تحریر: ابنِ ریاض
عرصہ پہلے کی بات ہے کہ عمر شریف مرحوم اپنے کسی پروگرام میں جاوید شیخ کا ذکر رہے تھے۔ انھوں نھے بتایا کہ جاوید شیخ کو اداکار بننے کا شوق تھا لیکن ان کو اچھے ڈرامے نہیں مل رہے تھے یا اگر مل رہے تھے تو وہ کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ جاوید شیخ عمر شریف کی والدہ کے پاس گئے اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ والدہ بھی تو عمر شریف کی تھیں۔ انھوں نے دعا کی اور بعد ازاں جاوید شیخ کو دلاسے دیتے ہوئے بولیں: بیٹا تو دل چھوٹا نہ کر، اللہ نے چاہا تو جلد لمبے منہ والوں کا دور بھی آئے گا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد جاوید شیخ کو شاید شمع اور پھر دوسرے ڈرامے ملئے اور آج ان کا شمار پاکستان کے بڑے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی گنجوں کا دور بھی آنے ہی والا ہے۔ یہ بات ہمیں ایک خبر سے یاد آئی۔ خبر اگرچہ پرانی مگر ہمیں اس تحقییق کے متعلق آج ہی علم ہوا ہے۔ خبر یہ کہہ رہی ہے کہ ہسپانوی جامعہ کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گنجے سر قابل تجدید شمسی توانائی پیدا کرنے کے لئے سر کا استعمال کر سکتے ہیں۔ جسم کے ہر عضو کا کوئی نہ کوئی کام ہے، ہاتھ، پیر ، کان، آنکھیں گردن غرض سب ہی کچھ نہ کچھ کر رہے تھے سوائے سر کے۔ سو اب یہ بھی کسی کام لگے گا۔ خبر کی مزید تفصیل یہ ہے کہ کھوپڑی کی سطح سورج کی کرنوں کو اکٹھا کر کے بجلی میں تبدیل کرتی ہے جسے اس شکص کے پاس موجود چھوٹی بیٹریوں میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ذخیرہ شدہ توانائی بعد ازاں موبائل چارج کرنے کے علاوہ دیگر کاموں میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ سائنس دان نئی تحقیقات شاید پاکستان کے حالات کو سامنے دیکھتے ہوئے کرتے ہیں۔
ہم نے سنا تھا کہ گنج گنج کو بلاتا ہے۔ اول الذکر گنج سے مراد گنجا پن یا ٹنڈ ہے اور آخر الذکر سے مراد خزانہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک دونوں مترادف ہی تھے ۔ پیشہ وروں کے پاس دولت تب آتی ہے جب ان کے سر کے بال جھڑنے لگتے تھے۔ اس جدید تحقیق کے بعد تو اب بال جھڑنے کا انتظار کرنا ہی نہیں پڑے گا۔ انساں خود بالوں سے جان چھڑوا لے گا۔
پاکستان میں بجلی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ حکومت اب لوگوں کو گھروں کی چھتوں پر شمسی پلیٹیں لگانے کی ترغیب دے رہی ہے۔ تاہم متوسط طبقے کے لئے وہ پلیٹیں لگانا بھی اتنا آسان نہیں۔ خرچہ اگرچہ ایک مرتبہ کا ہے مگر پھر بھی عام آدمی کے لئے اتنی رقم اکٹھا کرنا ہر گر آسان نہیں۔نئی ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعد پلیٹیں لگانے کی رقم کی بچت بھی ہو گی۔ یوں بھی متوسط و غریب طبقے کے پاس سروں کی تو کمی ہوتی نہیں اور اس کام کے لئے تو کسی مہارت و تربیت کی بھی ضرورت نہیں۔ بس دھوپ میں بیٹھنا ہے اور کام ہو جائے گا۔ سو ہر گھر نہ صرف اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرے گا بلکہ زائد بجلی حکومت لے کر فروخت بھی کر سکے گی۔
شمسی پلیٹوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جگہ پر نسب ہوتی ہیں اور سورج کی حرکت کے باعث بجلی کی پیداوار اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ گنجے سر موبائل سولر پینلز یعنی شمسی پلیٹوں کا کام کریں گے اور بندے کو بس جہاں دھوپ اچھی لگی وہیں بیٹھ گیا اور بجلی بننا شروع۔ ایک مشہور زمانہ شعر اپنی حالت کچھ یوں بدلے گا
بیٹھ جاتا ہوں جہاں دھوپ تتی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز افزائشِ بتی ہوتی ہے
جب جی بھر گیا یا دن کی بجلی کا کوٹہ پورا ہو گیا تو اپنی شمسی پلیٹ پر ٹوپی رکھی یا چھاؤں میں چلے آئے گویا کہ پلیٹ اگلے استعمال تک پیک ہو گئی۔
اس ٹیکنالوجی سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ ہر شخص خود کمائے گا۔ کسی کو نوکری نہ ملی تو ٹنڈ کروائی اور بن گیا سولر پینل۔ سورج مُکھی کے پھول بھی ٹنڈوں کی یہ بہار دیکھ کر آہیں بھریں گے کہ یہ کس نے ہمارا چمن لوٹا۔ اس سے ٹنڈ والوں کی چاندی ہو جائے گی ۔ سونا تو چمکتی ٹنڈ ویسے ہی محسوس ہوتی ہے۔
رشتے کے لئے جانے والے مردوں کو بھی اب گنج چھپانے کی کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔ چھپتی تو وہ پہلے بھی نہیں تھی مگر انسان اپنی سی کوشش تو کرتا ہی ہے۔اب گنجے سر کی اس افادیت کے باعث لڑکیاں ٹنڈ والوں کو ترجیح دیں گی کہ گھر میں بجلی کی تو ضمانت ہو گی اور ساتھ ہی مفت بھی کیونکہ شوہر بل تو مانگنے سے رہا۔کسی زمانے میں وحید مراد ہیئر سٹائل کا ڈنکا بجتا تھا۔ اب ببو برال سٹائل کی مانگ ہو گی۔ گنجوں کے سامنے بالوں والے اور سست و کاہل کے سامنے محنت کرنے والے ایسے ہی بے قدر ہوں گے جیسے امریکی ڈالر کے سامنے پاکستانی روپیہ ہوتا ہے۔
بیگمات میاں کے سر پر ایک بال برداشت نہیں کریں گی۔ اگرچہ شادی کے بعد ٹینشن و ذمہ داریوں سے ویسے بھی بال گرنا معمول کی بات ہے مگرا س ٹیکنالوجی کے بعد تو ٹنڈ پر اگتا بال انھیں سسرالی رشتے دار محسوس ہو گا اور وہ پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کریں گی۔
گھر میں رہنے والا شوہر بھی بیگم کو برا نہیں لگے گا۔ البتہ اسے حکم ہو گا کہ دھوپ میں بیٹھا رہے جب تک کہ واشنگ مشین، استری، موبائل اور دیگر برقی آلات استعمال ہونے ہیں۔ لڑائی میں بیگم طعنہ ضرور دے گی کہ شیخ صاحب کی ٹنڈ دیکھو روز دس یونٹ زیادہ بناتے ہیں۔ آپ کے بھائی بھی اتنی بجلی بناتے ہیں۔ میرے ہی نصیب پھوٹے تھے جو آپ کے پلے پڑ گئی۔
ادھر میاں کو غصہ آیا تو اس نے سر پر ٹوپی پہن کر سولر پینل کو سوئچ آف کر دینا ہے۔شدید غصے کی صورت میں جسمانی گرمی اور سورج کی کرنوں کی حدت مل کر حرارت اتنی بڑھ جائے گی کہ تاروں کے شارٹ ہونے سے پینل کی تاریں ہی جل جائیں گی۔ اردگرد کے لوگ کہیں گے فلاں صاحب کا ٹرانسفارمر ہی جل گیا ہے۔ گنجے مرد "بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں” کی عملی تفسیر ہوں گے۔
اگر یہ سب ہو گیا تو واپڈا اور کے الیکٹرک کا اتنا وسیع نیٹ ورک تو ضائع ہو جائے گا ۔ کباڑیے کو اچھے داموں پر یہ چیزیں بیچی جا سکتی ہیں بصورت دیگر بجلی کے کھمبے کتوں کی حاجات ضروریہ اور تاریں پرندوں کے سستانے کے کام آئیں گی۔
جس طرح تحقیقات جاری ہیں بعید از قیاس نہیں کہ انسانی گیس کو استعمال کرنے والی بھی کوئی ٹیکنالوجی آ جائے۔ ہم پاکستانیوں نے سوئی کے مقام سے گیس نکالی اور اسے سات عشرے استعمال کر لیا۔ ماضی قریب میں تو گیس کا کوئی بڑا ذخیرہ دریافت نہیں ہوا۔ انسانی توانائی کو ہی زیادہ سے زیادہ معاملات میں استعمال ہونا چاہیے تا کہ حکومت و حکومتی اداروں پر انحصار کم سے کم ہو ۔اگر انسانی جسم خود ہی گیس بنا لے ( اکثر تو بناتا بھی ہے) اور اسے استعمال کیا جا سکے تو ہم پاکستانیوں کا ایک اور دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہی گیس اگر چولہوں اور گیزروں کی زینت بن جائے تو ہم پاکستانیوں کے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ کچھ لوگ تو زائد گیس گاڑی کی سی این جی کٹ میں بھی استعمال کر لیں گے۔
بجلی و گیس مفت کی ہو تو پاکستانیوں کے اخراجات و حکومتی بلوں میں نمایاں کمی ہو جائے گی اور اس سے گھر کا ماحول بہتر ہو گا کیونکہ اس بچت سے بیگم کا ہر مہینے کا ایک نیا سوٹ بن جائے گا ۔ خواتین اب دعا شروع کر دیں کہ یہ ٹیکنالوجی جلد سے جلد عام ہو جائے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: فروری 7th, 2023
زمرہ: طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: electricity, ganja pan, gas, solar panels, سولر پینلز, گنجا پن بجلی