تحریر: ابنِ ریاض
موجودہ دور میں بھارت کےتیز گیند باز دنیا کے ہر ملک میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں جبکہ پاکستان تو ہمیشہ سے ہی تیز رفتار گیند بازوں کی سرزمین رہی ہے۔ فضل محمود کو برصغیر میں تیز رفتار گیند بازی کا بانی سمجھا جاتا ہے مگر فضل سے کہیں پہلے محمد نثار اپنی تیز رفتار گیند بازی سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔محمد نثار یکم اگست 1910ء کو ہوشیار پور پنجاب متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھیں تیز رفتار گیند بازی کا شوق تھا۔ اپنے اس شوق اور محنت کے باعث وہ جلد ہی ممتاز گیند بازوں میں شامل ہو گئے۔ متحدہ بھارت کو پہلا ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا تو اس ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم میں وہ شامل تھے۔
1932ء میں لارڈز میں بھارت کو پہلا ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا۔ محمد نثار نے بھارت کی جانب سے بالنگ کا آغاز کیا۔ برطانیہ کی جانب سے پرسی ہومز اور سٹکلف نے اننگز کا اغاز کیا۔ یہ دونوں کھلاڑی نو دن پہلے کاونٹی میچ میں پہلی وکٹ کے لئے عالمی ریکارڈ پانچ سو پچپن رنز کی شراکت بنا چکے تھے۔ یعنی دونون بلے باز بھرپور فارم میں تھے اور سامنے نو آموز بالنگ لائن تھی سو نتیجہ واضح تھا۔ تاہم کچھ ہی دیر میں دونوں افتتاحی بلے باز محمد نثار کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو کر پویلین سدھار چکے تھے۔ یوں محمد نثار ایشیا میں وکٹ لینے والے پہلے گیند باز بھی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں سکور انیس رنز پر تین وکٹیں ہو چکا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ کی ٹیم سنبھل گئی اور بھارت کی ناتجربہ کاری اس کے آڑے آئی اور یوں میچ کا نتیجہ برطانیہ کے حق میں ہوا۔ تاہم محمد نثار پہلی اننگز میں پانچ وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے اور ان کی امر سنگھ کے ساتھ ایسی جوڑی بنی جس نے بڑے بڑے بلے بازوں کو اپنی مہارت و تیز رفتاری سے تگنی کا ناچ نچایا۔ اس دورے کے دوران محمڈ نثار نے اکہتر وکٹیں محض اٹھارہ کی اوسط سے حاصل کیں۔
پہلے ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی کا صلہ یہ ملا کہ اگلے برس برطانیہ کی ٹیم ہندوستان کے جوابی دورے پر آئی۔ پہلے ٹیست میں ایک مرتبہ پھر محمد نثار نے پانچ وکٹیں لیں۔یہاں دونوں ٹیسٹ میچوں میں برطانیہ ناقابل شکست رہی۔ پورے دورے میں برطانوی ٹیم ایک ٹور میچ ہاری جس میں محمد نثار ایک سو سترہ رنز کے عوض نو وکٹیں لے کر مردِ بحران ٹھہرے۔ 1935ء کے سرما میں جیک رائڈر کی قیادت میں آسٹریلوی ٹیم بھارت کے دورے پر آئی تو محمد نثار ان پر قہر بن کر ٹوٹے اور چار غیر سرکاری ٹیسٹ میچوں میں بتیس وکٹیں تیرہ رنز فی وکٹ کی اوسط سے حاصل کیں ۔ 1936ء میں بھارتی ٹیم دوسری مرتبہ برطانیہ کے دورے پر گئی۔ تیسرے ٹیسٹ میں محمد نثار نے ایک مرتبہ پھر پانچ وکٹیں لیں مگر دورے کے دوران ہی محمد نثار کو ان کے آجر آل انڈیا ریلوے نے واپس بلوا لیا اور یوں ان کا دورہ اور کرکٹ کیریئر قبل از وقت اختتام پذیر ہو گیا۔یاد رہے کہ اس وقت کرکٹ کل وقتی کھیل نہیں تھا بلکہ تمام ہی کھلاڑیوں کا یہ شوق تھا اور روزی روٹی کے لئے کوئی دوسری ملازمت کیا کرتے تھے۔ محمد نثار سے کہا گیا کہ اگر وہ مقررہ مدت میں واپس نہ آئے تو ان کی نوکری کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے شوقیہ کرکٹ نوکری سے فراغت کے اوقات میں کھیلی۔
چھ ٹیسٹ میں اٹھائیس کی اوسط سے پچیس وکٹیں ان کی کارکردگی ہے جس میں تین مرتبہ اننگز میں پانچ وکٹیں بھی شامل ہیں۔ یہ اوسط درجے کا ریکارڈ ہے لیکن ہر ملک کے ابتدائی کھلاڑیوں کے ریکارڈایسے ہی ملیں گے کیونکہ وہ پرانی ٹیموں کے لئے تختہ مشق ہوتے ہیں اور ان کو بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ ملنے تک پلوں کے ان کا کیریئر اختتام کے قریب ہوتا ہے۔ تاہم بعض کھلاڑیوں کے ریکارڈ سے زیادہ ان کا تاثر ہوتا ہے۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے تیز ترین گیند بازوں میں سے ایک تھے۔ پچیس وکٹوں میں سے تیرہ کلین بولڈ یا ایل بی ڈبلیو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بلے بازوں کو اپنی رفتار سے بیٹ کرتے تھے۔ یقیناً اس زمانے میں بھی برصغیر کی وکٹیں کوئی پرتھ یا جوہانسبرگ جیسی تو نہیں ہوں گی۔ یہ ان کی ذاتی صلاحیت تھی کہ وہ ان وکٹوں اور برطانیہ میں تیز ترین رفتار سے گیند بازی کرتے تھے۔ ان کے رفتار کے متعلق ان کے کپتان سی کے نائیڈو کا کہنا تھا کہ محمد نثار کی رفتار ہیرالڈ لارووڈ ( باڈی لائن ایشز کے برطانوی ہیرو)سے بھی زیادہ کہیں تیز تھی۔ لاروڈ اس وقت تیز ترین بالر تسلیم کے جاتے تھے اور نائیڈو ان کا سامنا دورے کے کاؤنٹی میچوں میں کر چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وکٹ کیپر دلاور حسین اپنے محمد نثار کی بالنگ کے دوران اپنے ہاتھوں کو زخمی ہونے سے بچانے کے لئے دستانون میں گوشت رکھتے تھے۔ وکٹ کیپر دلاور حسین ہنستے ہوئے بتاتے تھے کہ جب محمد نثار دوڑتے ہوئے گیند کروانے آتے تھے کئی بلے بازوں کی تو ریح ہی خارج ہو جاتی تھی۔اعداد و شمار کے علاوہ ان کی عظمت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ پچھلی دہائی میں جب بھارت کی آل ٹائم الیون بنی تو کئی کرکٹ ماہرین کا خیال تھا کہ اس میں محمد نثار کو شامل ہونا چاہیے۔ چھ ٹیسٹ کھیلنے والے کرکٹر کے لئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں۔حوالہ اس کا جنوبی افریقی کل وقتی الیون میں بیری رچرڈز کی چار ٹیسٹ میچوں میں شرکت کے باوجود شمولیت تھی۔ تاہم بیری رچرڈز اور محمد نثار کے معاملے میں ایک واضح فرق تھا کہ بیری رچرڈز کاؤنٹی ا ور آسٹریلیا کی علاقائی کرکٹ کھیلتے رہے اور دنیا بھر کے گیند بازون اور ماہرین کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا۔ محمد نثار ان سے ساڑھے تین یا چار عشرے قبل صرف انگلینڈ کے خلاف اور انگلینڈ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکے۔ آسٹریلیا جنوبی افریقہ ویسٹ انڈیز کے خلاف نہ وہ کھیلے اور نہ وہاں کا دورہ کیا اور پھر محدود ذرائع ابلاغ بھی ان کی راہ میں رکارٹ بنے۔
تقسیم ہند کے وقت انھیں مختلف راجاؤں نے اپنے ریاستوں کی شہریت کی پیشکش کی ۔ ان کا دل لاہور میں دھڑکتا تھا۔ حالانکہ وہ ان کا آبائی علاقہ نہ تھا۔ انھوں نے پیشکشوں کے جواب میں کہا کہ جس طرف لاہور ہو گا وہ اسی ملک میں رہیں گے۔ یوں قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ساری زندگی پاکستان میں بسر کی۔ اپنے آبائی علاقے ہوشیار پور جانا انھیں نصیب نہ ہوا۔ پاکستان کی پہلی ٹیم انھوں نے ہی منتخب کی۔ پاکستان ریلوے مین وہ ٹریول آفیسر تھے۔ گاڑی مین وہ اپنی کٹ ساتھ رکھتے تھے اور جہاں رات رکنا ہوتا وہیں وہ کرکٹ کھیلنے میدان میں چلے جاتے۔ 11 مارچ 1963ء دوران سفر انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
محمد نثار کے نام سے بھارت اور پاکستان دونوں میں کوئی یادگار نہیں ہے۔ کسی سٹیڈیم کا انکلوژر تک ان کے نام سے نہیں۔ بھارت انھیں پاکستانی سمجھتا ہے کیونکہ آزادی کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور پاکستان کی نظروں میں انھوں بھارتی ٹیم کی نمائندگی کی تو وہ بھارتی کھلاڑی سمجھے جاتے رہے ۔اس صدی کے پہلے عشرے میں پاکستان اور بھارتی کرکٹ بورڈز نے اپنے علاقائی فاتحین کے درمیان مقابلے شروع کروانے کا فیصلہ کیا اور اس مقابلے کو "نثار ٹرافی” کا نام دیا۔ اس سلسلے کی آخری ٹرافی دوہزار آٹھ میں سیالکوٹ سٹیلینز نے جیتی اور پھر یہ سلسلے بھی دونوں ممالک کی سیاست کی نظر ہو گیا۔ بوڑدز محمد نثار کو خراجِ تحسین بھلے پیش نہ کریں مگر برصغیر اور ایشیا کے تیز گیند بازوں کے پیشرو ہیں اور ایشیا کی پہلی گیند کرانے، پہلی وکٹ لینے اور پہلی مرتبہ اننگز میں پانچ وکٹیں لینے کے اعزازات ان سے نہیں چھین سکتے۔
ٹیگز: fast bowler, Fazal Mehmood, india, Lahore, London, Lord's, Muhammad Nisar, Pakistan, Shoaib