تحریر: ابنِ ریاض
ابوالکلام آزاد کا نام غلام محی الدین تھا۔ وہ مکہ مکرمہ میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ ان کے والد عالمِ دین تھے۔ یوں انھیں مذہنی تعلیم وراثت میں ملی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی انھوں نے رسائل نکالنا شروع کر دیئے تھے اور آزاد ان کا تخلص تھا۔
وہ قائد اعظم سے قریب بارہ برس چھوٹے تھے۔ تاہم دونوں کی سیاست کا آغاز قریباً ایک ساتھ ہی ہوا۔ علاوہ ازیں بھی دونوں رہنماؤں میں کئی قدریں مشترک تھیں۔ قائداعظم انتہائی پڑھے لکھے شخص تھے۔ بہترین اداروں سے تعلیم حاصل کی اور بیرونی دنیا کے حالات سے بھی آگہی رکھتے تھے۔ قائداعظم نے بھی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا اور ابتداء میں وہ ہندو مسلم اتحاد کے ترجمان مانے جاتے تھے۔ مزید براں قائد اعظم سیاست میں مذہب کی آمیزش کے خلاف تھے۔ بعد ازاں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس میں 1937ء میں کانگریس کی صوبائی حکومتوں کا بڑا دخل تھا ۔ اس کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی کوششیں شروع کیں جس میں وہ بالآخر کامیاب ہوئے۔ قائد اگرتعلیم میں یکتا تھے تو مولانا آزاد بھی ان سے پیچھے نہ تھے۔ قائد انگریزی زبان میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں ماہر تھے تو مولانا آزاد اردو میں اپنی بات بیان کر کے سامعین پر سحر طاری کر دیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ ان کی انگریزی کمزور تھی بلکہ ان کی کتاب "انڈیا ونز فریڈم” انگریزی میں ہے لیکن یہاں کے لوگوں سے مخاطب وہ اپنی زبان میں ہوا کرتے تھے۔ان کےعلمی مرتبے کا یہ عالم تھا کہ 1920ء کی دہائی میں ہی وہ "امام الہند” کہلائے جانے لگے۔ انھوں نے بھی گانگریس سے ہی اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ مولانا آزاد بھی ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ پینتیس سال کی عمر تک وہ کانگریس کے صدر بھی بن چکے تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے ایک ہندو اکثریتی جماعت کا قائد بننا کس قدر مشکل کام ہو گا۔ اس سے ان کےسیاسی قد کاٹھ کا اندازہ بھی لگایا جا سکتاہے۔ تاہم قائد کے برعکس آزاد ہندو مسلم اتحاد کے اپنے فلسفے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور آخر دم تک اسی پر کاربند رہے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دے گی اور نتیجتاً وہ مزید کمزور ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ مسلمان ایک ہزار سال سے زائد اس پورے خطے میں موجود ہیں سو ان کا کسی ایک خطے میں خود کو محدود کر دینا کسی صورت بھی سودمند نہیں۔1940ء سے 1946ء کے دوران وہ ایک مرتبہ پھر کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔
مارچ 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند بن کر آئے تو ان کے ذہن میں تقسیم کا منصوبہ تھا۔ مسلم لیگ تو پہلے ہی تقسیم پر راضی تھی۔ انھوں نے جلد ہی مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل کو بھی تقسیم کے لئے قائل کر لیا۔ اگر کوئی ان سے قائل نہ ہوا تو وہ مولانا آزاد تھے۔ انھوں نے مقدور بھر تقسیم کی مخالفت کی۔ ہمارے پاکستان میں اور ہماری تاریخ میں ابوالکلام آزاد کو ولن کے طور پر پیش گیا ہے کیونکہ وہ تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ ہماری تاریخ میں ان کا نام استہزاء کے طور پر کانگرسی حامی مسلمان کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی مخالفت تو اپنے بیگانوں سب نے ہی کی تھی۔ بہت سے علمائے کرام اور سیاسی رہنما قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ بعضوں نے فتوٰے بھی دیئے تھے اور کچھ دشنام پر بھی اتر آئے تھے لیکن جب پاکستان بنا تو پاکستان میں شامل ہو کر ذاتی مفادات کا تحفظ بھی کیا۔
ان لوگوں کے برعکس مولانا آزاد نے کہیں کوئی طنزیہ جملہ یا گری ہوئی بات نہیں کی۔ جب وہ دوسری مرتبہ کانگریس کے صدر بنے تو قائد اعظم نے انھیں "شو بوائے آف کانگریس "ضرور کہا مگر اس کے جواب میں مولانا آزاد نے کچھ کہا ہو تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔علاوہ ازیں مولانا آزاد پاکستان بننے کے بعد اپنے مفادات کے لئے پاکستان نہیں آئے۔ انھوں نے اگر تقسیم کی مخالفت کی تو اس کو نبھایا بھی۔ اس کے علاوہ ہم بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں پاکستان کی آبادی سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ تقسیم کے وقت بھی یہی صورت حال تھی۔ ان میں سے اکثریت ایسے مقامات پر تھی کہ ان کے لئے پاکستان آنا ممکن نہ تھا۔ پھر ایک خطہ مکمل طور پر اسلام سے خالی بھی نہیں کیا جا سکتا تھا سو مولانا آزاد جیسا شخص وہاں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت میں بس جانے والے مسلمان انتہائی مشکل حالت میں تھے۔ انھیں ہندوؤں اور سکھوں کے حملوں کا ڈر تھا اور ساتھ ہی یہ پریشانی بھی کہ اب ان کا مستقبل کیا ہے؟ اس موقع پر مولانا آگے بڑھے، مایوسی کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کی اور ہندوستان کے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا۔انھیں سمجھایا کہ یہ ملک ہمارا(مسلمانوں کا ) بھی ہے۔ اس ملک کی تقدیر کے بنیادی فیصلے مسلمانوں کے بغیر ادھورے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ ہندوستان پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسری قوموں کا ہے۔ مولانا کی تقریر نے ہجرت نا کر پا سکنے والے مسلمانوں کے اندازِ فکر کو بہت متاثر کیا۔ انھیں اعتماد اور بھروسہ دیا اور وہ خود کو بھارت کے چاہنے والون کی فہرست میں محسوس کرنے لگے اور وہیں رہنے میں بہتری سمجھنے لگے۔
قائد اور مولانا میں چونکہ اختلاف نظریاتی تھا نا کہ ذاتی تو مولانا 19 جولائی 1951ء کو تہران سے ہوتے ہوئے ایک روز کراچی میں ٹھہرے تو قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اسی وقعے پررئیس امروہوی نے ایک قطعہ بھی لکھا
جو حادثہ بھی نہ ہو جائے آج کل کم ہے
ہمارا عہد ہے اک عہد انقلاب ایجاد
بھلا یہ کس کو توقع تھی قبل ازیں اے دوست
مزار قائداعظم، ابوالکلام آزاد؟
اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے اپنی کتاب "انڈیا ونز فریڈم” میں تقسیم کے مختلف پہلوؤں پر بات کی اور اس بات کو تسلیم کیا کہ دس سال بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسٹر جناح نے جو کیا اس میں وزن تھا۔ انڈیا کی تقسیم کانگریس کی سیاسی غلطیوں کا نتیجہ تھی۔ کانگریس کی پس و پیش نے ہی جناح کو تقسیم کا موقع دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کی تقسیم کی مخالفت کے باوجود پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے اور دونوں ملکوں کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات قائم کریں۔ لوگ کتابیں لکھتے ہیں تو اس میں حقائق کو اپنے حوالے سے مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں لیکن مولان کی یہ عظمت اور وسعتِ قلبی کا ثبوت ہے کہ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے سیاسی حریف محمد علی جناح کا بیانیہ درست تھا تو انھوں نے اسے کسی پس و پیش کے بغیر تسلیم کیا۔
ہندوستان کی تقسیم ایک انسانی بحران تھا۔ دونوں اطراف لاکھوں لوگ لٹے مارے گئے اور عزتیں لوٹی گئیں تاہم اس تقسیم کی دونوں اطراف ایک ایک خوشگوار یاد بھی ہے۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت ایک ہندو دلت جوگندر ناتھ منڈل نے کی تو ہندوستان نے تعلیم کی وزارت مولانا آزاد کے حوالے کر دی۔ مولانا قریب ساڑھے دس برس تک اس عہدے پر براجمان رہے ۔ 22فروری 1958ء کو مولانا ابو الکلام آزاد نے داعی اجل کو لبیک کہا اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔بھارت کا یوم تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کا یوم پیدائش یعنی گیارہ نومبر ہے۔ کیا ہی خوبصورت خراجِ تحسین ہے۔ کاش ہم پاکستانی بھی اپنے وطن کے لئے کام کرنے والوں کو ایسے ہی یاد رکھتے ۔