکٹ میں انتقال کرنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں۔
روناکو مورٹن(1978تا 2012): ویسٹ انڈیز کے بلے جنھوں نے پندرہ(15) ٹیسٹ اور چھپن(56) ایک روزہ کھیلے۔ ٹیسٹ میں چارنصف سینچریاں جبکہ ون ڈے میں دس نصف سینچریوں کے ساتھ دو سینکڑے بھی سکور کیے۔ ان کے پاس ایک منفی ریکارڈ بھی ہے کہ 2006ء کی چیمپئن ٹرافی میں ایک میچ میں انھون نے اکتیس(31) گیندیں کھیلیں مگر کھاتا نہ کھول سکے۔ یہ ایک روزہ میچوں میں سب سے زیادہ گیندیں کھیل کر صفر کرنے کا ریکارڈہے۔ روناکو مورٹن 2012ء میں ایک کار حادثے میں انتقال کر گئے۔
فلپ ہیوژ(1988 تا 2014): آسٹریلوی اوپنر جن کا آغاز بہت ہی زبردست تھا۔ اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سینچریاں سکور کی۔ چھبیس (26) ٹیسٹوں میں تین سینچریاں اور سات نصف سینچریاں سکور کی ۔ ان میں پانچ سکور اسی سے اوپر کے تھے۔ پچیس ایک روزہ میچوں میں بھی دو سینچریاں سکور کی۔ 2014 میں ایک علاقائی میچ میں انھیں ‘سین ایبٹ’ کا ایک باؤنسر لگا جس سے وہ کومہ میں چلے گئے اورپگر قریب چھبیس سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: فروری 6th, 2022
زمرہ: کرکٹ, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Archie Jackson, cricket, Cricketers, George Lohmann, Malcolm Marshall, Philip Hughes, Tip Foster, Victor Trempor