تحریر: ابنِ ریاض
تاریخ عام معنوں میں سالوں ، مہینوں ، دنوں یا عام لفظوں میں وقت یا زندگی کے اعداد و شمار کا حساب رکھنا ہے۔ اردو میں تاریخ دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اول الذکر تو درج بالا ہے جبکہ آخر الذکر تاریخی واقعات و حوالہ جات کے معنوں میں جسے انگریزی میں ہسٹری کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اول الذکر تاریخ کے لئے ڈیٹ کا لفظ ہے۔ اس کے بھی دو معنی ہیں۔ دوسرا معنی لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سب ہی سمجھدار ہیں سو پہلے معنی پر ہی گزارا کریں۔
تاریخ کے طالب علم کے لئے ہر تاریخ اہم ہوتی ہے اور وہ اس دن کے حساب سے ماضی کے واقعات کو دہراتا ہے۔ کھیل کے شائقین کو اہم میچوں کی تاریخ اور آنے والے ٹورنامنٹوں کی تاریخیں یاد ہوتی ہیں۔ طالب علموں کے لئے پرچوں کی تاریخیں یاد رکھنا اہم ہوتا ہے اور چھٹیوں کی تواریخ تو انھیں از خود یاد ہوتی ہیں۔ نوکری پیشہ افراد کے لئے مہینے کی پہلی تاریخ سب سے اہم ہوتی ہے اور وہ اسے ہی یاد کرتے رہتے ہیں۔ غیر شادی شدہ نوکری پیشہ لوگ سالانہ تعطیلات و ہفتہ وار تعطیلات جمع کر کے لمبی چھٹی بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ شادی شدہ افراد کے لئے شادی کی سالگرہ و بیگم کی سالگرہ کی تاریخ یاد رکھنا یکم کو یاد رکھنے سے بھی کہیں زیادہ اہم بصورت دیگر اس کی اپنی تاریخ مسخ ہو سکتی ہے۔
سعودی عرب میں نوکری کے حصول کی خواہش مکہ و مدینہ کی زیارت کے علاوہ اس وجہ سے بھی تھی کہ اس ملک میں رہ کر ہم اسلامی تاریخ یا کہہ لیں کہ کیلنڈر سے واقف ہو جائیں گے جس کا ماہِ رمضان، عیدین، محرم اور بارہ ربیع الاول کے علاوہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں اس وقت اسلامی تاریخ کے حساب سے ہی سارے کام ہوتے تھے۔ ہماری آمد کے پانچ سال تک بعد تک ایسا ہی چلا۔ یعنی ہمیں تنخواہ بھی اسلامی مدینے کے حساب سے ملا کرتی تھی سو مہینے کا نام معلوم ہو نہ ہو تاریخ ہمیں ازبر رہتی تھی تاکہ مہینے کی پچیس ہو اور ہم اپنی محبوب تنخواہ کا دیدار کر سکیں۔ہم دن گن گن کر گزارتے تھے اور ہمیں انگریزی کیلنڈر سے ایک تنخواہ زیادہ بھی ملی۔ دوسری بھی مل جاتی اگر ایک سال مزید یہ اسلامی کیلنڈر چلتا رہتا مگر سعودی جاگ گئے اور انھوں نے ہمیں اسلامی تاریخ سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تنخواہ عربی کیلنڈر سے ہٹا کر انگریزی کے ساتھ نتھی کر دی۔ اس ظلم کا بدلہ اللہ ان سے لے گا۔
ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ۔ چلیں تنخواہ دنیا کے برابر آ گئی ہے مگر جب تنخواہ کو انگریزی کیلنڈر کے ساتھ منسلک کیا ہے تو باقی واجبات کو بھی اسی کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے۔ اقامہ(شناختی کارڈ)، استمارہ(گاڑی کا اندراج)، رخصہ قیادۃ( ڈرائیونگ لائسنس)، گاڑی کا فحص( سالانہ معائنہ) یہ سب عربی مہینوں کے ساتھ ہی منسلک ہیں اور ہمارے ہوش اڑانے کے لئے ہر برس دس پہلے وقوع پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں ہمارا عقاری( پراپرٹی ڈیلر) بھی سالانہ کرایہ عربی تاریخوں کے حساب سے وصول کرتا ہے۔ سو جان لیجیے کہ تین سال بعد ہر چیز ایک ماہ پہلے آ جاتی ہے۔ ایک تنخواہ زائد دے کر ہم سے کتنا کچھ وصول کر چکے ہیں یہ عربی، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجیے۔ ہم ایویں ہی عربیوں کو دیالو اور سخی سمجھتے رہتے ہیں اور جب بھی ملک پر مشکل وقت پڑے ان کی طرف دیکھتے ہیں کہ کر بھلا ہو بھلا لیکن ان کا وصول کرنا بھی دیکھ لیں ہمارے حکمران۔
رویتِ ہلال کمیٹی کی بنا پر اسلامی تاریخ ہمیشہ سے مشتبہ رہی ہے۔ ہم چونکہ سیاست، معیشت، کھیل، مذہب غرض دنیا کے ہرمعاملے کے ماہر ہیں تو ہمیں ہر کسی کی کارکردگی میں نقص نظر آتا ہے۔ مستزاد رویتِ ہلال میں ایسے بزرگ علماء کہ جن کے متعلق انور مقصود صاحب فرماتے ہیں کہ وہ چراغ تلے اندھیرا کی بہترین مثال ہیں۔ کبھی کبھی چاند وہ اس وقت نکالتے ہیں جب چاند اپنا چکر پورا کرکے سو بھی گیا ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک واقعہ ہے کہ ایوب دور میں لوگوں نے چاند دیکھا اور انھیں نہ دکھائی دیا۔ اس زمانے میں ذرائع مواصلات بھی اتنے اچھے نہ تھے اور لوگ بھی جلدی سونے کے عادی تھے۔ عشاء کے بعد مولوی صاحب نے حکم دیا کہ کل روزہ رکھا جائے۔پورے گاؤں نے روزہ رکھا۔ ان وقتوں میں ریڈیو نشریات بھی چوبیس گھنٹے نہیں ہوتی تھیں۔ دن چڑھے کسی نے ریڈیو لگایا تو وہاں عید کی مبارک بادیں دی جا رہی تھیں۔ انھوں نے مولوی صاحب کو بتایا۔ مولوی صاحب نے بندہ قریبی گاؤں وہاں کےمولوی صاحب سے مشورہ کرنے کے لئے بھیجا کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے کیونکہ گاؤں میں تو چاند دکھا نہیں۔مشورہ دینے والے نے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے تو عید مناؤ۔ اس کے ذمے دار وہ لوگ خود ہوں گے تو ان مولوی صاحب نے پیغام ملنے کے بعد اعلان کیا کہ سب لوگ روزہ توڑ دیں اور عید کریں۔
انگریزی کیلنڈر سورج پر منحصر ہے اور سورج صدیوں سے بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے ایک مستقل اکائی ہے اور اس کا تغیر و تبدل بھی مستقل ہے جبکہ اسلامی کیلنڈر چاند دکھائی دینے پر منحصر ہے۔ چاند کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر کسی کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چاند محبوب کی طرح متلون مزاج بھی ہوتا ہے۔ ابتدا میں تھوڑا سا دیدار کرواتا ہے اور عاشقوں کو تڑپاتا ہے۔ پھر کبھی انتیس دن میں چکر پورا کرتا ہے تو کبھی تیس میں لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہونے دیا کہ کب انتیس کا چکر ہو گا اور کب تیس کا۔سعودی عرب والے یوں تو وقت کے حساب سے سارا سال پاکستان سے دو گھنٹے پیچھے رہتےہیں لیکن تہوار منانے میں وہ سبقت لے جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی طالب علم آخری رات کو پرچے کی تیاری کرے اور نتیجہ آئے تو باقاعدگی سے پڑھنے والے طالب علم سے اس کے نمبر زیادہ اور پوزیشن بہتر ہو۔ اس مرتبہ سعودی عرب والوں والے حیرت میں ہیں کہ یہ کیا ہوا ‘کیسے ہوا ‘کیوں ہوا؟ کیا معلوم کل وہ پیسے دینے سے پہلے شرط لگا دیں کہ ہم سے قبل چاند نہ نکالنے کا وعدہ کرو پہلے پھر قرض کی بات کرنا ۔
حکومت کے ہر کام سے اختلاف بھی ہماری سرشت ہے۔ رویت ہلال بھی تو حکومتی ادارہ ہے ۔ رویتِ ہلال کے چاند سے پہلے ہی پشاور میں مفتی پوپلزئی اپنا چاند دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ پوپلزئی کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید مناتے ہیں تو کچھ لوگ رویت ہلال کے ساتھ۔ ایک آدھ مرتبہ کچھ ایسے لوگ بھی معلوم ہوئے وہ جو نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے۔ انھوں نے دونوں سے الگ روزہ و عید منا کر” ہر رات شب برات اور ہر روز روزِ عید” والا محاورہ سچ کر دیا۔
ہمارے بزرگ اپنی بات چیت میں ہندی کیلنڈر بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ فصلوں اور موسموں کا ذکر ہندی مہینوں کا نام لے کر کرتے ہیں۔ مثلاً برسات کو ساون بھادوں کے مہینے کہا جاتا ہے۔ہندی کیلنڈر سے ہمیں اتنی ہی چڑ ہے جتنی ہم پاکستانیوں کو ہندوؤں کے ساتھ ہے کیونکہ جب ہم دو عشرے قبل سیف گیمز کوئز مقابلے میں گئے تھے تو توثیق حیدر نے ہم سے کسی ہندی مہینے کا کیلنڈر میں نمبر پوچھا تھا اور جواب سن کر ہمیں امتیازی نمبروں سے فیل کر کے باہر کی راہ دکھائی تھی۔اس روز کے بعد کوئی ہندی مہینوں کا ذکر کرے تو ہم ایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے حکومتیں عوامی فلاح کو کرتی ہیں۔
اُدھر ہسٹری والی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ الگ الجھا دیتی ہے۔ تاریخ کو ہر لکھنے والا اپنی خواہشات و مفادات کے عدسے سے دیکھ کر لکھتا ہے۔قائد اعظم پاکستانیوں کے ہیرو ہیں تو سرحد پار والوں کے غدار۔ ہمارے نزدیک 1965ء کی جنگ بھارت نے شروع کی تو ان کے نزدیک ہم نے۔ ہماری تاریخ کے مطابق اسلام مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے پھیلا تو غیر مسلموں کے مطابق بزورِ شمشیر ۔ غرض تاریخ پڑھتے جائیں اور خود کو الجھاتے جائیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب سماجی میڈیا ایپس کی بدولت نئی نسل کو تاریخ پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ انھیں جو کچھ بتایا جائے وہ یقین کر لیتے ہیں تحقیق کی زحمت ہی نہیں کرتے ۔