ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

    تحریر: ابنِ ریاض

    حکیم محمد سعید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہےجو قائد اعظم کے فرمان کام کام اور بس کام کی عملی تصویر تھے۔ انھوں نے اپنی  ستر اسی برس کی زندگی میں اتنا کام کیا کہ لوگ کئی جنموں میں بھی اتنا نہ کر سکیں۔ وہ مشرقی ادویات کے محقق، ماہر طب ، ماہر تعلیم ،صحافی ،مصنف ،عالم ،صنعت کار اور انسان دوست تھے۔ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے  جن کی چھاپ ہمارے بچپن پر بہت گہری ہے۔ بچوں کے ماہنامہ ‘نونہال’ میں ان کی چھوٹی چھوٹی سادہ سی تحاریر لاکھوں بچوں کی پسندیدہ ترین تھیں۔بعد میں علم ہوا کہ وہ خود اس رسالے کا اجراء کرتے تھے۔

    پاکستان کے قیام کے وقت وہ چھبیس ستائیس سال کے نوجوان تھے۔ ان کی پرورش ان کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید  اور والدہ  نے کی تھی اور وہ حکیم سعید کے پاکستان جانے کے مخالف تھے۔دہلی میں ان کے آباء کی قائم کردہ یونانی  و مشرقی ادویہ کی کمپنی ان کے پیدائش سے بھی پہلے سے قائم اور مقبول عام تھی۔ وہ ایک امیر خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر ایک غیر مسلم ملک میں رہنے کو تیار نہ تھے۔ جب والدہ اور بھائی انھیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو بادلِ نخواستہ انھیں پاکستان میں جانے کی اجازت دے دی۔حکیم صاحب نے پاکستان کے لئے اپنا کاروبار اور عیش و عشرت سب تیاگ دیا ۔حکیم سعید اپنی  بیگم اور بیٹی کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں وہ امیر آدمی نہ تھے بلکہ عام آدمی اور غریب الوطن مسافر کی طرح زندگی کا آغاز کیا۔ بارہ روپے ماہوار کرایہ پر ایک کمرہ  اور  اتنے ہی پیسوں کا فرنیچر لے کر  اپنے ہاتھ سے دروازے پر ‘مطب ہمدرد’ لکھنے والے حکیم محمد سعید باہمت، باحوصلہ، سچی لگن و خلوص سے مالا مال تھے تو ان کا حکمت کا کاروبار جلد ہی چل پڑا۔ پھر انھوں نےہمدرد لیبارٹریز کی پاکستان میں بنیاد رکھی۔ 1953ء  میں خدمت خلق کےجذبے سے معمور حکیم سعید نے اسے وقف(ٹرسٹ) میں   تبدیل کر دیا۔

    چند ہی سالوں میں ملک کے مختلف شہروں اور لندن  میں ان کے مطب تھے اور وہ باقاعدہ ان کا چکر لگا کر اپنے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ مریضوں سے ان کی وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں جب نعیم بخاری نے پوچھا’ سنا ہے کہ آپ ہر  ماہ دس پندرہ دن روزہ رکھتے ہیں؟’ تو انھوں نے کہا کہ جس دن مریضوں کو دیکھنا ہو اس دن روزے  سے ہوتا ہوں۔ نعیم بخاری کے استفسار پر فرمایا کہ میرا اعتقاد ہے کہ اس سے میرے مریض کو جلد شفاء ملے گی۔ جس شہر جاتے تھے وہاں کے مریضوں کے پتے ساتھ لے جاتے تھے اور ممکن ہوتا تو وہاں جا کر ان کی عیادت کرتے اور صورت حال کے مطابق دوا تبدیل کر دیتے اور اگر مریض صحت مند ہو چکا ہوتا تو اس کی دواؤں پر رائے لے لیتے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت کاروباری حکمت عملی ہے جس سے آج کے کاروباری حضرات  بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ غریب و نادار مریضوں کا نہ صرف مفت علاج کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ ایک انٹرویو  میں انھوں نے بتایا کہ 1940ء  سے 1997ء( بوقت انٹرویو) تک  انھوں نے قریب پچاس لاکھ لوگوں کا درد سنا اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش کی۔گورنر سندھ کے عہدے سے اس لئے استعفٰی دیا کہ  گورنر کی ذمہ داریوں کے باعث ان کے مریض متاثر ہو رہے ہیں۔

    انھوں نے جامعہ انقرہ سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی اور پھر اپنی تمام عمر طب مشرق کے لئے وقف کردی۔ انکساری کا یہ عالم تھا کہ کبھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہ لکھا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں جا کر انھوں نے حکمت کی افادیت کو واضح کیا اور پاکستان میں بھی کئی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں انھوں نے طب مشرق و حکمت کو ایلوپیتھی کے متبادل ذریعہ علاج کے طور پر متعارف کروایا۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے کئی تحاریر اور پیپرز بھی لکھے۔ 1958ء میں طب کے فروغ کے لئے ہمدرد طبیہ کالج قائم کیا اور پھر اپنی انسان دوستی کو مزید وسعت دینے کے لئے 1964ء میں ہمدرد فاؤنڈیشن قائم کی۔ یہ آپ کی کاوشوں کا ہی ثر تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے طب مشرق کو متبادل طریقہ علاج تسلیم کیا۔

    ان کی تصانیف کی تعداد دیکھیں تو وہ دو سو کے قریب بنتی ہے اورتمام کتب معلوماتی اور عملی زندگی میں کام آنے والی۔ انھوں نے انتہائی متنوع موضوعات کو قلم بند کیا جن میں اسلام، طب، صحت،پاکستان ‘تعلیم  سفرنامے اور بچوں کا ادب شامل ہیں۔

    بچوں سے محبت سبھی کرتے ہیں اور اس معاملے میں حکیم صاحب بھی مستثنٰی نہ تھے۔ اگر مریض کے ساتھ کوئی بچہ ہوتا یا مریض ہی بچہ ہوتا تو اسے ٹافیاں اور کھلونے دئیے جاتے۔بات یہاں تک رہتی  تو عام بات ہوتی مگر حکیم صاحب کو بچوں کی تربیت کا بھی بہت خیال تھا۔انھوں نے بچوں کے لئےبے شمار تحاریر لکھیں جن میں سادہ الفاظ  میں ان کی تربیت کی گئی۔ ماہنامہ نونہال کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔ بچوں کے لئے لکھنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور یہ حکیم صاحب کی محبت ہی تھی کہ وہ اپنے مصروف شیڈول میں سے  بچوں کے لئے وقت نکالتے تھے- نادار طلباء کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے وظائف بھی دیئے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں نونہال ادب کے نام سے انھوں نے بچوں کے لئے کتب کا سلسلہ  شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔1980ءکے عشرے اوراس سے قبل پیدا ہونے والے بچے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ والدین اوراساتذہ کے علاوہ ان کی تربیت میں حکیم سعید، ابن صفی، مظہر کلیم اوراشتیاق احمد جیسے لوگوں کابھی ہاتھ رہاہے۔

    طب میں شاندار خدمات کے علاوہ ان کا ایک بڑا کارنامہ کراچی کے مضافات میں ‘مدینہ الحکمت’ کا قیام تھا۔ اس کا آغاز ‘بیت الحکمت’ سے ہوا جو کراچی کا ایک بڑا کتب خانہ و تحقیقی مرکز ہے۔ بعد ازاں اس میں کئی تعلیمی ادارے بھی شامل کر دئیے گئے جن میں ہمدرد یونیورسٹی، ہمدرد پبلک سکول، ہمدرد کالج آف ایسٹرن میڈیسنز ، ہمدرد انسٹیٹیوف آف مینجمنٹ سائنسز،ہمدرد انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز، ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹیٹیوٹ آف فارماکالوجی اینڈ ہربل سائنسز،ہربل گارڈن اور ہمدرد کالج آف سائنس  اینڈ کامرس جیسے ادارے شامل ہیں۔ یہ سب ان کی نوجوان نسل اور علم و تحقیق سے محبت کا مظہر ہیں۔

    ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ و شریف النفس انسان تھے۔ہم تو انھیں ہمیشہ سفید شلوار قمیص و شیروانی میں ہی ملبوس پایا۔ چہرے پر نرم سی مسکراہٹ۔ دووقت کھانے کے حامی تھے اور دوپہر کے کھانے کے سخت خلاف تھے۔  کوئی ذاتی جائیدا نہ تھی پاکستان میں اور نہ بیرون ملک سوائے اس گھرکے جس میں 1948ء میں پاکستان آنے کے بعد رہائش رکھی تھی۔اپنی شہادت تک اسی اسی گھر میں مقیم رہے۔وہ گھر بھی  اپنی بیٹی کے نام کر دیا اور پھر ایک کمرے میں رہتے تھے اور بیٹی کو کرایہ دیتے تھے۔ان کے بھائی کی جب بھی بات یا ملاقات ہوتی تو انھیں واپس بھارت آنے کا کہتے۔ پاکستان میں کوئی سانحہ ہوتا تو یہ اصرار مزید بڑھ جاتا۔ان کی عجیب سی خواہش تھی کہ ان کی وفات اپنے بڑے بھائی سے پہلے ہو۔ ان کے بھائی ان کی میت پر آئیں اور ان کا چہرہ دیکھ کر کہیں ‘سعید تمھارا فیصلہ ٹھیک تھا’۔ آہ ان کی بھائی سے پہلے وفات کی خواہش تو ان کے پاکستانی بھائیوں نے ہی پوری کر دی تاہم ان کے اس سفاکانہ قتل پر بھائی نے ضرور سوچاہو گاکہ ان کے بھائی کا یہ فیصلہ غلط تھا۔تاہم جذبات سے  نکل کر جب حکیم عبدالحمید  نے  اپنے بھائی کو   ملنے والی محبت و احترام  اور ان کے جانے کے بعد بھی ان کے ادارے کی پاکستان کے لئے خدمات دیکھی ہوں گی تو     بلاشبہ انھوں نے تسلیم کر لیا ہو گا کہ ان کے بھائی محمد سعید کا  فیصلہ بالکل درست تھا۔

    حکیم صاحب حیران کن  شخصیت تھے۔خالی ہاتھ بھارت سے آئے۔پاکستان میں جو کچھ کمایا پاکستانیوں پر ہی لٹاتے رہے۔اپنی خواہش بس اتنی کہ ملک چھوڑنے والے فیصلے پر  باپ جیسے بڑے بھائی کے سامنے سرخرو ہو جاؤں۔ تاہم کچھ فیصلے تقدیر کےبھی ہوتے ہیں۔ حکیم محمد سعید وہ شخصیت تھے کہ جن کے انتقال کا ہمیں شدید دکھ ہوا تھا اور کتنا عرصے تک ہم یہ سوچتے رہے تھے کہ بھلا ان جیسی  بےضرر اور انسان دوست شخصیت کو کوئی انسان  قتل کر  سکتا ہے ؟

    جن شخصیات کے قیام کی بنا پر کراچی ہمیں عزیز ہے ان میں حکیم محمد سعید بھی شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ابتدائی ترقی میں مہاجرین کا ایک شاندار کردار تھا۔پنجاب، سندھ سرحد اور بلوچستان کے علاقے تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے تھے سو اس نازک وقت میں بھارت سے آنے والے پڑھے لکھے مسلمانوں نے پاکستان کی ترقی می ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ لیاقت علی خان،حکیم سعید، ایدھی صاحب،ابن انشاء، اشفاق احمد، ناصر کاظمی، قدرت اللہ شہاب،طارق عزیز، حنیف محمد اور داکٹرعبدالقدیر خان۔ یہ مختلف شعبوں سے کچھ لوگوں کے نام ہیں۔ آپ شعبے لکھتے جائیں اورآپ کے پاس ان باکمال لوگوں کی فہرست آتی جائے گی اور بلاشبہ اس فہرست میں  حکیم محمد سعید ابتدائی نمبروں پر براجمان ہیں۔

    ٹیگز: , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔