تحریر: ابنِ ریاض
ہر سچے پاکستانی کی مانند ہم بھی چاہتے ہیں کہ پیسے کم سے کم خرچ ہوں۔ کام مفت میں ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔ جامعہ میں چونکہ ہمیں مفت علاج کی سہولت حاصل ہے تو اک روز ہم نے سوچا کہ کیوں نہ دانتوں کی بھی صفائی کروا لی جائے۔ اگلے سال ہم یہاں ہوں نہ ہوں ، ابھی سے اس سہولت سے مستفید ہو لیا جائے تو بہتر ہے۔ اک روز کچھ وقت نکال کر ہم دانتوں والے ہسپتال پہنچ گئے۔ ابتدائی مراحل سے گزرنے کے بعد ہمیں اک خاتون ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا۔ وہ ابھی فارغ ہوئی تھی اور گھر کے کام (یعنی ہاوس جاب ) کر رہی تھی۔ چونکہ نقاب پوش تھی تو شکل تو دکھی نہیں تاہم آنکھیں اس کی کافی پرکشش تھیں۔ اس نے ہم سے ابتدائی سوال کیے اور پوچھا کہ کیا شکایت ہے؟ ہم نے کہا کہ آپ سے ہمیں کچھ شکایت نہیں ہے۔ بس دانتوں کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اچھا لیکن پہلےایکسرے کرواتے ہیں دانتوں کا پھر یہ کام ہو گا۔ ہمیں ایکسرے کے لئے لے جایا گیا جہاں ہمیں اک مشین کے ساتھ کھڑا کر کے دانتوں میں کوئی چیز ڈال کر ایکسرے کیا تھا۔ پھر ہمارے واپس آنے تک ایکسرے بھی آ چکا تھا۔ اس میں ہمارے بائیں جانب کے نیچے والے جبڑے میں کوئی خلا تھا۔ ہمیں تو علم ہی نہ تھا ورنہ ہر مرتبہ پاکستان آتے جاتے سونا اور قیمتی چیزیں اس میں ڈال کر سمگل کیا کرتے۔ آہ انجانے میں ہمارا کتنا نقصان ہو گیا ۔ اب تک ارب پتی ہو چکے ہوتے ہم۔
اس لڑکی نے اپنے سینیئر ڈاکٹروں کو بلایا ۔ان میں اک مصری تھا۔ اک بھارتی۔ انھوں نے ہاتھوں سے ہمارے جبڑوں کو ٹٹولا۔ پھر سٹیل کے اوزار دانتوں پر مار کر پوچھا کہ درد ہو رہا ہے؟ درد تو ہمیں نہیں ہوا لیکں ہم نے کہا کہ آپ کے مارنے سے ہو رہا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر مارے توشاید نہ ہو۔ پوچھا گیا کہ پہلے کبھی درد یا کچھ غیر معمولی محسوس ہوا ہو؟ ہم نے کہا کہ کبھی نہیں اور اب بھی ہم اس مسئلے کے لئے نہیں آئے ہیں ٖڈاکٹروں نے آپس میں کچھ گفتگو کی مشورہ کیا اور ہمیں کہا کہ بائی اوپسی ہو گی تب صورت حال کا ٹھیک علم ہوگا۔ ہم نے کہا یہ عمل کتنی دیر کا ہے تو بتایا گیا کہ بس پندرہ بیس منٹ کی بات ہے۔ چونکہ کوئی علامات نہیں ہیں آپ میں تو اگر کچھ نکلا بھی تو بالکل ابتدائی ہو گا اور تھوڑے سے علاج سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم نے سوچا کہ یہ ڈاکٹر ہم سے غلط بیانی کیوں کر یں گے؟ اگر فرض کرو کر بھی دیں تو یہ لیڈی داکٹر تو ضروری سچی ہو گی۔ اتنی معصوم صورت ہے( صورت کا ہم نے تصور کر لیا) ۔ کسی روز یہ کام کروا لیں گے-
ہم نے پوچھا کہ کیا اب دانتوں کی صفائی نہیں کرنی تو لیڈی ڈاکٹر بولی وہ کر دیتی ہوں۔ دراصل ہمارے دانتوں کی اونٹ کی مانند کوئی کل سیدھی نہیں کیونکہ بچپن میں جب دانت گرتا تھا تو ہم زبان پھیر پھیر کے اسے محسوس کرتے تھے اور پھر جب ہمیں شعور آیا تو معلوم ہوا کہ ہم نےاپنی ہی زبان سے اپنے دانتوں کو یوں کر دیا ہے گویا اک دوسرے سے ناراض بیٹھے ہوں۔ ایسے دانتوں پر برش کتنا کام کرسکتا ہے؟
چونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ بس پندرہ بیس منٹ کا کام ہے اور جگہ کو سن کرنے والی دوا لگا کر کام کیا جائے گا تو ہمیں اندازہ تھا کہ کوئی کٹ لگے گا اور اس کا ٹکڑا لیبارٹری میں تشخیص کے لئے بھیجا جائےگا۔ اک دن پہلے وقت لیا اور پھر وقتِ مقرر پر پہنچ گئے۔ وہی ڈاکٹر ہمیں لینے آئی اور حال احوال پوچھا۔ اس کے پوچھنے سے ہی حال اچھا ہو گیا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ چھوٹا سا کٹ لگے گا اور اپنے بڑے ڈاکٹر کو بلوا لائی جو مصری تھا۔ بعد میں ہم سے اک صفحے پر دستخط لئے گئے۔ وہ صفحہ دیکھ کر تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کیونکہ پاکستان میں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں موت و حیات ہے تو کچھ غلط ہونے کی صورت میں بھی ڈاکٹر بری الذمہ ہے۔بہرحال پڑھا تو لکھا تھا کہ جس جگہ کٹ لگایا جائے گا وہ سن ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے قریب رگیں ہیں جن میں سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ادھر اس صفحے پر لیڈی داکٹر کا نام لکھا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ عمل آپ کریں گی تو کہنے لگی کہ نہیں سینیئر ڈاکٹر ہی کریں گے اور میں ان کی مدد کروں گی۔ دل میں شکر ادا کیا کہ یہ لڑکی نہیں کر رہی۔ اس کا ہاتھ ادھر سے ادھر ہو گیا تو ہمارا کام تو ہو گیا۔ اب ہم ہسپتال میں تھے تو بھاگ تو سکتے نہیں تھے اور چوں چراں کی صورت میں بزدل و ڈرپوک سمجھے جاتے توہم نے جل تو جلال تو پڑھتے ہوئے دستخط کر دیئے
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
یہاں جگر آزمانا ہماری مجبوری تھی کیونکہ ہم ستمگروں کے نرغے میں تھے۔ ہمیں بائیں جبڑے کی دونوں اطراف انجکشن لگایا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ جگہ بھاری محسوس ہونے لگی۔ اس کے بعد اس ظالم مصری نے خنجر زنی شروع کر دی۔ہمیں دہن کے اندر تو نہیں دکھ رہا تھا مگر اوزار تو دکھائی دے رہے تھے اور جیا ہمارا دھک دھک کر رہا تھا۔ ڈاکٹر کہتا تھا کہ دباؤ محسوس ہو گا مگر درد نہیں تاہم کبھی کبھی اتنا دباؤ ڈالا گیا دانتوں پر کہ درد محسوس ہونے لگتا تھا۔چہرہ توہم ہلا نہیں سکتے تھے مگر پیر ہلا کر ہم بغاوت کا اظہار کر رہے تھے۔ اب ہمیں درد ہوتا تو ڈاکٹر کو بھی معلوم ہو جاتا تو وہ ہمیں صبر کرنے کی بجائے کہتا ‘پلیز ڈاکٹر ویٹ’۔ ظالم انسان مزید درد کا ہم کیسےانتظار کر سکتے ہیں؟ کچھ ہی دیر بعد ہمارے جبڑے کا اک حصہ کاٹ کر ٹیبل پر رکھا گیا۔ پھر کسی اور اوزار سے وہیں سے اک اور ٹکڑا نکال کر اک ڈبیہ میں ڈالا گیا۔ گاہے گاہے اک پٹی بھی ہمارے جبڑے پر رکھی جاتی جو باہر نکلنے پر خون سے تر ہوتی۔
ادھر ہمیں لٹایا ہوا تھا اور ہم پندرہ بیس منٹ گزرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کبھی ڈاکٹر کو غصہ سے دیکھتے کبھی لیڈی ڈاکٹر کو پیار سے۔ اس لیڈی ڈاکٹر نے پہلے نقاب کیا ہوا تھا اور بعد ازاں آپریشن کے وقت ماسک لگا لیا تھا۔ادھر ڈاکٹر صاحب نے معاملہ ختم کرنے کی بجائے اس لڑکی کو پڑھانا شروع کر دیا اور وہ بار بار ہمارے دہن میں جھانک رہی تھی۔ کبھی کوئی رگ دیکھتی اور کبھی خون صاف کرتی۔
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
بے اختیار یاد آیا۔
ہمارے جبڑے کو اچھی طرح پڑھ پڑھا کے دوبارہ اس کی جگہ لگایا گیا اور پھر ٹانکے لگانے شروع ہوئے۔ اس سے ہمین گدگدی سی محسوس ہوتی تھی۔ یہ پندرہ بیس منٹوں کا کام اک گھنٹے میں ختم ہوا۔ بازیگروں نے ہمیں صریح دھوکہ دیا۔ چند منٹ کا کہہ کر پورا گھنٹہ لگا دیا گیا۔ واقعی بازیگر (کسی بھی شعبے کے ہوں )کھلا دھوکہ دیتے ہیں۔اس کے بعد ہمین احتیاطیں بتائی گئیں جن پر اگلے دو روز بالخصوص عمل کرنا ہے اور بالعموم اگلے دو ہفتے۔ دوائیاں لکھ دی گئیں جو ہم نے جامعہ ہی کے ادویہ سٹور سے حاصل کر لیں اور کہا گیا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اگلے ہفتے پھر آ جانا ہے۔ اب ہم دوا لے چکے ہیں اور جبڑا بند کر کے بیٹھے ہیں۔ ساتھ سوچ رہے ہیں کہ مہنگا روئے اک بار اور سستا روئے بار بار۔ کئی بار تو سستے کو رونے بھی نہیں دیا جاتا۔