تحریر: ابنِ ریاض
زیورات کی بات کریں تو خواتین کی ان میں جان ہوتی ہے۔پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت اب دو لاکھ سے اوپر ہو گئی ہے۔ اس دور میں خواتین کے لئے سونے کے زیورات بنوانا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تووہ دن دور نہیں جب سونا خواتین پر بھی حرام ہو جائے گا۔ معروف گلوکار اخلاق احمد مرحوم نے تو نصف صدی قبل ہی "سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من تجھ کو میں دےسکوں گا ” کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے۔ اب پچاس برس بعد ہر نوکری پیشہ شخص یہی گا رہا ہے۔ زیورات خواتین تک ہی محدود نہیں ۔کچھ مرد نما کے کانوں میں ہم نے بالیاں دیکھی ہیں ۔ علاوہ ازیں بعض حضرات لمبے بال رکھ کر خواتین کی برابری کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو فیس بک آئی ڈی خواتین کے نام پر رکھ کر بھی اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اب تک ہمارے علم میں نہیں کہ کسی کے قدموں تلے جنت کا ظہور ہوا ہو ۔
کسی شاعر کا فرمانا ہے ‘ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی’ شاید یہی وجہ ہے مردوں کے لئے بظاہر کوئی زیور نہیں ہے۔ بس انھیں چاندی استعمال کرنے کی اجازت ہے اور وہ اسی پر خوشی ہیں کہ کم از کم نام تو تانیث میں ہے زیور کا۔تاہم قدرت نے مردوں کو بھی زیورات سے کلی محروم نہیں کیا بلکہ ان کو بھی کچھ زیورات اپنی عطا سے عنایت کیے ہیں۔ ان کا ذکر ذیل میں ہے۔
توند:
دنیا میں کھانے کے حساب سے دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک منہ چوہا پیٹ کھوا اور دوسرے وہ جو ہوا بھی کھا لیں تو وزن بڑھ جاتا ہے۔
ایک توایسے جیسے ہینگر پر کپڑے لٹکے ہوں اور دوسروں کا لباس بھی ایسا محسوس ہوتا جیسے سرہانے پر اس کا کور ڈالا گیا ہو۔ اکثر توند کا زیور مرد کو شادی کے بعد ملتا ہے۔ ممکن ہے بیگم جہیز کے ساتھ لاتی ہو۔شاید لڑکیوں کو میکے میں بتایا جاتا ہو کہ فربہ لوگ ثابت قدم ہوتے ہیں۔فربہ محبوب عاشق کو چھوڑ کر نہیں بھاگ سکتا اور فربہ فوجی میدان جنگ میں ثابت قدم رہتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر صاحب ہیں ۔ ہماری ان سے کافی بے تکلفی ہے۔وزن ان کا کافی زیادہ ہے اور ایک مرتبہ ہمیں محسوس ہوا کہ توند مزید نکل آئی ہے تو ان سے عرض کی کہ سر کوئی ورزش کریں جم جائیں پیٹ کافی نکل آیا ہے آپ کا تو فرمانے لگے کہ زبان کی طرح پیٹ بھی مرد کا ہے۔ایک مرتبہ باہر آ گیا اب دوبارہ اندر نہیں جائے گا ۔ احمد فراز کا مشہورِ زمانہ شعر جسے لوگ عشقیہ سمجھ کر خوش ہوتے ہیں وہ دراصل ڈاکٹر صاحب کے اسی بیان کی تصدیق کے لئے ہے
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ لوٹا میری بات مان جاؤ
توند والے آدمی کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ اس سے گلے ملنے سے پہلے پیٹ ملنا پڑتا ہے۔خود ہمارا وزن بھی شادی کے بعد ہی بڑھا بلکہ پاکستان میں تو ہم لودھی جیسے دبلے پتلے تھے۔ یہ وزن اور پیٹ والا معاملہ بھی سعودی عرب کی ہی دین ہے۔ہم اس کا الزام اپنی بیگم پر ہی لگاتے ہیں کہ شادی سے پہلے ہم ایسے تھوڑی تھے۔ اب توند کا جو بھی معاملہ ہے اس کی ذمہ دار بیگم ہے۔
ٹنڈ:
یہ دوسرا زیور ہے جس سےقدرت نے مردوں کو ودیعت کیا ہے۔ ٹنڈ کو گنج بھی کہا جاتا ہے اور گنج کا مطلب ہے خزانہ۔ یہ بات بھی غلط نہیں ہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک پیشہ ور افراد کا گنج ہی گنج کی ضمانت ہوتا تھا یعنی کچھ نام بننے و پیسہ آنے تک بال سر سے جھڑ چکے ہوتے تھے۔ اب البتہ معاملہ دیگر ہے۔ اب محنت اور ثابت قدمی کی جگہ تعلقات، اختیارات و شارٹ کٹ نے لے لی ہے۔
ٹنڈ جب سورج کی روشنی میں چمکتی ہے تو سونے جیسا ہی نظارا دیتی ہے۔ ٹنڈ والے مردوں کی خواتین چاہیں تو اسے دیکھ کر خوش ہو سکتی ہیں ۔ لتا کا تو شاید ایک گانا بھی ہے جس کے بول تھے ” ٹنڈیا چمکے گی”۔ ٹنڈ کا فائدہ یہ ہے کہ شادی کے بعد غصے میں بیگم میاں کے بال نہیں کھینچ سکتی۔ مزید بھی کئی فوائد ہیں۔ سخت مرچوں والے کھانے کھائیں تو انھیں غصے میں اپنی شکایت لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ ٹنڈ پر سے پسینہ بہہ کر جب ماتھے کے سرتے نیچے گرتا ہے تو وہ اندرونی خلفشار کا عکاس ہوتا ہے۔سخت ہوا و آندھی میں بھی ان کے بال نہیں اڑتے۔ خشکی کے مسئلے سے ٹنڈ والا انسان ناواقف ہوتا ہے۔ پورے گھر میں بھی جوئیں ہوں تو اس کو کوئی ٹینشن نہیں ہوتی۔ اس مہنگائی کے دور میں اسے کنگھی کی ضرورت نہ جوئیں مار شیمپوؤں کی۔ان کاروباروں سے منسلک افراد کو صاحبِ ٹنڈ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
ہمارے سندھی بھائیوں کو تو ٹنڈ اتنی پسند ہے کہ شہروں کے نام بھی ٹنڈ پر رکھے ہیں۔ یہ جو اب ٹَنڈو ہے یہ اصل میں ٹِنڈُو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ٹنڈو آدم ، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو اللہ یار۔ یقیناً ان بزرگوں کی ٹنڈوں نے نئے رجحانات متعارف کروائے ہوں گے۔
خراٹے:
خراٹے بھی مرد کا زیور ہیں۔یہ ایک ایسی موسیقی ہے جو بجانے والاخود نہیں سن سکتا۔خراٹےو کراٹے میں چنداں فرق نہیں۔کراٹے کی مدد سے مخالف کے حملوں سے دفاع کیا جاتا ہے اور موقع ملنے پر اسے ضرب لگائی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح خراٹوں سے مخالف کی زبان کا توڑ کیا جاتا ہے اور مخالف کے اعصاب پر ضرب لگانے کا کام لیا جاتا ہے۔خراٹے بھی بھلا کوئی کام ہیں۔ یہ تومرد سوتے میں بھی کر سکتے ہیں۔ جدید دور کی ایجادات کی بدولت خراٹے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ کان میں ہیڈ فون لگا کر۔
مونچھ:
مونچھیں ناک و منہ کے درمیان قدرتی حد ہیں۔ہمارے علاقے میں تو مونچھ کو مرد و زن میں تخصیص کا پیمانہ سمجھا جاتاہے اور مونچھ مرد کا زیور تصور کی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ مُچھ نہیں تے کچھ نہیں ۔ ہمارے ایک سابق سربراہ کی مونچھ بڑی مشہور تھی۔ اس کے علاوہ ہٹلر اور استاد امانت علی خان مرحوم کی مونچھیں بھی ناک کو انتہائی مہارت سے انڈر لائن کرتی تھیں۔
ایک زیورتعلیم کا بھی ہوتا ہے۔ یہ واحد زیور ہے جو والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو بخوشی دینا چاہتی ہے مگر بچوں کو اس زیور سے قطعاً رغبت نہیں ہوتی۔
تحریر پڑھتے ہوئے اکثر احباب سوچ رہے ہوں گے کہ یہ زیور تو کافی عمر کے بعد ملتے ہیں۔بالکل ایسا ہی ہے کیونکہ بچوں سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ زیور سنبھالیں۔ آج کل بچوں کے پاس سنبھالنے کے لئے اور بہت کچھ ہوتا ہے تو قدرت نے بھی بچوں پر رحم کھایا ہے اور انھیں ایسے زیورات سے دور رکھا ہے۔ لڑکیوں کو بھی اصلی زیورات تو اکثر دلہن بننے پر ہی ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مردوں کے زیورا ت کو خواتین کے زیوارات سے یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ انھیں چوری اور ڈاکے کا ڈر نہیں ہوتا ۔ انھیں چھپانا نہیں پڑتا تاہم آج کل کچھ لوگ توند اور ٹنڈ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو شریکوں کی نظر نہ لگے۔