تحریر: ابن ریاض
پچھلےایک برس سے دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ دنیا تا حال قبل از کرونا کے دور میں لوٹی نہیں تاہم زندگی رواں دواں رہنے کی کوشش میں ہے۔ کرونا نے دنیا کو عجیب ہی وحشت میں ڈال دیا ہے۔ ہم نے دو عظیم جنگیں نہیں دیکھیں مگر ہمیں یقین ہے کہ ان میں بھی ایسا خوف نہ ہوگا۔دشمن چھپ کر وار بھی کرتا ہوگا مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ دشمن سانس میں شامل ہو جائے اور کسی کو علم نہ ہو۔ نزلہ زکام بخار پہلے بھی عام تھا لیکن گزشتہ سال سے یہ علامات کرونا کی علامات کے مماثل ہونے کے باعث مزید خوف کا باعث بنتی ہیں۔
کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ ہمیں بخار ہو گیا۔ گلا خراب ہوااور کھانسی بھی ہو گئی۔ شاید موسم کا اثر تھا اور سردی لگ گئی تھی۔اصولاً تو ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے تھا لیکن ہر سچے پاکستانی کی مانند ہمارے اصول بھی مفادات کے تابع ہیں۔ہمیں بھی اندیشہ ہوا کہ کہیں کرونا ہی تشخیص نہ ہو جائے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ بعض لوگوں میں علامات طاہر نہیں ہوتی مگر انھیں کرونا ہوتاہے۔ ہم نے بس گھر میں موجود دردکش دوااور جراثیم کش ادویہ ہی لیں۔جس حد تک ممکن تھا آرام بھی کیا۔ چند دن میں ہم ٹھیک ہو گئے۔ تاہم اودیہ ختم ہوگئیں۔ ایک روز جامعہ میں تھے کہ بیگم نے کہا کہ اودیہ تو ختم ہو چکی ہیں۔ ابھی سردی باقی ہے تو جامعہ سے مزید دوائیں لے آئیں تا کہ کسی ایمرجنسی میں مسئلہ نہ ہو۔ ہم نے کہا یہ کونسا مسئلہ ہے لیتے آئیں گے۔کام ختم کر کے ہم جامعہ کے ہسپتال گئے۔استقبالیہ پر ہی ہمارا درجہ حرارت جانچاگیا اورایک سوال نامہ تھما دیا گیا۔ اس میں مختلف سوالات تھے جن کے ہم پہلے جواب ہمیشہ نا میں دیتے تھے۔ جیسے کیا آپ کو کرونا ہو چکا ہے؟ کیا پچھلے دو ہفتے کے دوران آپ کسی مصدقہ کرونا مریض سے رابطے میں رہے ہیں ؟ کیا آپ کو کھانسی ہے ؟ کیا آپ کو بخار ہے ؟اب چونکہ ہمیں کھانسی اور بخار کی دوا لینی تھی تو ہم نے سوچا کہ ان دو کا اقرار کرنے سے امید ہے کہ ڈاکٹر بہتر دوا دے گا ہم نے آخری دو سوالوں کا جواب اثبات میں دے کر وہاں موجود عملے کو پکڑایا۔ پہلے تو انھوں نے طائرانہ نگاہ ڈالی لیکن جوں ہی ان کی نظرآخری دو سوالوں کے جواب پر پڑھی وہ یکدم مستعد ہو گئے۔ قریب موجود فلپائنی نرس نے ممکن حد تک دور کھڑے ہو کر ہمارے کان میں تھرمامیٹر ڈالا اور وہاں کا درجہ حرارت جانچا۔
اس کے بعد ہمیں وہیں کھڑا رکھا گیا اور وہ نرس قریب موجود راہداری میں غائب ہو گئی۔ کچھ دیر بعد چابی کے ساتھ نمودار ہوئی اور ہمیں ساتھ اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ پھر ایک کمرے کا قفل کھولا اور ہمیں اندر چلنے کا کہا۔ ہم نے تعمیل ارشاد کی۔ اسے ہماری مجبوری نہ سمجھا جائے۔ہسپتال کے علاوہ بھی ایسی صورت حال آتی تب بھی کرتے۔ اندر ایک بیڈ تھا جس پر ہم بیٹھ گئے۔ ہم نے پوچھا دراز ہو جائیں۔ کہنے لگی زیادہ بے تکلفی کی ضرورت نہیں۔ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔کچھ دیر بعد وہ زرہ بند( پی پی ای یعنی حفاظتی لباس) میں ملبوس ہو کر آئی۔ ہم نے سوچا اب زرہ بند کیا کرے گا۔ اگر ہمیں کرونا ہوا تو اس عفیفہ کا تو بچنا مشکل ہے پر اسے کہا نہیں۔ اس نے ہمارا دوبارہ درجہ حرارت ماپا اس کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح کرونا ڈھونڈلے مگر وہ ہوتا توملتا۔ تنگ آ کر اس نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ ہم نے قیدِ تنہائی کے قیدی کی مانند کمرے اک جائزہ لیا۔سب سے پہلے تو چارجر کے لئے بجلی کا کنکشن دیکھا مگر پھر خیال آیا کہ چارجو تو پاس ہے ہی نہیں۔ ہم بیٹھے رہے تصورِ جاناں کیے ہوئے تا وقتیکہ ایک شخص اسی خلائی لباس میں داخل ہوا۔ غور کیا تو وہ ڈسپنسری کا داکٹر تھا۔ اس نے دور کھڑے ہو کر ہم سے پوچھا کیا شکایت ہے ؟ ہم نے کہا آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ بس دوائی چاہیی تھی کہ پچھلے دنوں ہم ان وباؤں کا شکار رہے۔ اس نے پوچھا سانس رک رک کر آتا ہے؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا۔ پھر کہا کہ ذائقہ محسوس کر سکتے ہیں۔ جواب اثبات میں تھا۔ اس نے ایک دو باتیں پوچھیں جن کا ہم نے جواب دیا۔وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ داکٹر دوبارہ آیا اور ہمیں ایک ورق پکڑا دیا۔ کہا کہ چونکہ آپ میں کرونا کی کچھ علامات پائی گئی ہیں تو آپ کو شہر کے ایک کلینک میں ریفر کر دیا ہے۔ وہ آپ کا معائنہ کریں گے اور آپ کو مطلوبہ ادویہ بھی فراہم کریں گے۔ظالم نے دوائی نہیں دی الٹا کرونا مشتبہ کر کے بھیج دیا۔ نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے۔
کرونا سے ڈر لگتا ہمیں نہ ہی قرنطینہ سے۔ بس یہ فکر دامن گیر تھی کہ اس صورت میں بیگم کیا کرے گی؟ ہم گھر آئے۔ بیگم کو ساتھ لیا اور روانہ ہوئےمرکزِ صحت۔ بیگم کو ساتھ لے جانے کا مقصد یہی تھا کہ اگر کسی ہسپتال منتقل کیا جائے تو اسے معلوم ہو۔ ہسپتال گئے۔ وہاں جامعہ کا دیا ہوا ورق ان کے حوالے کیا۔ انھوں نے انتظار کا کہا۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹرکے کمرے میں بھیج دیا۔ اس نے گلے کا معائنہ کیا۔ دوائیں لکھ دیں اور احتیاطاً ٹیسٹ بھی لکھ دیا۔ہم ابھی ٹیسٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک سپاہی ایک ملزم کو ساتھ لایا۔ اس کے ہاتھوں اورپیروں میں ہتھکڑیاں تھی۔ اس کا ترجیحی بنیادوں پر معائنہ اور ٹیسٹ ہوئے۔ قیدیوں کے حقوق کا بھی احترام ہے یہاں ۔ کچھ انتظار کے بعد ہمارا بھی کرونا کا ٹیسٹ ہوا۔ چھ انچ لمبا اورپتلا سا ایک ڈنڈا ہمارے نتھنے میں گھسیڑ دیا۔کچھ لمحے بعد ہمیں سانس رکتا محسوس ہوا تو اسے نکال کر دوسرے نتھنے میں ڈال دیا۔ بس یہ ٹیسٹ تھا۔ہمیں کہا کہ گھر جاؤ۔ نتیجہ ایس ایم ایس پر ایک دو دن میں مل جائے گا۔ ہم ہنستے کھیلتے گھر آ گئے۔ ہم خواہ مخواہ ڈر رہے تھے کہ کسی ویرانے میں پندرہ روز گزارنے ہوں گے۔ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ دو کیا چار پانچ دن گزر گئے مگر نتیجہ نہ آیا۔ بیگم کہے کہ جا کر پوچھ آتے ہیں۔ ہم نے سوچایہ تو آ بیل مجھے مار والی بات ہو گی۔ ہم نے کہا کہ اس نے کہا تھا کہ اگر کرونا ہوا تو ایس ایم ایس آئے گا۔ نہیں آیا تو بہت اچھی بات ہے۔ موج کرتے ہیں۔بعد ازاں ایک روز ایک ایپ پر پرانے کرونا ٹیسٹوں نے نتائج موجود تھے۔ دیکھا تو واقعی ہمارا ٹیسٹ منفی تھا ۔شکر خورے کو اللہ شکردیتا ہے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: ستمبر 27th, 2022
زمرہ: صفحہ اول, طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: corona, humor, saudi arabia, Tanz o mazah