سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    تحریر:  ابنِ ریاض

    ہم پاکستانیوں سے اگر پوچھا جائے کہ جنوبی امریکہ کی کسی معروف شخصیت کا  نام بتائیں تو آدھی سے زیادہ آبادی کو تو ا س براعظم کے ممالک سے بھی شاید ہی واقفیت  ہو اور باقی ماندہ افراد   کے لئے وہاں کی معروف شخصیات برازیل و ارجنٹائن کے فٹ بالر مثلاً پیلے، میراڈونا، رابرٹو کارلوس اور رونالڈو ہی ہوں گے ۔ممکن ہے  کوئی ایک فیصد لوگ کاسترو اور ہوگو شاویز کے نام بھی لے لیں مگر شاید ہی کوئی ” ارنسٹو چی گویرا” کے نام سے واقف ہو۔ نئی نسل اور بالخصوص سوشل میڈیا والی نسل تو اس نام سے ہی آگاہ نہیں ہے۔

    ابنِ انشاء کی پہلی سالگرہ سے ٹھیک ایک روز پہلے یعنی چودہ جون 1928ء کو ارجنٹائن کے ایک شہر میں چی گویرا پیدا ہوئے۔ اچھے طالب علم تھے تو طب میں داخلہ مل گیا لیکن دوران تعلیم ہی انھوں نے موٹر سائیکل پر لاطینی امریکہ کی سیر کر لی۔ اس دوران انھوں نے پورے براعظم میں غربت، پسماندگی اور احساسِ محرومی کا مشاہدہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب سامراجی نظام کا شاخسانہ ہے۔ اس نے اس نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا۔گویرا  تعلیم مکمل کر کے   ارجنٹائن سے ایسا نکلا کہ مر کر بھی واپس نہ آیا۔

    اس کا پہلا پڑاؤ گوئٹے مالا تھا جہاں امریکی سی آئی اے اصلاح پسند صدر اربینز کو جان سے مارنا چاہتی تھی۔ چی گویرا نے مزاحمت میں حصہ لیا مگر جب صدر نے میکسیکو کے سفارت خانے میں پناہ لی تو گوئٹے مالا کی تحریک سے اس کا دل اٹھ گیا۔ 1955ء میں میکسیکو میں ہی اس کی ملاقات فیدل کاسترو سے ہوئی اور امریکہ نواز کیوبائی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے گوریلا جدوجہد میں چی گویرا نے کاسترو کا اتنے خلوص و جانفشانی سے  ساتھ دیا کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انقلاب میں زیادہ حصہ کاسترو کا تھا یا گویرا کا۔ان خدمات کے صلے میں ارجنٹائن کے گویرا کو کیوبا کی شہریت دی گئی اور یہی نہیں بلکہ گویرا کو انقلابی عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں نیشنل بینک آف کیوبا کا صدر اور اس کے بعد وزارت صنعت کا قلم دان دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں کیوبائی وفد کی صدارت کی۔ امریکہ چینلز کو انٹرویو دیئے۔ وہاں کے لوگوں کو اپنا فلسفہ زندگی واضح کیا اور وہ وجوہات بیان کیں کہ جن کی بنا پر لاطینی امریکہ کے لوگ امریکہ کو ناپسند کرتے تھے۔

    مصر کے دورے پر جمال عبدالناصر نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اے نوجوان تم کیوں ان پر خطر راہوں کے راہی بنتے ہو؟ اچھی خاصی زندگی اور عہدہ ہے۔ اس سے محظوظ ہو اور اپنے کام سے کام رکھو۔ گویرا نے بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سےشاید نکال دی اور الجزائر سمیت سات نو آزاد ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے تا کہ انھیں اپنی خدمات پیش کر سکیں۔ الجزائر میں چی گویرا نےاپنے خطاب میں کہا کہ یہ ساری دنیا ہمارا ملک ہے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک  کی فتح ہماری فتح ہےاور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔

    اقتصادی پالیسی پر عمل در آمد کے معاملے میں فیڈل کاسترو اور گویرا کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گویرا چینی ماڈل کے حامی تھے جبکہ کاسترو کچھ سیاسی مجبوریوں کی بنا پر روسی ماڈل پر عمل درآمد کرنا چاہتے تھے۔ گویرا نے سوچا کہ نظریاتی بوجھ بننے سے پہلے رستے الگ کرنا کہیں بہتر ہے۔ چنانچہ گویرا نے شہریت و تمام مراعات واپس کیں اور کانگو کا رخت سفر باندھا۔ کانگو میں سی آئی اے نے سازش سے صدر کو قتل کیا تھا تو وہاں انھیں انقلابی جدوجہد کے لئے حالات سازگار دکھائی دیئے ۔ تاہم کانگو والے کم ہمت نکلے۔ گویرا اب موزنبیق پہنچا کہ وہاں پرتگیزیوں کے خلاف نبزد آزما فری لیمو تحریک کے لئے کام کر سکے مگر وہ گویرا کو نا سمجھ سکے۔ اس دوران کاسترو نے گویرا کو واپسی کا پیغام بھیجا مگر گویرا کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ دوبارہ وہاں جائے جہاں کی شہریت وہ خود ترک کر چکا ہے۔ اس کے باوجود  اس نے کاسترو کو پیغام بھیجا کہ وہ خفیہ دورے پر کچھ روز کے لئے کیوبا آنا چاہتا ہے۔موزنبیق سے گویرا نے بھیس بدلا اور یورپ کے کئی ممالک کا سفر کرتے ہوئے کیوبا پہنچا۔وہاں کاسترو نے اسے بولیویا میں انقلابی چھاپہ مار تحریک کو منظم کرنے کے لئے قائل کیا اور گویرا نے بھی اس کی حامی بھر لی۔ کچھ ہی عرصے میں گویرا نے پچاس کے قریب تربیت یافتہ گوریلوں کا دستہ تیار کر لیا۔

    سی آئی اے والوں کو اس دوران گویرا کی بولیویا کے جنگلات میں موجودگی کا علم ہو گیا۔ ایک جھڑپ میں چی گویرا کے ساتھی  مارے گئے اور وہ زخمی حالت میں پکڑا گیا۔ ہیڈکواٹر کو اس کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے کہا کہ مار دیا جائے۔ یوں  9 اکتوبر 1967ء کو گولی مار کر مزاحمت کے اس استعارے کو ابدی نیند سلا دیا گیا اور بولیویا کے جنگل میں گویرا کی تدفین کر دی گئی مگر گویرا مر کر بھی مرا نہیں بلکہ شاید اس نے آب حیات پی لیا۔

    1968ء میں طلباء کی عالمی تحریک میں چی گویرا کی 1960ء کی تصویر ٹی شرٹس اور پوسٹرز پر چھپ گئی۔  بعد ازاں  پرچموں، کافی مگز، ٹوپیوں اور دیگر اشیاء کی زینت یہ تصویر اربوں ڈالر کی صنعت بن گئی۔ ان کی سوانح عمریاں اور موٹر بائیک ڈائیریاں شائع ہوئیں اور انھوں نے لاکھوں ڈالرز کا بزنس کیا۔ وینیزویلا کے صدر ہوگو شاویز بھی انھی کی تصویر والی شرٹ پہن کر خطاب کرتے تھے۔ 1997ء میں ان کی باقیات بولیویا سے کیوبا لائی گئیں اور انھیں سانتا کلارا کے میدان میں دفن کیا گیا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں انقلاب کی فیصلہ کن لڑائی لڑی گئی تھی۔ چی گویرا کے نام سے جنوبی امریکہ میں کئی یادگاریں ہیں اور وہاں روزانہ سینکڑوں ہزاروں لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں۔

    ہمارا ارنسٹو گویرا سے تعارف پچھلے برس ہوا جب بی بی سی کی ایک رپورٹ پڑھی جس میں ان  کے پاکستان اور بھارت کے دورے کی تفصیلات تھیں۔ اس کے بعد ان کے متعلق تفصیلات کی تلاش کی تو ہم گویرا کے پرستار ہو گئے۔گویرا نے صرف انتالیس برس کی زندگی پائی لیکن اس زندگی میں انھوں نے ایسے دیرپا و انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو انھیں نصف صدی بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی اپنے مقصد سے غیر متزلزل وابستگی تھی۔ ان کی زندگی کے پیشہ ورانہ سال محض چودہ پندرہ ہیں لیکن ان سالوں میں انھوں نے کئی ممالک میں عملی جدوجہد کی اور استعماری قوتوں کو شدید نقصان بپہنچایا۔ کیوبا کی حد تک تو ان کی کوشش کامیاب بھی ہوئی۔

    ہم لوگ اپنے ملک اور اپنے مفادات سے باہر نہیں نکلتے لیکن چی گویرا پون صدی قبل بھی ایک عالمی دل و دماغ رکھتے تھے۔ ان کا معاملہ اپنے ملک و اپنے مذہب تک محدود نہ تھا۔ وہ ساری دنیا کو اپنا گھر سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انھیں کوئی مظلوم دکھائی دیا وہ اس کی عملی مدد کو پہنچ گئے۔آپ خود سوچیے کہ کانگو، موزنبیق ، بولیویا اور الجزائر وغیرہ سے انھیں ایسا کیا ملنا تھا جو ان کے پاس پہلے نہیں تھا۔ان کی انسان دوستی  ان سے یہ سب کرواتی تھی۔وہ امیر مینائی کے اس شعر کی عملی تصویر تھے

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    دنیاوی عہدے ان کے لئے کوئی معنی نہیں  رکھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو ڈاکٹری کی تعلیم سے وہ اچھا خاصا کما سکتے تھے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ قدرت نے انھیں کیوبا میں کامیابی کے بعد وزارتوں سے بھی نوازا تھا۔ نناوے فیصد لوگوں کے لئے یہ پیشہ ورانہ معراج ہے کہ پیسہ   اور اختیارات آپ کے گھر کی لونڈی ہوں۔ان چیزوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دینا درویشانہ مزاج کا عکاس ہوتا ہے۔ گویرا نے تو ان سہولیات کو حاصل ہونے کے بعد خود لات مار دی تھی اور اپنے اصولوں اور مقاصد پر انھیں قربان کر دیا۔

    انتالیس سال کی عمر پیشہ ورانہ لحاظ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر تعلیم کے سال نکال دیئے جائیں تو مشکل سے سولہ سترہ سال بچتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ چالیس سال کی عمر تک سیٹل بھی نہیں ہوتے لیکن اتنی عمر میں چی گویرا کئی زندگیاں جی گیا۔ پیشہ ورانہ زندگی میں  وہ گوریلا رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر،کھلاڑی مصنف، شاعر، سیاح، سیاست دان، مفکر، مقرر اور انقلابی تھا۔ اتنی ہمہ و مختلف جہت شخصیات تاریخ میں گنتی کی ہی ہیں۔  اس کی زندگی ہم جیسے لوگوں کے لئے پیغام ہے کہ انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو پینتیس چالیس سال کی عمر بھی کافی ہے ورنہ سو سال کی عمر بھی بیکار ہی گزرے گی۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔