مردم شماری  کی ضرورت کیوں پیش آئی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  •  مردم شماری  کی ضرورت کیوں پیش آئی

    تحریر: ابنِ ریاض

    پاکستان میں مردم شماری شروع ہو گئی اور ہم بیرون ملک بیٹھے ہیں۔معلوم نہیں کہ ہمیں وہ شمارکریں گے بھی کہ نہیں۔ جیسے ہماری قوم کا حافظہ ہے اس لحاظ سے تو قوی امید ہے کہ ہمیں بھول جائیں گے سو جو بھی تعداد وہ بتائیں اس میں دو ہم خود جمع کر دیں گے تاکہ شمار درست رہے۔  سچ کہیں تو ہماری عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مردم شماری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟پینتیس سال سے ملک اچھا خاصا چل تو رہاہے بلکہ دوڑ رہا ہے۔ آبادی بھی 1981 میں ساڑھے آٹھ کروڑ تھی۔  آبادی ان چند شعبوں میں ہے کہ جن میں ہم نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ بیرون ملک برآمد بھی کرتے ہیں۔ خود ہم بھی برآمد ہو چکے ہیں اور سالانہ پیداوار میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

    گذشتہ ساڑھے تین عشرے ہماری قوم نے اس کو نہیں گنا۔ کیونکہ گننے سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ نے بھی برکت دی اور انتہائی نامساعد اورمشکل حالات کے باوجود آبادی ڈھائی گنا ہو گئی۔  پچھلے پندرہ سال سے ملک میں دہشت گردی عام ہے اور ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی تو حکومت و دیگر ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں جبکہ سبھی کو معلوم ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حادثے ،سیلاب اور  زلزلے اس کے علاوہ ہیں۔   ان حالات میں بیس اکیس کروڑ تک جا پہنیچنا ایک معجزہ ہی ہے اور یقیناً یہ  نہ گننےکی برکت ہے۔

    اس مرتبہ حکومت نے آبادی شمار کر کے اس برکت کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا آبادی کو قابو کرنے کے لئے کیا جا رہا ہو کہ پہلے ہی آبادی کا جن قابو میں نہیں آرہا ، اس پر  مستزاد برکت بھی ہو گئی۔آبادی میں اضافے کا مطلب زیادہ خوراک، زیادہ پانی، زیادہ  روز گار، زیادہ ذرائع نقل و حمل ، زیادہ گھر، زیادہ بجلی اور گیس کی ضرورت ہر برس۔ اب حکومت کے لئے تو موجودہ آبادی کے لئے یہ سب سہولیات فراہم کرنا مشکل ہو رہا تو اگر ہر سال لاکھوں افراد مزید آ جائیں تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ  ہو ہی جانا ہے۔ حکومت کا موقف تو یہ ہے کہ آبادی  کے ٹھیک شمار سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی کہ آسانی سے غیر ملکی پہچانے جائیں گے۔علاوہ ازیں مستقبل کے منصوبوں کی  کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔تاہم یہ وہ بیانات ہیں کہ جو عوام کے لئے جاری کیے جاتے ہیں۔ جیسا  دو ممالک کے سربراہ آپس میں ملتے ہیں تو  اخباری نمائندوں سے ملاقات کے دوران دونوں ہی ہنستے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو طرفہ امور فروغ دینے پر بات چیت ہوئی۔ حالانکہ یہ واحد موضوع ہوتا ہے جو زیرِ بحث ہی نہیں آتا۔

     11 ستمبر 2001ء کوامریکا پر جو حملہ ہواتھا اس نے  جنگوں کی حکمتِ عملی ہی بدل دی ہے۔ اب لڑائی کا جدید طریقہ یہ ہے کہ اپنے مخالفین کوایسے مسائل میں پھنسا دیا جائے کہ انھیں دشمن کی بجائے اپنی پڑ جائے۔ان کا دھیان کسی اور جانب جا ہی نا سکے۔ اور یہت کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ اب موجودہ حکومت نے بھی اسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ سے حکومت پانامہ کے معاملے پر بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے۔ تمام پارٹیاں اس کے خلاف ہیں اور آف شورکمپنیوں پر حکومت انھیں مطمئن کرنے میں تا حال کامیاب نہیں ہوئی اور اس کے امکانات بھی نہیں کہ مستقبل قریب میں وہ ایسا کر پائے گی۔اس صورت حال میں حکومت نے مردم شماری کا فیصلہ کیا اور اس کی وجوہات وہی بتائیں جو درج بالاہیں۔ اب حکومت اور فوج کے نمائندے گھر گھر جائیں گے۔ قریب از قیاس ہے کہ ان کے ساتھ کوئی خاتون بھی ہو گی تا کہ  بوقت ضرورت گھر کا معائنہ بھی ہو سکے۔

    معاملہ تب شروع ہو گا جب مردم شماری کے  نتائج ظاہر ہوں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ابھی سے کچھ سیاست  دان یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہم مردم شماری کے نتائج نہیں تسلیم کریں گے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے کہ انھیں ادراک ہو گیا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کیا کرنے والی ہے۔ اس مردم شماری کا مقصد یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کے اہم قائدین اور میڈیا کے اہم لوگوں کے آف شور بیویاں اور بچے  ڈھونڈے جائیں۔ عوام کی بھی نکل آئیں تو کوئی حرج نہیں الٹا سونے پر سہاگہ ہو جائے گا کیونکہ پھر وہ لوگ جو اب حکومت کو سخت مشکل وقت دے رہے ہیں وہ خود وقت کے پہیے میں آ جائیں گے۔ حکومت کی خوش قسمتی کہ اس کے خلاف تو اسمبلی میں بحث ہوتی یا حزبِ اختلاف والے دوسرے شہروں اور مقامات پر میڈیا پر اپنی بھڑاس نکال لیتے  ہیں مگر سوچیں کہ اگر  حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئی تو ان لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ جب گھر کے اندر ان کے اپنے عمران خان اور شیریں مزاری ہر پانچ منٹ بعد ان سے پوچھیں گے کہ یہ آٖف شور کمپنی(خفیہ شادی) کب بنائی تھی اور کیوں بنائی تھی اور یہ سوال ہر پانچ منٹ بعد ہو گا اور جواب نہ  ملنے  کی صورت میں ہڑتال بھی بہت سخت ہونی تو ان کا کیا حال ہو گا۔ حکومت پر تنقید تو کیا کرنی اپنی جان بخشی کے لالے پڑ جائیں گے۔ یوں حکومت اپنی باقی مدت بہ آسانی پورا کر لے گی۔

    بالفرض محال اگر حکومت اس میں ناکام ہو گئی تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ نادرا  والے عوام کی عمر غلط لکھ سکتے ہیں ۔ ان کے نام غلط لکھ دیتے ہیں۔یہ سب تو قابلِ برداشت مگر انسان کا دماغ گھوم جاتا  ہےجب وہ جنس تبدیل کر کے  لمبی داڑھی والے مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنا دیتےہیں  اور جب تک معاملہ حل ہوتا ہے انسان نیم پاگل ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسے ہی  اداروں کی معاونت سے کاغذات میں گڑ بڑ کی جا سکتی ہے۔ایک بار غلط اندراج ہو جائے تو پھر اگلا لاکھ کوشش کرے، اس کی جان نہیں چھوٹتی۔ اگر بالفرضِ محال انسان اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ادارے اپنی غلطی تسلیم کر کے نیک چلنی کا تصدیق نامہ دے بھی دیں عوام اور ارد گرد کے لوگوں نے اس پر تھوڑی یقین کرنا۔

    14 اپریل 2017ء

     

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔