تحریر: ابنِ ریاض
وہ بیشتر پاکستانیوں اور ایشیائی شائقین کا پسندیدہ کرکٹر کبھی نہیں رہا۔ دنیا اس کی بالنگ کی معترف تھی مگر اس کی آف فیلڈ حرکات کی وجہ سے اسے ناپسند بھی کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستانیوں کے ناپسند کرنے کی بڑی وجہ پاکستان کے خلاف اس کا شاندار ریکارڈ بھی تھا۔ وہ جب بھی آتا پاکستان کے منجھے ہوئے اور اکثر سیٹ بلے باز آؤٹ کر کے چلا جاتا۔ سعید انور، عامر سہیل، اعجاز، انضمام یوسف کوئی بھی اس کے سامنے نہ ٹھہر پاتا۔ اگر کسی پاکستانی کے خلاف اس کا جادو نہ چلا تو وہ سلیم ملک تھا۔
اسے خبروں میں رہنے کا گر آتا تھا۔ زندگی بھر اپنے شاندار کھیل کے باعث خبروں میں رہا۔ جب فارم میں اونچ نیچ آئی یا کرکٹ کم ہوئی( کہ نوے کی دہائی میں بین الاقوامی کرکٹ آج سے بہت کم تھی) تو کوئی ایسی حرکت کر ڈالی کہ دوبارہ خبروں کی زینت بن گیا۔ کبھی پچ کی معلومات جواریوں کو دینے پر جرمانہ ہوا تو کبھی غیر ممنوعہ ادویات کے استعمال پر پابندی لگی۔ کبھی گھریلو جھگڑوں کے باعث خبروں میں رہا۔ غرض اس کی پوری زندگی ایک خبر تھی۔
بات ہو رہی ہے شین وارن کی۔ کرکٹ کی دنیا کا عظیم ترین لیگ اسپنر۔ لیگ اسپن کا فن رجی نینوڈ کے بعد معدوم ہو چکا تھا کہ عبدالقادر نے اسی کی دہائی میں اپنی ساحرانہ بالنگ سے اسے زندہ رکھا تاہم نوے کی دہائی میں آنے والے شین وارن نے اسے نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اب یہ فن شین وارن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
شین وارن کے کارناموں پر کیا بات کی جائے؟آپ سب جانتے ہیں۔ ایک ہزار بین الاقوامی وکٹیں شین وارن کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب وہ ٹیم میں آیا تو اس وقت عالمی کرکٹ پر کالی آندھی کی اجارہ داری تھی۔لیکن چند ہی برسوں میں کرکٹ کی حکمرانی کا تاج آسٹریلیا کے سر پر سج چکا تھا۔ اس کا دور آسٹریلیا کی کرکٹ کا سنہرا ترین دور کہلاتا ہے اور اس سنہرے دور میں اس کا حصہ کسی سے کم نہ تھا۔ ویسٹ انڈیز کو ہرانا ہو، جنوبی افریقہ کو زیر کرنا ہو، انگلینڈ کو ایشز میں شکست دینی ہو یا نیوزی لینڈ کو دھول چٹانی ہو ہر جگہ آسٹریلیا کا ٹرمپ کارڈ شین وارن ہی تھا۔ یہ ممالک ایک دو عشرے قبل آسٹریلیا زیر کیا کرتا تھا مگر شین وانرن کے آنے کے بعد ا س میں تسلسل آ گیا۔ سب سے اہم بات کہ شین وارن کی آمد کے بعد آسٹریلیا ایشیائی حالات میں بھی ایک طاقتور قوت بن کر ابھرا۔ شین وارن نے اگرچہ بھارت میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی مگر پاکستان اور سری لنکا میں اس کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی۔ اس کے ہم عصروں میں مشتاق احمد، انیل کمبلے، پال سٹرینک اور ایڈم ہکل شامل تھے مگر وہ ان سب سے کہیں بلند و بالا تھا۔مشتاق کی بین الاقوامی کرکٹ میں وکٹیں شاید چار سو کے لگ بھگ ہیں۔ انیل کمبلے وکٹون کی تعداد کے لحاظ سے شین وارن کے قریب پہنچتا ضرور ہے مگر اس کی زیادہ تر وکٹیں بھارت کی سلو وکٹوں پر اپنے امپائرز کے ساتھ ہیں۔ جبکہ شین وارن کی جادوگری بھارت کے علاوہ دنیا میں ہر مقام پر ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ آسٹریلیا میں اس کی تین سو سے زائد وکٹیں ہیں۔یعنی وہ ممالک جہاں ہر لیگ اسپنر نے مار کھائی شین وارن نے انھی تیز وکٹون پر اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔
شین وارن جہاں ہوتے وہیں مرکزِ نگاہ بن جاتے۔ شین وارن سے پہلے کبھی کسی نے اسٹریلین وکٹوں پر تیز بولروں پر پہلی سلپ میں کسی بالر کو کھڑے ہوتے دیکھا تھا۔ جنوبی اافریقہ کے جیک کیلس ذہن میں آتے ہین مگر وہ مکمل بالر نہیں بلکہ بیٹنگ آل راؤنڈر تھے جو بوقت ضرورت بالنگ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتنے ہی کیچز وارن نےڈائیو لگا کر پکڑے۔ ایک سو پچیس کیچ ان کے ایک عمدہ فیلڈر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
نوے کی دہائی نے کرکٹ کو انتہائی اعلٰی معیار کے گیند باز دیئے۔ پاکستان، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے پاس اعلٰی و عالمی معیار کے گیند باز تھے۔ تاہم شین وارن کے علاوہ سب تیز رفتار بالر تھے۔ وارن ان میں واحد اسپنر و میچ ونر تھے۔ دوسری خسوصیت ان کا جارحانہ پن تھا۔ اسپن بالرز ہونے کے باوجود ان کے اندر ایک تیز رفتار گیند والا جارحانہ پن تھا۔
بڑے میچ اور بڑی سٹیج کے کھلاڑی تھے۔ عالمی کپ کے دو سیمی فائنلز اور ایک فائنل میں میچ کا بہتریں کھلاڑی ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں 1992 میں ایک مشکل میچ جیتنا اور پھر پاکستان میں 1994 میں کراچی ٹیسٹ جو وارن نے قریب قریب آسٹریلیا کو جتوا دیا تھا مگر ہیلی گیند نہ پکڑ پائے اور بازی پلٹ گئی۔
وارن نچلے نمبروں کے عمدہ بلے باز بھی تھے۔ وہ بغیر سینچری کے تین ہزار رنز بنانے والے شاید واحد بلے باز ہیں۔ کتنے ہی میچوں میں ان کی بلے بازی کا اہم کردار رہا۔ پاکستان پر آسٹریلیا کا غلبہ بھی شین وارن کی بلے بازی کی بدولت ہے۔ 1999ء کی سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کے جواب میں آسٹریلیا کی برتری ایک سو بائیس رنز تھی اور اس کے نو کھلاڑی آؤٹ تھے۔ آخری وکٹ کے ساتھ شین وارن نے چھیاسی رنز جوڑے۔ شین وارن کا ذاتی سکور بھی چھیاسی ہی رہا۔ رنز کے علاوہ رنز بنانےکی رفتار بھی اتنی تیز تھی کہ ایک گھنٹے بعد برتری سوا سو سے نکل کے دو سو کا ہندسہ عبور کر چکی تھی اور یوں آسٹریلیا کے ہارنے کے امکانات ختم ہو گئے۔ ظاہر ہے پھر آسٹریلیا نے پاکستان کو قریب ایک ڈرا ٹیسٹ ہرا دیا اور اس کے بعد اب تیرہ ٹیسٹ گزر چکے ہیں لیکن پاکستان آسٹریلیا میں ڈرا کو بھی ترس رہا ہے۔
شین وارن سے قبل لیگ اسپنرز کے متعلق یہ رائے تھی کہ یہ وکٹ ٹیکنگ تو ہوتے ہیں لیکن رنز بہت دیتے ہیں۔ وارن نے اس کو بھی غلط کر دکھایا۔ کیریئر کے بہترین سالون میں وارن کے فی اوور رنز کی اوسط دو رنز سے بھی کم تھی۔ ون ڈے میچوں میں سوا چار رنز فی اوور کا کیریئر ریکارڈ ان کے گیند پر قابو کی گواہی دے رہا ہے۔ جب ہم وارن کو بالنگ کرتے دیکھتے تھے تو سوچتے تھے کہ اس کی گیند پر اگلا رنز بنے گا کہاں سے ؟ وہ لمبے لمبے اسپیل کرا کر ایک اینڈ سے نہ صرف رنز روکتے اور وکٹیں لیتے بلکہ فاسٹ بالرز کو بھی آرام کا موقع فراہم کرتے کیوں کہ ایک ہی اینڈ سے فاسٹ بالرز باری باری گیند بازی کرتے۔
شین وارن نہ صرف نوے کے عشرے کے بالروں میں جداگانہ حیثیت رکھتے تھے بلکہ اپنی ستاروں سے بھری ٹیم جس میں ٹیلر، سلیٹر،لینگر ، ہیڈن، پونٹنگ ، وا برادرز میکگراٹھ، گلکرسٹ،ہیلی اور بریٹ لی جیسے کھلاڑیوں میں بھی سب سے نمایاں و منفرد نظر آتے تھے۔ ۔ بلاشبہ وہ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند تھے جن کی چمک دمک سے دیگر ماند پڑ جاتے تھے۔ وہ نہ صرف آسٹریلیا کی ہمہ وقت گیارہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم میں شامل تھے بلکہ پچھلی صدی کے پانچ بہترین کرکٹرز میں بھی ان کا شمار تھا۔ اس سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈان بریڈ مین کے بعد آسٹریلیا نے بلکہ کرکٹ نے اپنا دوسرا بہترین کھلاڑی گنوایا ہے۔ ؎وکٹوریہ نے ان کی ریاستی تدفین کی پیشکش کی ہے تو یہ اس کھلاڑی کا حق ہے جس نے کرکٹ کو ایک نئی جہت دی۔ جس نے لیگ سپن کو ایک قوت کے طور پر متعارف کروایا۔یاد رہے کہ کرکٹرز بے شمار آئے ہیں۔ شاندار بلے باز اور تیز و آہستہ گیند باز ہر ملک سے آپ کو کئی مل جائیں گے لیکن پوری تاریخ میں اچھے لیگ اسپنرز آپ ہاتھوں کی انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ اور شین وارن باقی لیگ اسپنرز سے اتنا ہی اوپر ہے جتنا بریڈ مین باقی بلے بازوں سے۔
شین وارن کی وفات سے نوے اور دو ہزار کے عشروں میں کرکٹ دیکھنے والے شائقین کی یادوں کا ایک خوبصورت حصہ بھی وفات پا گیا ہے۔ کل کرکٹ شائقیں کے لئے ایک یادگار دن تھا کہ قریب ربع صدی بعد آسٹریلوی ٹیم پاکستان میں کرکٹ میچ کھیل رہی تھی تو چند ہی سو کلومیٹر دور بھارت میں اس وقت کے سب سے بڑے کرکٹر کا سوواں میچ چل رہا تھا۔شین وارن ہمیشہ خبروں کی سرخی بنا کرتے تھے اور تقدیر کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کی وفات کی سرخی عام ہو۔ چنانجہ آپ دیکھ لیں کہ دونوں میچ گہنا گئے ہیں اور وارن کا غم ان دونوں میچز پر بھاری پڑ گیا۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ ہیرو ہمیشہ جوابی کی موت مرتے ہیں اور بلاشبہ وارن لاکھون لوگوں کا ہیرو تھا۔ باقی رہے نام اللہ کا