تحریر: ابنِ ریاض
پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم نے آج اپنی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ(کرک انفو کے مطابق تیسری مرتبہ)بھارت کو ہرا کر تاریخ رقم کر دی ہ۔ یہ وہی ٹیم ہے جسے ایک روز قبل تھائی لینڈ نے اپ سیٹ شکست دی تھی۔چوبیس گھنٹے میں اسی ٹیم نے خواتین کرکٹ کی بڑی طاقتوں میں سے ایک کو شکست دے دی۔ نوے کی دہائی کے آخر میں ہم نے خواتین کرکٹ کا سنا اور اس وقت پاکستانی ماحول میں خواتین کا کسی کھیل میں محض نمائندگی کرنا ہی ایک اعزاز تھا۔برسوں کی محنت کے بعد ہماری کھلاڑی اس مقام پر ہیں کہ وہ اب دنیا کی بڑی ٹیموں کو نا صرف ٹکر دے سکتی ہیں بلکہ شکست سے بھی دو چار کر سکتی ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک بڑی کامیابی اور روشن مستقبل کی جانب ایک بڑا قدم ہے جس پر پوری کرکٹ اور ان کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔
مردوں کی کرکٹ ٹیم کی بات کریں تو پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ میں جاری سہ ملکی سیریز کا پہلا میچ بنگلہ دیش سے جیت گئی ہے تاہم انگلینڈ سے شکست کے بعد تمام تجزیہ کار ہماری کرکٹ کی موجودہ اپروج پر سوال اٹھا رہے ہیں اور یہ اس بات پر حیران ہیں کہ ہمارے کھلاڑی دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کی مانند جارحانہ کیوں نہیں کھیلتے۔ اوپنر آغاز سست کرتے ہیں اور پھر مڈل آڈر کا تو کیا ہی کہنا۔ نام کے ہٹر ہیں۔ اتنے رنز تو دوسری ٹیموں کے ٹیل اینڈرز کر لیتے ہیں جتنے ہمارے بیٹسمین کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوالوں کوچنگ سٹاف پر بھی اٹھتے ہیں کہ اپنے دور کے دو بہترین کھلاڑی اور اپنے زمانے کے حساب سے جارحانہ کرکٹ کھیلنے والے محمد یوسف و ثقلین اپنی یہ روایت ان کھلاڑیوں میں کیوں منتقل نہیں کر پا رہے ؟ پاکستان کرکٹ میں مسئلہ کھلاڑیوں سے زیادہ انتظامیہ میں ہے۔جب مصباح و وقار کو باہر کیا گیا(بظاہر انھوں نے خود استعفا دیا تھا) اس وقت بھی ہمارا یہی خیال تھا کہ پاکستان ٹیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنی بھلے فلاور کو کوچ بنائیں یا ہیڈن یا ویوین رچرڈز کو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں سارا الزام قربانی کے بکروں(کرکٹ کے معاملے میں کھلاڑی وکوچز) پر لگتا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ محمد یوسف جب جیو پر تنصرہ نگار تھے تو وہ مصباح کی کرکٹ اور کوچنگ پر تنقید کیا کرتے تھے۔مصباح کے سست کھیلنے پر زمبابوے کے برینڈن ٹیلر کی مثال دیتے تھے کہ وہ کسی بھی قابل اعتماد ساتھی کی غیر موجودگی کے باوجود تیز کھیلتا ہے۔مصباح کی کوچنگ کے دوران ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا مائنڈ سیٹ کھلاڑیوں میں ڈال رہا ہے۔ تاہم اب وہ خود کوچ ہیں لیکن مسائل وہیں ہیں۔ یہی بات رمیز راجہ کے متعلق بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ جب کمینڑی باکس میں تھے تو ٹیم کو ہار بھلا کر جارحانہ کھیلنے کا مشورہ دیا کرتے تھے لیکن اب وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں مگر ٹیم ان کی شاید بات ہی نہیں مانتی۔
دیگر کرکٹ بورڈز میں بورڈ کے سربراہ کا انتخاب کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ حکومت کی مداخلت سے پاک ہوتا ہے۔ ویسے تو وہ ممالک سیاسی انتتشار سے بھی قریب قریب پاک ہیں لیکن بالفرض اگر کوئی سیاسی تحریک شروع ہو بھی جائے تو اس کا کرکٹ بورڈ سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا،پاکستان کرکٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے دو عشرے سے یہاں کرکٹ بورڈ کا سربراہ حکومتِ وقت کی مرضی سے آ رہا ہے۔ اگر انتخاب ہوں تو وہ بھی ڈھونگ ہی ہوتے ہیں جیسا کہ رمیض راجہ کی مرتبہ ہوا۔ ایسی سیاسی تقرری کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک اس سربراہ کی حمایتی حکومت اقتدار میں ہوتی ہے تب تک اسے ہر قسم کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ حکومت کی آشیرباد سے کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔ آپ سب نے دیکھا کہ احسان مانی نے کرکٹ کا ساٹھ سالہ ڈھانچہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت کو سربراہ کی کارکردگی پسند نا آئے یا حکومت کمزور ہو جائے یا گھر چلی جائے تو بورڈ کا سربراہ بھی بظاہر بے دست و پا ہو جاتا ہے۔ اس وقت یہی حالت موجودہ سربراہ کی ہے کہ نئی حکومت نے انھیں فارغ نہیں کیا کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ حکومت انھیں فارغ نا بھی کرے تو بھی برطرفی کی دیوار تو ان کے سر پر لٹکتی رہے گی۔
بظاہر یہ تلوار کرکٹ بورڈ کے سربراہ پر لٹک رہی ہے لیکن درحقیقت یہ پوری کرکٹ ٹیم کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ فیصلوں کا تسلسل اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر ایک سربراہ کو خود معلوم نا ہو کہ وہ کتنے دن تک عہدے پر رہے گا تو وہ اپنی ٹیم کے منیجرز اور کوچ کو ان کے معاہدے کی کیا ضمانت دے گا ؟ بالخصوص اگر کوچ پاکستانی ہو تو پھر تو کسی قسم کی ضمانت نہیں ہوتی۔ اگر غیرملکی ہو تو پھر اسے کچھ کہا نہیں جاتا کیونکہ جلدی برطرف کرنےکی صورت میں اسے ہرجانہ دینا پڑتا ہے تاہم وہ بھی پھر نئے سربراہ اور اس کی ٹیم کے ساتھ اپنا وقت ہی گزارتا ہے کیونکہ سربراہ کی نظر میں وہ مخالف پارٹی کا بندہ ہوتا ہے۔ اب اگر کوچ کو خود یہ علم نہیں کہ وہ اگلی سیریز میں ہو گا یا نہیں تو وہ کھلاڑیوں کو کیسے اعتماد دے گا کہ اپنا قدرتی کھیل کھیلو ؟ تم اگر ناکام بھی ہو گئے تو اگلے اتنے میچ کھیلو گے۔ جب کوچ ہی کھلاڑی سے کہے گا کہ بھائی مجھے اپنی جگہ کا علم نہیں میں تمھیں ناکام ہونے کی صورت میں کیسے اگلے میچ میں کھیلنے کی ضمانت دے سکتا ہوں تو وہ کھلاڑی جو آؤٹ آف فارم ہے اس کا کیا بنے گا ؟ کھلاڑی کے ہاتھ پیر باندھ کے اسے مخالف کھلاڑیوں کے علاوہ اپنے شاندار تجریہ نگاروں اور انتہائی سمجھ دار تماشائیوں( پرچی پرچی کہنے والے) کے سامنے پھینک کر اس سے مقابلہ جیتنے کی توقع دیوانے کے خواب سے زیادہ بھلا کیا ہے ؟ کھلاڑیوں کو کوچ وکپتان سے وہ اعتماد چاہیے ہوتا ہے جو فضل محمود نے مشتاق محمد کو دیا تھا، جو بانوے کے عالمی کپ میں انضام و وسیم اکرم کو عمران خان نے دیا تھا یا جو اعتماد اتاپتو(پہلی چھ ٹیسٹ اننگزمیں ایک رن) کو اس کی انتظامیہ نے دیا تھا اور کوچز و کپتان کو وہ اعتماد بورڈ سے چاہیے ہوتا ہے جو لینگر کو آسٹریلوی بورڈ نےبھارت سے دو سیریز ہارنے کے باوجود دیا یا جو اعتماد جنوبی افریقہ نے گریم اسمتھ کو نوجوان کپتان بننے پر دیا تھا۔بابر اعظم کو یہ اعتماد مکی آرتھر نے دیا تھا اور رضوان کو یہی اعتماد مصباح الحق سے ملا تو اب دونوں کھلاڑیوں اور باقیوں میں فرق بھی دیکھ لیں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ یا کہہ لیں کہ ہم تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں کہ ہم اس کی جگہ ہوتے تو یوں کر لیتے اور یوں ہو جاتا۔ اوپر لینگر کی مثال دی تو کھلاڑیوں سے لینگر کے اختلافات پر تمام سابق کھلاڑیوں پونٹنگ و واہ و دیگر نے لینگر کی حمایت کی اور اس کی مدت پورئ کرنے میں مدد کی۔ نتیجتاً وہ آسٹریلیا کا ٹی ٹونٹی عالمی کپ جیتنے والا پہلا کوچ بنا۔ ہمارے ہاں سابق ماہرین کی تنقید تعمیری بہت کم ہوتی ہے بلکہ تصوراتی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ عہدہ اس کی بجائے ہمیں مل جائے۔ پھر جب قسمت کی یاوری سے مل جاتا ہے عہدہ تو وہ جان لیتے ہیں کہ ساحل ہر کھڑے ہو کر ڈوبنے والے کو مشوروں کی مدد سے بچانے اور اسے غوطہ لگا کر ساحل ہر لانے میں کتنا فرق ہوتا ہے۔
افتخار، حیدر، خوش دل ہوں یا کوئی اور۔ ان سب کو ہٹنگ کرتے آپ پی ایس ایل میں دیکھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ ہٹ مار سکتے ہیں اور تیز سکور کر سکتے ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں اپنے رول کا ہی علم نہیں ہے۔ انھیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ دسویں اوور میں پہلی وکٹ گرے تو تمھارا کیا کردار ہے اور دسویں میں چار آؤٹ ہون تو کیا کردار ہے؟ چار میں چالیس چاہییں ہوں اور ساتھ سیٹ بلے باز ہو تو خوش دل نے پہلی بال سے ہٹ لگانی ہے یا سیٹ بلے باز کو سٹرائیک دینا ہے ؟ اور ظاہر ہے اتنی پلاننگ کوچز تب کریں گے جب انھیں معلوم ہو کہ ہم نے اتنا عرصہ ٹیم کے ساتھ رہنا ہے ورنہ بس بات یہیں تک رہتی ہے کہ اللہ کرے رضوان و بابر ہی سکور پورے کر آئیں یا بالرز رن روک لیں۔
اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے بیس برس میں پاکستان نے شاید ہی بڑی ٹیموں سےکوئی میچ جیتا ہو جس میں ہم میچ سے پہلے میدان میں فیورٹ کی حیثیت سے گئے ہوں۔ جب ہم انڈر ڈاگ جاتے ہیں اور ہمارے کھلاڑیوں پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا تو پھر ہم ورلڈ کپ اور چیمپئن ٹرافی بھی جیت لیتے ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اکتوبر 7th, 2022
زمرہ: کرکٹ, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: atapattu, babar azam, Champions Trophy, graeme smith, imran Khan, langer, pakistan cricket, pakistan cricket board, rizwan, women cricket team