عربی و شریعت بھی ہم سے پڑھیے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • عربی و شریعت بھی ہم سے پڑھیے

    تحریر: ابنِ ریاض

    سعودی عرب میں تدریس شروع کرنے کے بعد ہمارے کچھ سال تو کافی اچھے گزرے کیونکہ ہمیں ہماری پسند کے مضامیں تدریس کے لئے دیئے جاتے تھے۔ ہر استاد سے پانچ پسندید ہ مضامین کی فہرست لی جاتی تھی اور اس  فہرست میں سے دستیاب مضامین استاد کی ترجیح کے مطابق دے دیئے جاتے تھے۔ کبھی کبھار ایسا مضمون مل جاتا تھا جو اس فہرست سے باہر ہو لیکن ایسا استاد نہ ہونے کے باعث شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔

    پچھلے چند سالوں میں سعودی عرب میں حالات بدلے ہیں۔  غیر عربیوں یعنی عجمیوں  کو کم کیا جا رہا ہے اور ان کی بجائے سعودیوں کو کام پر لگایا جا رہا ہے۔ اس کا اثر جامعات پر بھی پڑا ہے اور کئی اساتذہ کے معاہدوں کی تکمیل کے بعد تجدید نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ نئے قانون کے تحت دس سال کی ملازمت کے بعد مزید ملازمت کا فیصلہ جامعہ نہیں بلکہ وزارتِ تعلیم کرتی ہے۔

    کئی لوگوں کو باوجود ضرورت کے نیا عقد یعنی کانٹریکٹ نہیں دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  اب  اساتذہ  بہت کم ہیں ہمارے شعبے میں۔ اب پسندیدہ مضامین کی فہرست لینے والا کام تو ماضی کا قصہ ہوا۔ اب تو ہر استاد کا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) دیکھا جاتا ہے اور جس کی اس مضمون کے وقت فراغت ہو وہ مضمون اسی کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ پچھلے دو سمسٹر سے ہمارا نظام الاوقات بھی  اسی گردشِ دوراں کا شکار ہے۔ اس مرتبہ تعلیمی سال کو تین سمسٹرز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس وقت دوسرا سمسٹر جاری ہے۔

    تدریس میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ بچوں کو مطمئن کر دیا جائے بھلے بات غلط ہی ہو۔ استاد اگر طبیعات کی جماعت میں معاشرتی علوم بھی پڑھا آئے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ وہ طالب علموں کو یقین دلا دے کہ یہ معاشرتی علوم ہی طبیعات ہے۔ اتفاق سے پچھلے سمسٹر میں ہمیں جو مضامین  پہلی مرتبہ دیئے گئے ان میں ایک طبیعات بھی تھا۔ چونکہ وہ ہمارا پسندیدہ مضمون رہا ہے اور یوں بھی نیوٹن سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے تو ہم نے بچوں کے خوب کان بھرے نیوٹن کے خلاف اور انھیں سمجھایا کہ اس جیسا بننا مضرِ صحت  و اسلام ہے۔  کیونکہ یہ سیب کھاتا نہیں تھا بلکہ اس پر تحقیق کرنا شروع کر دیتا تھا۔ ہمارا تو مذہب ہی غیب پر یقین کا درس دیتا ہے سو  تحقیق کوئی  کارِ ضروریہ نہیں۔

    طبیعات تو چلیں ہم نے پڑھ رکھا تھا مگر اس سمسٹر میں ہمیں "مائیکرو پروسیسر” اور "مائیکرو کنٹرولر” تھما دیا گیا۔ ان مضامین کا نام اپنے نظام الاوقات میں دیکھ کر ہمارے ہاتھوں کے  طوطے کیا ،سارے پرندے از خود ہی اڑ گئے۔ بھلا جو شخص  چوتھی جماعت سے چشمہ لگاتا ہو اسے "مائیکرو” چیزیں کہاں دکھائیں دیں گی اور جب دکھائی ہی نہ دیں گی تو سمجھ کیا خاک آئیں گی ؟ اس پر مستزاد یہ کہ جب ہم اس صدی کے پہلے برس الیکٹڑیکل انجینئرنگ کی ڈگری سے فارغ التحصیل ہوئے تو مائیکرو پروسیسز کا ابتدائی سا تعارف تھا اور ہم نے وہ مضمون بس پاس کرنے کی حد تک پڑھا تھا یعنی ہم اس مضمون میں  کورے کاغذ ہی تھے بلکہ اب تک ہیں ۔مائیکرو پروسیسر سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ ہم  اس مضمون کو "مائیکرو  ڈپریسر” کہا کرتے تھے۔جبکہ مائیکروکنٹرولر تو ہم نے پڑھا بھی نہیں تھا کبھی۔

    کوئی دو عشروں سے تدریس کے بعد اب کلاس میں جانا اور بچون کو مطمئن کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔  ہماری پہلی تدریسی کلاس کا ذکر "گرتے ہیں شہ سوار ہی” میں ہو چکا ہے جب ہم نے اپنے سے دوگنا  عمر کے "بچوں” کو پڑھایا تھا۔ تاہم  ہمارے خیال میں یہ طالب علموں کے ساتھ زیادتی ہے کہ مضمون ایک ایسے مدرس کے حوالے کر دیا جائے جو اس کا ماہر نہیں۔

    ہم اپنے مدیر (شعبے کے سربراہ) کےپاس گئے کہ سر کچھ رحم کیجیے۔ ہم پر نہیں تو اپنے طالب علموں پر رحم کیجیے۔ کیوں ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ہمیں الیکٹرک سرکٹ اور الیکٹرانکس تھمائیے اور یہ ننھے منے ناموں والے مضامین ان کے ماہر کسی استاد کو دیجیے۔ انھوں نے مسکرا کر ہمیں دیکھا اور ہمارے خیالات  وجذبات کی قدر کی اور ساتھ ہی حوصلہ دیا کہ  کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے آپ پڑھا سکتے ہیں۔ یعنی چونکہ ہم سائیکل چلا چکے ہیں تو تھوڑی کوشش سے ٹرک بھی چلا لیں گے بلکہ سمجھیے کہ ٹرک کی چابی ہمارے حوالے کر دی کہ اب تم  جانو اور یہ ٹرک جانے۔

    حکمِ حاکم مرگِ مفاجات ہم واپس آ گئے اور ان مضامین کو پڑھانے کی یعنی بچوں کو پنجابی والا "دا” لگانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ انٹر نیٹ سے  دیکھا تو معلوم ہوا کہ مائیکرو پروسیسر میں اسمبلی کروائی جاتی ہے۔ بے اختیار اپنے سکول کے اساتذہ کو غائبانہ سلامِ احترام کیا کہ انھوں نے ہمیں اسمبلی بہت اچھے سے کروائی تھی۔ ساتھ ہی شاعرِ مشرق اور حفیظ جالندھری  کی بصیرت کے بھی قائل ہو گئے کہ جنھوں نے "لپے آتی ہے” اور قومی ترانہ لکھ کر ہمیں ماہرِ اسمبلی کر دیا۔ سوچا کہ بچوں پر زیادہ سختی نہیں کریں گے۔ انھیں  سعودی ترانہ پڑھنے کی رعایت دے دیں گے۔ تا ہم "لب پہ آتی ہے ” یاد کرنا لازم ہو گا۔ ابھی ہم تلاوتِ قرآن اور نعتِ رسول مقبول کے متعلق بھی سوچ رہے تھے کہ خیال آیا کہ پرانے اساتذہ کے نوٹس ہی کھول لیں۔ وہ کھولنے کی دیر تھی کہ معلوم ہوا کہ اسمبلی تو ایک زبان ہے جو کمپیوٹر کا دماغ یعنی مائیکرو پروسیسر سمجھتا ہے اور اچھی خاصی ادق و تکنیکی زبان ہے۔ اس عمر میں ہمیں اب تک عربی روانی سے نہیں آئی تو اسمبلی کیا خاک آئے گی ؟ جبکہ مائیکرو کنٹرولر مائیکرو پروسیسر کا ہی چھوٹا بھائی ہے جس کی حرکات و سکتات  مائیکرو پروسیسر سے ملتی بھی ہیں اور کچھ کچھ مختلف بھی ہیں۔

    اب ہم یہ مضامین طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں یعنی ہم کمرہ جماعت میں پوری ایمانداری سے جاتے ہیں۔کیونکہ نوکر کی تے نخرہ کی۔ اب طالب علموں کو کیا سمجھ آتا ہے یہ ان کا معاملہ ہے۔ ہم نے انھیں بتا دیا ہے کہ جو طالب علم استاد کی قدر کرتا ہے وہ بہت اوپر جاتا ہے۔ ساتھ ہی علامہ اقبال کی مثال بھی دی ہے اور انھیں کہا ہے کہ اے طالب علمو ،  اگر کسی بڑے عہدے پر چلے جاؤ  تو اقبال کی طرح اپنے اس استاد کو شمس العلماء کا خطاب (کوئی  سرکاری عہدہ و منصب) دینے سے تمھارے  مدارج مزید بلند ہوں گے۔

    آج سعودی عرب والے  ہمیں   اپنی مہارت سے بعید مضامین دے رہے ہیں تو کل مزید ترقی بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔ کیونکہ میٹرک میں بیالوجی بھی ہم نے پڑھی تھی تو عین ممکن ہے کہ کوئی  طبی ڈاکٹر موجود نہ ہو تو کہا جائے کہ ابن ریاض اس سمسٹر میں آپ میڈیکل کے طلبا کو سرجری پڑھائیں۔ ہماری کئی سرجریاں بھی ہو چکی ہیں تو یہ بھی اضافی خوبی ہوگی۔ اس کے علاوہ امراض چشم والوں کو پڑھانا بھی کچھ مشکل نہیں کہ ہم نے چشمہ بھی ہمارا شناختی نشان ہے۔آنکھیں  دکھانا  بھی ہمارا محبوب مشغلہ ہے  تو تفریح  طلب کے لئے ایک آدھ سمسٹر آنکھیں میں بھی بھی کوئی حرج نہیں۔ دانت کھٹے کرنا اور توڑنا بھی ہمیں خوب آتاہے ۔ ہتھوڑی ، پلاس اور رینچ سبھی  کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں  سو بی ڈی ایس میں ہماری کلاسز بھی چنداں  مشکل نہیں۔  ٹوٹی پھوٹی عربی بھی ہمیں آتی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی تو ہم نے ازراہِ مروت  لکھ دیا ورنہ  اس زبان میں ہماری مہارت کا یہ عالم ہے کہ ہم تو  نماز  بھی عربی میں ہی پڑھتے ہیں۔  عین ممکن ہے کہ  مستقبل قریب  میں ان طالب علموں کو عربی سکھانے کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی  جائے۔ قرین  قیاس  ہے   کہ کبھی انھیں شریعت کا کوئی استاد نہ ملے تو ابنِ ریاض طالب علموں کو شرعی و فقہی مسائل  پر سیر حاصل گفتگو کرتے دکھائی دیں کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا۔

    ٹیگز: , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔