تحریر: ابنِ ریاض
امجد فرید صابری بھی کل عازمِ سفر ہوئے اور یوں ایک اور ستارہ ہم سے بچھڑ گیا۔ مزاح اور کرکٹ کے علاوہ شخصیات پر لکھنا بھی ہمارا دل پسند مشغلہ ہے اور کچھ عظیم لوگوں پر لکھنے کا ہمارا ارادہ بھی ہے مگر ہم کبھی امجد صابری پر لکھیں گے یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ۔ انسان روز ہی قتل ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر جان بلاشبہ قیمتی ہے اور اس کا کوئی نعم البدل اس کے خاندان کے پاس نہیں ہوتا مگر کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہی کہ جن کے قتل پر بندہ حیرت کی تصویر بن جاتا ہے کہ کیا ان کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ دل کل شام سے از حد افسردہ و دکھی ہے اور ایسا دکھ آخری بار معین اختر صاحب کی وفات پر ہواتھا اوراگر قتل کی بات کی جائے تو حکیم محمد سعید صاحب کے قتل پر۔ امجد توایک بے ضرر سے انسان تھے۔ پیار اور محبت بانٹنے والے۔ مجھے یقین ہے کہ انھوں نے تو کسی انسان کو تھپڑ بھی نہیں مارا ہوگا۔ مزید براں بندہ بھی وہ کہ جو بس اللہ اور نبی کا ذاکر۔ اپنی آواز سے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب مائل کرنے والااورایسے شخص کو سرِ عام دن دھاڑےگولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس میں کلام نہیں کہ موت کا ایک وقت معین ہے اور جب وہ آ جائے تو ایک لمحہ بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتا مگر وہ کل اسی وقت اگر ہارٹ اٹیک سے وفات پا جاتے یا گاڑی کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا تو یقینًا غم کی شدت اس طرح نہ ہوتی۔ یہ خیال ہوتا کہ اللہ کی امانت تھی اس نے لے لی مگر ایسے سفاکانہ قتل پر قوم اب تک حالتِ غم میں ہے۔
مرحوم فنِ قوالی کے ایک نامور خانوادے سے تعلق رکھتے تھےاور ان کےوالد اور چچا معروف قوال تھے۔ ‘تاج دارِ حرم’ ان کو تا ابد زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ اپنے والد اور چچا کے فن کو آگے بڑھا رہے تھے اور ہماری ذاتی رائے میں وہ ابھی اپنے والد اور چچا کے مقام کو نہیں پا سکے تھے مگر ان میں صلاحیت تھی اور ان کی ابتدائی تربیت بھی چونکہ ان کے والد نے کی تھی تو ان کی کلاسیکی بنیاد بھی مضبوط تھی اور یہ کسی بھی فن میں ترقی کے لئے از حد ضروری ہوتا ہے کہ آپ کو اس کی روایت کا علم ہو اور اسے ساتھ لے کر آپ زمانے کے مزاج کے مطابق تبدیلیاں کریں اور یہ صلاحیت بہرطور ان میں موجود تھی، سو اگر وہ مزید زندہ رہتے تو یہ بعید از قیاس نہ تھا کہ وہ اپنے آباء کے مقام تک جا پہنچتے۔ عنوان کی وجہ بھی یہی ہے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سیاستدانوں کے بچے سیاست دان بنتے ہیں۔ ڈاکٹر اپنے بچوں کو ڈاکٹر بناتے ہیں اور انجنئروں کے زیادہ تر بچے کسی نہ کسی شعبے میں انجینئر ہوتے ہیں۔ یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔ تاجراپنا کاروبار اپنی اگلی نسل کو منتقل کر دیتے ہیں اور دیگر پیشہ ور اپنے پیشے۔ تاہم کبھی علامہ اقبال کے خاندان میں کوئی دوسرا اقبال، میر کے خاندان میں دوسرا میر، ابن انشا کے خاندان میں دوسرا انشاء، اشفاق صاحب کے خاندان میں بلکہ نسل میں کوئی اور اشفاق اور مزید وسعت دیں تو جاوید میانداد، عمران خان، احمد رشدی۔ وحید مراد، معین اختر،مہدی حسن، محمد رفیع،دلیپ کمار، کشور کمار، راج کپور،اور آگے جائیں تو پکاسو چارلی چپلن اور دیگر فنون لطیفہ میں دیکھ لیں آپ کو ان میں سے کسی کا جانشین نہیں ملے گا۔ اولادیں قریب قریب سبھی کی ہیں بلکہ رفیع صاحب اور مہدی حسن صاحب کی تو درجن کے قریب ہیں مگر ان کے فن کو آگے لے جانے والا کوئی نہیں تھا اور اب سب کا فن انٹرنیٹ تک محدود ہے
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامرمیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فنون لطیفہ قدرتی صلاحیت ہوتے ہیں اور یہ جینز کے ذریعے ایک نسل سے اگلی تک منتقل نہیں ہوتے۔ نہ ہی باپ سے یہ فن وراثت میں اگلی نسل میں منتقل ہو سکتا۔بیٹا باپ کے مقام تک یا اس کے قریب پہنچے ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ایک مثال جو اس وقت ذہن میں ہے وہ روشن خان اور جہانگیر خان کی ہے یا کسی قدر نذر محمد اور مدثر نذر مگر یہ بھی کھیل کی ہی مثال ہے فنونِ لطیفہ کی بہر طور نہیں۔سو ایسی صورت حال میں اپنے خاندان کا نام قوالی کے فن میں زندہ رکھنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اور اس کا سہرا یقینًا امجد صابری کے سر ہے اور ان کے وفات اس لئے بھی افسوس ناک ہے کہ کل عہدِ صابری اختتام پذیر ہوا۔ ایک روایت اپنے انجام کو پہنچی۔ ایک زریں عہد ماضی بنا اور اب وہ یو ٹیوب اور ویڈیوز تک محدود ہوا۔ ہماری رائے میں یہ فنون لطیفہ پر ایسا ہی حملہ ہے جیسا کہ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا اور آج تک ہمارے میدان کھیلوں کو ترستے ہیں۔
امجد صابری کا قتل محض ایک انسان کا قتل نہیں بلکہ پاکستان کا ایک ناقابل تلافی نقصان بھی ہے۔ پاکستایوں کی جو عزت بیرون ملک ہے اس سے سب آگاہ ہیں کہ کیسے مقام مقام پر ذلیل کیا جاتا ہے مگر وہ ان چند گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو کہ دنیا میں پاکستان کا ‘ نرم چہرہ’ اجاگر کرتے تھے کہ پاکستان میں محض دہشت گرد، قاتل اور انتہا پسند ہی نہیں بستے ایسےعلم اور فن دوست بھی اسی ملک کی مٹی میں پائے جاتے ہیں۔
امجد صابری چلے گئے وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔باقی تو ان کو مارنے والوں نے بھی نہیں رہنا۔ انھیں بھی اللہ کی گرفت میں آنا ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو جلا رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ اللہ نے جب کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا ہوتا ہے تو اس کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس میں سے اچھے لوگ نکال لئے جاتے ہیں۔