جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول

    تحریر: ابنِ ریاض

    سرحدیں جغرافیائی ہوتی ہیں یا پھر سماجی و معاشرتی۔ تاہم فن سرحدوں میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ کتنے ہی بے شمار لوگ ہیں جو اپنے فن کے باعث سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں بعض تو موت کی سرحد پار کرنے کے باوجود زندہ ہیں۔ جیسے بین الاقوامی سیاست دان ، کھلاڑی، فنکار و اداکار، سیاستدان و دیگر کئی شعبوں کے ماہرین فن۔

    انھی شعبوں میں اک شعبہ موسیقی و گلوکاری کا بھی ہے۔ اچھی موسیقی کو سرحدوں تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے نصرت فتح علی خان کی قوالیوں پر انگریزوں کو جھومتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ مائیکل جیکسن ہماارے زمانے میں قریب قریب گھریلو نام تھا اور پاکستان میں بھی ہر چوتھا پانچواں شخص اسے جانتا تھا۔  اب کوئین گلوکاروں اور شکیرا کا دور ہے۔ نئی نسل انھیں سنتی ہے۔

    اردو فلمی موسیقی کی بات کی جائے تو برصغیر پاک و ہند  بہت بلند پایہ گلوکاروں کی جنم بھومی رہی ہے۔پاکستان میں مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا ، ملکہ ترنم، نصرت فتح علی خان نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا تو بھارت میں یہی علم محمد رفیع، مناڈے، کشور ، مکیش ۔ طلعت محمود، لتا منگیشکر اور دیگر نے کامیابی سے اٹھائے رکھا۔

    بھارتی درج بالا گلوکاروں  میں سے ہر ایک باکمال تھا لیکن ہمارے پسندیدہ  گلوکار وہ ہیں جن کا اس برس ہمسایے صد سالہ  جشن ِ ولادت منا رہے ہیں۔ یہ گلوکار مکیش چند ماتھر  ہیں۔ اس کی وجہ ان کا گانے کا انداز اور  آواز میں درد  ہے۔ وہ  الفاظ کو زبان کی بجائے دل سے ادا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گیت سیدھے  روح  پر اثر  کرتے ہیں۔

    مکیش کے گانوں کی تعداد تیرہ چودہ سو سے زیادہ نہیں ہے لیکن کامیاب گانوں کی اوسط ان کی رفیع اور کشور سے کہیں زیادہ ہے۔ رفیع کے گانوں کی تعداد قریب پانچ ہزار اور کشور کے گانوں کی تعداد قریب تین ہزار ہے۔

    مکیش  کو   بمبئی میں  فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑے۔ ان کی بڑی بہن کی شادی میں موتی لال جو اس زمانے کے نامور  اداکار  اور مکیش   کے قریبی رشتے دار تھے  نے انھیں گاتے دیکھا تو انھیں اس میں ایک بڑا فنکار دکھائی دیا اور وہ انھیں بمبئی لے آئے۔ ان  کی تربیت کی اور پھر  انھیں فلم میں موقع بھی ملا۔ ابتدا میں انھوں  نے اداکاری بھی کی  اور گانے  اس زمانے کے مشہور گلوکار کندن لال سہگل کے انداز میں گائے۔ تاہم  انھیں  بطور اداکار انھیں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی  سو   چند سال بعد انھوں نے اداکاری چھوڑ دی اور بی بی سی کو اس کی وجہ یہ بتائی کہ ‘میں نے سوچا کہ بی کلاس  اداکار بننے سے بہتر ہے  اے کلاس گلوکار بن جاؤں’ ۔

    ‘دل جلتا ہے تو جلنے دے’ وہ  پہلا گانا تھا جو  مکیش کا مشہور ہوا۔تاہم اس میں انھوں نے کے ایل سہگل  کی نقل کی اور اتنی خوبصورت نقل کی کہ کہا جاتا ہے کہ سہگل نے جب یہ گانا سنا تو وہ بھی حیران ہوئے کہ انھوں نے کب یہ گانا گایا ؟   تاہم   کچھ موسیقاروں کے سمجھانے پر انھوں نے  سہگل کی نقل کرنا ختم کر دی اور  اپنا قدرتی انداز اپنایا    جس  نے بھارتی فلمی صنعت کو سینکڑوں یادگار  اور سدا بہار گیت  دیئے۔

    میرا جوتا ہے جاپانی

    آوارہ ہوں

    مجھ کو  اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو

    سب کچھ  سیکھا ہم نے، نہ سیکھی ہوشیاری

    آ لوٹ کے آ جا میرے میت

    اک دن بک جائے  گا ماٹی کے مول

    کبھی کبھی میرے دل  میں خیال آتا ہے

    میں پل دو پل کا شاعر ہوں

     مکیش کے چند  مشہور گانے ہیں۔اردو موسیقی کا دلدادہ شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس کے کان ان گانوں سے  ناآشنا ہوں۔ ہمارے خیال میں تو ان میں سے ہر ایک گیت شاید  اردو موسیقی کے سو  ہمہ وقت بہترین گانوں میں شمار ہو گا۔  اس کے علاوہ سمکیش کے سینکڑوں گیت ہیں جو آج بھی کانوں  میں رس گھولتے ہیں۔ یہ ان کی فنکارانہ عظمت اور اپنے  کام سے محبت کا واضح  ثبوت ہیں۔

    راج کپور کی آواز تھے اور راج کپور کا خود ماننا تھا کہ وہ جسم ہیں اور مکیش ان کی روح ہیں۔مکیش  اور راج کپور کا ایسا ہی تال میل تھا جیسا پاکستان میں وحید مراد اور احمد رشدی کا تھا۔باوجود اس امر کے مکیش کے گانے   گانے سب ہیروز پر فلمائے گئے اور وہ ویسے ہی مقبول عام ہوئے چاہے وہ دلیپ کمار ہوں ، راجیش کھنہ ہوں یا امیتابھ بچن۔ دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ فلم انداز میں انھیں بریک تھرو  فلم ‘انداز’ میں مکیش سے ہی ملا تھا۔

    مکیش  نے پسند  سے شادی کی  تھی بلکہ لڑکی کے خاندان  والے چونکہ  راضی نہ تھے  تو   چھپ کر شادی کی تھی۔ سب سے بڑا کارنامہ ہمارے خیال میں  یہ کہ انھوں نے اس شادی کو نبھایا اور فلمی دنیا کی چکا چوند میں بھی خود کو بھٹکنے نہیں دیا۔ مکیش خود انتہائی خوبصورت   (تبھی فلموں میں بطور ہیرو کام کیا)  اور نوجوان تھے۔  جبکہ بھارتی فلمی صنعت میں ایک سے ایک خوبرو ہیروئن موجود  تھی اور ہمارے سابق وزیر اعظم تک ان کی زلفوں کے اسیر تھے لیکن مکیش کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ ان کا کوئی سکینڈل نہیں بنا۔ فلمی دنیا میں رہتے ہوئے یہ ہرگز معمولی  کارنامہ نہیں ہے۔

    مکیش پہلے مغنی تھے جنھوں نے براہ راست کنسرٹ کیے تا کہ وہ اپنے پرستاروں کو اپنے فن سے محظوظ کر سکیں۔اگست  1976 میں وہ  ایک ہی ایسے ہی دورے پر تھے  لتا  اور اپنے بیٹے نیتن کے ساتھ کہ   27 اگست کو انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے اور ترپن برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    فنون لطیفہ کے اکثر لوگ اپنا زوال اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیتے ہیں ۔چلیں اگر ہم اسے زوال نہیں کہتے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جگہ ان کی زندگی میں دوسرے لوگ لے لیتے ہیں۔ جیسے دلیپ کمار یا لتا منگیشکر۔ اگرچہ ان کے کام و مقام میں کوئی  دو رائے نہیں مگر دنیا نے دیکھا کہ اختتامی عشروں میں وہ کام نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی شناخت ان کا ماضی تھا۔ مکیش ، رفیع اور کشو کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ تینوں اپنے عروج میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ "کبھی کبھی” مکیش کی آخری فلموں میں شامل ہے اور اس میں شامل دو گیت "کبھی کبھی مرے دل میں خیال اتا ہے” اور "میں پل دو پل کا شاعر ہوں” آج بھی اسی طرح مقبول ہیں جیسے ریلیز ہونے کے وقت تھے۔

    ناصر کاظمی کا  زبان زد عام شعر ہے

    دائم آباد رہے گی دنیا

    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    شعر تو شاندار ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اور شخصیات ان اصولوں سے ماورا ہوتے ہیں۔وہ ایسے مقام پر ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ مکیش بھی ایسےہی گلوکار ہیں۔ انھیں گزرے نصف صدی ہونے کو ہے لیکن ان کا متبادل دور تک نظر نہیں آتا۔ ان کے گانے آج بھی اسی مقبول عام ہیں جیسے وہ فلم کی ریلیز کے وقت تھے۔ اگر ان کا متبادل ہوتاتو ان کا سحر ٹوٹ چکا ہوتا لیکن ان کے گانوں کی تازگی اس بات کا ثبوت ہے کہ جگ میں ان کے بول ان  کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔