تحریر: ابنِ ریاض
لڑکپن میں ہمیں ایک لطیفہ سنایا جاتا تھا کہ روس کا ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ واپسی سے پہلے ان سے صحافیوں نے پوچھا کہ پاکستان کو آپ نے کیسا پایا؟ وفد کے سربراہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ ہم لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے۔ تاہم پاکستان کے دورے کے دوران بارہا ہمیں محسوس ہوا ہے کہ کوئی خدا موجود ہے تبھی یہ ملک چل رہا ہے ورنہ اعلٰی عہدیدار سے لے کر چپڑاسی تک ہر کوئی بقدر جثہ اس ملک کو کھانے میں لگا ہوا ہے۔ اس وقت یہ بات لطیفہ محسوس ہوتی تھی تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوا کہ یہ ہمارا رب پر توکل ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام اور اللہ کے نام پر بنا تھا۔ سو اللہ کا نام اور اللہ کا سہارا مسلمان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اسی ایمان کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے پچہتر سال بعد ہماری ہر چیز اللہ کے سہارے ہی چل رہی ہے چاہے وہ معیشت ہو، کرکٹ میچ ہو یا دفاع۔ ہم دنیا میں ایاک نستعین کی بہترین مثال ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم ہو یا ادارے جب تک ہمارا خون کسی معاملے میں خشک نہ کر لیں انھیں چین ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے عوام رو رو کر اتنی دعائیں کرتی ہے تو اس کا کچھ ثواب تو درج بالا ذمہ داران کو بھی پہنچتا ہو گا۔ اگر وہ ہر کام قاعدے قانون اور سکون سے کریں تو خوشی میں تو اکثر انسان اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔
ہم ہر کام اللہ کا نام لے کر کرنے والی قوم ہیں۔ کچھ لوگوں نے لاہوریوں کو گدھے و مینڈک بھی کھلائے تھے۔ یقیناً پہلے اللہ کانام لے کر حلال کیا ہو گا ان جانوروں کو اور ان کا گوشت پکانے والے نے بھی اللہ کا نام لے کر سالن شروع کیا ہو گا۔ گوالے بھی پانی میں دودھ ملانے سے پہلے اللہ کا نام لیتے ہیں۔ رشوت یعنی تحفہ بھی اللہ کا نام لے کر دیا اور لیا جاتا ہے۔ بچوں کے امتحان تو شروع ہی اللہ کے نام سے ہوتے ہیں۔ بچوں کے پیپر ختم ہونے تک گھر والے اللہ اللہ ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ خود طلباء کا امتحانات کے بعد نتیجہ آنے تک زیادہ وقت اللہ اللہ کرتے ہی گزرتا ہے۔ جو طالب علم کلاس میں جتنا پیچھے بیٹھا ہو اس کا اللہ پر توکل اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلاس میں آخری صف میں بیٹھنے والے اکثر نتیجے والے روز مسجد کی پہلی صف میں پائے جاتے ہیں۔
حقوق العباد کا جو قوم اللہ کے نام پر آغاز کرتی ہو گی حقوق اللہ کے معاملے میں کیسے کوتاہی کر سکتی ہے۔ ہم پاکستانی حج و عمرہ ادا کرنے میں اور صدقہ و خیرات میں دنیا میں ابتدائی نمبروں پر ہیں۔ ہماری مساجد بھی نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں بالخصوص رمضان میں۔ اللہ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ گھر کیسے ہی پیسے سے کیوں نہ بنا ہو اس کی جبیں پر "ھذا من فضلِ ربی” ضرور لکھتے ہیں۔
ہمارے قومی شاعر نے مسلمانوں کو شاہین کہا اور ان کا مسکن پہاڑوں کی چوٹیوں کو قرار دیا۔
نہیں ہے تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
یعنی اقبال نے آئندہ دور کے مسلمانوں کے لئے مشکل زندگی کی پیشین گوئی کی تاکہ وہ تن آسان نہ ہوں۔ سستی و کاہلی ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اب تصورِ پاکستان کے فلسفے سے روگردانی کی جرات تو کوئی بھی حکومت نہیں کر سکتی۔
حکومتیں اسی ملی جذبے کے تحت کوششیں کرتی ہیں کہ عوام کو پہاڑوں پر منتقل کیا جائے۔ قدرت نے بھی پاکستان کو بہترین پہاڑوں سے نوازا ہے ۔چونکہ حکومتی وسائل اس وقت ایسے نہیں کہ سب کو بیک وقت پہاڑوں پر منتقل کیا جائے تو زمین پر ہی ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ رہنے والوں کو محسوس ہو کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر موجود ہیں۔
اللہ والوں میں ایک اور اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ بری باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔غیبت بھی بری عادت ہے بلکہ غیبت کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔چنانجہ ہر حکومت کوشش کرتی ہے کہ کسی حکومت کی پیٹھ پیچھے برائی نہ ہو۔ وہ اللہ کی رضا کے لئے ایسے اقدامات کرتی ہے کہ پچھلی حکومت اپنے بے شمار عیبوں کے باوجود فرشتہ لگنے لگتی ہے۔ وقتِ موجود کا حاکم ہی ہر برائی کی جڑ دکھائی دیتا ہے اور اسی کو برا بھلا کہاجاتاہے۔ اس عمل سے جانے والے اور موجودہ دونوں کے درجات بہتر ہوتے ہیں۔
مسلمان ہر کسی کا بھلا چاہتا ہے۔ ہم اپنی ذات کا نہیں سوچتے بلکہ پورے عالم کا سوچتے ہیں۔ ہم نے ہی افغانیوں کو لڑنے کی تربیت دی۔ وہ چالیس برس تک لڑتے رہے۔ جب ان کا کوئی حریف نہ رہا تو ہم نے انھیں اپنا دشمن بنا لیا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ہمارے ہمسایہ ملک کے شہری آپس میں نہ لڑیں چنانچہ ہم نے اپنا ملک پیش کر دیا۔ ان کے جنگجوؤں کو آزاد کیا ، کچھ کو جیل سے بھاگنے میں مدد کی تا کہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کو شہادت کے عہدے پر فائز کریں۔ اللہ کا کرم ہے کہ افغانی بھائیوں نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔ حکومت نے اس کے علاوہ بھی شہادت کو عام کر دیا ہے۔ سڑک حادثے میں مرنے والے، کسی کی گولی سے مرنے والے ، کسی بیماری سے مرنے والے، ڈاکٹر کی خطا سے مرنے والے، جھوٹے مقدمے میں سزا پانے والے الغرض جو بھی طوہاً و کرھاً مر جائے اسے شہادت کا سرٹیفیکیٹ حکومت بلا معاوضہ عطا کرتی ہے۔ اس سے مرنے والے کے لواحقین کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فرد مرا نہیں ہے کیونکہ یہ تو اللہ کا وعدہ ہے کہ شہید زندہ ہے۔ اب زندہ شخص کے لئے انصاف طلب کرنا چہ معنی دارد؟ اس سے حکومتی اداروں پر سے کام کا بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے۔عدالتوں کو بھی اپنی ایک سو چھتیسویں پوزیشن برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔یہ پوزیشن ہماری شناخت ہے اور ہماری عدلیہ نے بڑی محنت سے حاصل کی ہے۔
ہم اپنے وسائل پر توکل کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں لیکن ہمیں ذات سے پڑھ کر سوچنا ہے اور دوسروں کے لئے بھی نیکی کا موقع فراہم کرنا ہے سو ہم ہر ملک سے قرض لیتے ہیں۔ اس سے مسلمان ملکوں کو قرض دینے کا ثواب ملتا ہے اور کافر ملکوں کو دنیا میں زیادہ عزت ملتی ہے۔ سو ہم قرض بھی اپنے لئے نہیں بلکہ دنیا کے بھلے کے لئے لیتے ہیں۔
سطحی مذاق کے لوگ ہر بات پر اعتراض کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی نظام ہے اور نہ ہی یہاں ایماندار لوگ رہتے ہیں۔ انھیں ہر ادارہ و ہر شخص بدعنوان دکھائی دیتا ہے جبکہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے ادارے و افراد اپنی نیک نامی و شہرت تک کو داؤ پر لگا کے بڑے مقاصد میں مصروف عمل ہوتے ہیں کیونکہ بڑے اعمال قربانی بھی بڑی مانگتے ہیں ۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مارچ 17th, 2023
زمرہ: طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Allama Iqbal, Government, humor, iqbal, Mountains, Pakistan, Russia