تحریر: ابنِ ریاض
اگست 2013ء میں اقرار الحسن ایک پروگرام کر رہےتھے جس میں وہ مختلف معروف شخصیات کی آخری آرام گاہوں کی حالتِ زار کے متعلق بتا رہے تھے۔ جب وہ وحید مراد کے مرقد پر آئے تو ان کی بات کا مفہوم یہ تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی کسی کو مرنے کے تیس منٹ بعد یاد نہیں رکھتا وہاں وحید مراد کا اپنی وفات کے تیس برس بعد بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنے رہنا حیرت انگیز ہے۔ اس بات کو اب قریب عشرہ ہو چکا ہے لیکن اس بات کی صداقت میں اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔
وحید مراد پر ہم پہلے ایک تحریر "نہ بھولی جانے والی داستان” بھی چند برس پہلے لکھ چکے ہیں اور اب جو عنوان ہے اتفاق سے وہ بھی فلم "دوراہا” کے ہی ایک اورلازوال گانے” مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو” کا اگلا مصرعہ ہے۔ وحید مراد جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم ابھی سات سال کے بھی نہیں تھے سو ان کا تمام کام ان کی رحلت کے بعد دیکھا ۔ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ہر ہفتے ایک فلم لگا کرتی تھی اور وہیں ہم نے وحید مراد اور ان کے ہم عصروں کی فلمیں دیکھیں۔ کچھ پرانے فلمی گانوں کے پروگرام بھی لگتے تھے اور یہ جانا کہ پروگرام کے قریب آدھے گانے وحید مراد پر پکچرائز ہوئے ہوتے تھے۔ فن میں وہ اپنے ہم عصروں سے کہیں آگے تھے اور گانے پکچرائز کروانے میں تو شائد وہ بھارتی اداکاروں کو بھی مات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔بی بی سی پر آج بھی ان کی برسی پر ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کالم موجود ہے۔ وحید مراد کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ختم ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں مگر وحید مراد کا نام اسی آب و تاب سے جگمگا رہا ہے۔ وحید مراد وہ واحد پاکستانی ہیں کہ جن کی شہرت ہالی ووڈ تک جا پہنچی۔ یہ ہماری بدقسمتی کہ انھیں پسند کرنے والی لڑکی نے انھیں بھارتی فلم اداکار قرار دیا۔
دیکھا جائے تو کسی بھی شعبے کے ماہرین جب اپنے فن کے عروج پر ہوتے ہیں تو وہیں ان کی مقبولیت کا سورج بھی نصف النہار پر ہوتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے اور دوسرے لوگ ان کی جگہ لینے لگتے ہیں تو ان ماہرین کی مقبولیت بھی پہلے جیسی نہیں رہتی اور بعض تو اپنی زندگی میں ہی بھولی بسری یاد بن جاتے ہیں۔ اپ پاکستان ہاکی کے کھلاڑیوں کا معاملہ دیکھ لیجیے کہ ایک دور سمیع الہ کلیم برادران و صلاح الدین کا تھا تو اگلا دور حسن سردار کا ۔ پھر شہباز سینیر و وسیم فیروز کا دور آیا تو پچھلوں کی مقبولیت گہلانے لگی اور اب جو ہاکی کا حال ہے وہ سب لوگ بھی حقیقت میں ماضی کی داستان بن چکے ہیں اور کسی بازار میں چلے جائیں تو شاید چند لوگ ہی انھیں پہچان پائیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا حال اگر زیادہ برا نہیں تو ہاکی جیسا تو ہو گا ہی۔ ان حالات میں وحید مراد کا انتقال کے بعد یوں امر ہونا ہمیں ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وحید کا سحر اپنے دور کے لوگوں تک محددود نہیں ہے ۔ وحید مراد کے ایسے "ڈائی ہارڈ” پرستار بھی ہیں جو ان کی نسل سے نہیں تھے بلکہ ان کی وفات کے بعد عشروں بعد پیدا ہوئے لیکن وحید مراد کے سحر میں ایسے جکڑے گئے کہ اب انھیں دنیا کا کوئی اور اداکار بھاتا ہی نہیں ہے۔ یوٹیوب پر وحید مراد کے گانوں پر تبصرے دیکھیے۔ بھارت و بنگلہ دیش کے اردو سمجھنے والے بھی وحید مراد کے پرستار ہوئے جاتے ہیں۔
وحید مراد ایک ایسا سکہ ہیں بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ ڈالر کا نوٹ ہیں جو ہر دکان پر چلتا ہے۔ وحید مراد نے اپنی زندگی میں خود خوب کمایا اور ان کی وجہ سے اور بہت لوگوں نے کمایا۔ دیگر اداکاروں ، گلوکاروں،شاعرں، پروڈیوسروں، پردے پیچھے کام کرنے والے ان گنت افراد ، سینما گھروں کے مالکان اور دیگر بے شمار لوگوں نے لیکن ان کا یہ فیض ان کی وفات کے بعد بھی چلا جا رہا ہے۔ اخبارات نے ان کے انتقال کے سال بھر بعد تک ان پر تحاریر شائع کیں۔ سینما گھروں میں ان کی فلاپ فلمیں بھی ان کی وفات کے بعد بھی ہزاروں لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بنی رہیں۔ نگار آج بھی وحید مراد کی برسی پر "وحید مراد نمبر” شائع کرتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ان کا پورے سال میں سب سے زیادہ بکنے والا نمبر ہے۔ وحید مراد انٹرنیٹ کے دور سے سالوں پہلے اس دنیا سے چلے گئے لیکن آج بھی ان کے نام پر کئی فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینلز ہیں اور وحید مراد کا نام ان کے لئے "کھل جا سم سم ” کا کام کیے جا رہا ہے۔
اس قدر مقبولیت اور ہر دلعزیز ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے مداحوں کے ساتھ ساتھ بے شمار حاسد بھی ہوتے ہیں۔ وحید مراد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کبھی ان کی ٹیم توڑی گئی تو کبھی ان کی ہیروئنوں کو ان کے میاں کام کرنے سے روک دیتے۔ کبھی انھیں مغرور کہا جاتا تو کبھی کچھ اور الزام۔ وحید مراد یہ سب گزار کر چلے بھی گئے مگر اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ شاید اس لئے کہ وحید مراد کے متعلق کوئی جھوٹی خبر ہی کیوں نا ہو وہ اب بھی ویوز لے لیتی ہے ، اس کی ریٹنگ دوسری خبروں سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ ان کے مخالفین کے لئے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ سچ ہے پھل دار درخت پتھر پھینکنے والوں کو بھی پھل ہی دیتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ماضی کے اوسط درجے کے اداکار نے اپنے بیٹے کے پروگرام میں اپنے ہم عصروں بالخصوص وحید مراد سے متعلق کچھ باتیں کہیں جو نامناسب تھیں تو لوگ ان کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے اس دور کے اخباروں کے تراشے تک لے آئے یہاں تک کہ اس اداکار کے بیٹے کو وضاحت دینی پڑی۔ وحید مراد اور احمد رشدی کے ایک سدا بہار گانے "کو کو کورینا” کو کوک سٹوڈیو والے نے تبدیل کیا تو صرف موسیقی پسند لوگوں نے ہی نہیں بلکہ عام افراد جنھوں نے محض اصل گانا سن رکھا تھا، کوک سٹوڈیو والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ گانا اور درج بالا دو گانوں کے علاوہ درجنوں ایسے گانے ہیں جنھیں وحید مراد نے پکچرائز کر کے امر کر دیا ہے ۔ان گانوں کی عمر وحید مراد کی عمر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اور یہ گانے بلکہ خود وحید مراد ہمارا ثقافتی ورثہ ہیں۔
محسن نقوی مرحوم کا مندرجہ ذیل شعر ہمارا پسندیدہ ترین شعر ہے۔ ہم جتنا اسے پڑھتے ہیں اتنا ہی مزا آتا ہے اور یہ شعر وحید مراد سے زیادہ کسی شخصیت پر صادق نہیں آتا۔ وحید مراد کے مخالفین انھیں زیر کرنے کی تا عمر کوشش کرتے رہے لیکن وحید مراد کا کام اتنا شاندار اور منفرد ہے کہ اس کو زوال نہیں
عمر اتنی تو عطا کر مرے فن کو مالک
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: نومبر 23rd, 2022
زمرہ: شخصیات تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: doraha, mughe tm nazar se gira to rahe ho, Pakistan, Pakistan Film Industry, Waheed Murad