تحریر: ابنِ ریاض
نام ملک محمد اسلم تھا۔ ہمارا ان سے تعلق پیدائشی تھا۔ میرے پھوپھا تھےاور نانی کے سگے بھائی بھی۔سو بچپن سے ہی ہم انھیں ‘بابا جی’ کہتے تھے۔ پھر بہن بھی انھیں کے ہاں پلی بڑھی تھی۔ قومی اسمبلی میں تین ساڑھے تین عشرے نوکری کے کے ریٹائر ہوتے۔ بچپن میں عید و تہواروں پر جو پانچ دس پورے عید ملتی تھی وہ تو گھر والے لے لیتے تھے سو بہن کو کہا جاتا تھا کہ جا کر بابا جی سے پیسے لے آؤ۔ وہ پیسے لے کر اتی تھی اور انھی پیسوں سے ہمااری ‘عیاشی’ ہوتی تھی۔
اک مرتبہ عید پر گاؤں کی "ہٹی” میں کچھ لینے گئے تو برف کی سلون میں فانٹا کی بوتلیں بڑی دیکھیں۔ یاد رہے کہ 1990 کے عشرے سے پہلے گاؤن میں بجلی نہ تھی۔ فانٹا دیکھ کر منہ میں پانی بھرآیا۔ تین روپے کی بوتل ہوتی تھی۔ ہم تین بھائی بہنوں نے اپنی عید سے بوتلیں پی اور بعد میں بہن کو کہہ کر بابا جی سےپیسے لے کر مزید بھی پیں۔ شام کو جب پیسوں کا حساب ہوا تو ہمارے پاس سے اک پیسہ نہ نکلا۔ خوب آئیں بائیں شائین اور بالآخر بتانا پڑا کہ جی سارے لگا دیئے ہیں تو والد صاحب کی بٹیروں والی کوٹھڑی میں ہمیں بطور سزا نظر بند کر دیا گیا۔ وہاں ہمیں ڈر بھڑوں سے تھا جو دروازے کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے اندر آ کر ہمیں ڈرا رہی تھیں۔ ایک دو گھنٹے بعد ہماری بڑے پھوپھو مرحومہ نے آ کر ہماری جان بخشی کروائی۔
ہم لوگ کامرہ میں رہتے تھے اور بابا جی اسلام آباد میں۔ تاہم عید وغیرہ یا کبھی دو تین چھٹیاں ہوئیں تو کامرہ کا چکر ضرور لگاتےتھے۔ سب اکٹھے ہوتے تھے تو یوں بھی رونق ہوتی تھی اور پھر بابا جی دل کے بڑے کھلے تھے۔ سو ہمیں بھی ان کے ساتھ مزا اتا تھا۔ فوجی مارکیٹ سے کون آئس کریم سب لوگوں کو دو دو تین تین کھلانا اور پھر رتی جناح ہل پارک پیدل جانا بابا جی کے ساتھ ن کے کامرہ چکر کے دوران ہمارا معمول ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ لڈو کی بازی بھی لگائی جاتی تھی اور ہارنے والوں کو کچھ کھلانا ہوتا تھا۔ سو یہ بڑا ہی یادگار وقت تھا۔
ٹیکسلا یونیورسٹی میں جب ہمیں ہاسٹل کے کھانوں سے مسئلہ ہوا تو گھر والوں نے اسلام آباد بابا جی کے پاس بھیج دیا۔ کیونکہ یو ای ٹی ٹیکسلا کی بسیں اسلام آباد آتی تھیں تو ہم کلاسز لے کر واپس آسلام آباد چلے جاتے تھے۔ اسی دوران بابا جی نے بعد از ریٹائرمنٹ راولپنڈی خیابان ِ سرسید میں گھر لے لیا۔ کچھ عرصہ وہیں سے ٹیکسلا جاتے رہے اور پھر کچھ وجوہات کی بنا پر کامرہ سے ہی آنا جانا شروع کر دیا۔
2000ء کے آخر میں ڈگری ختم ہوئی ۔ 2001ء میں پہلی جاب اسلام آباد میں ہی ہوئی اور پھر سے ہم راولپنڈی اپنے بابا جی کے ہاں جا براجمان ہوئے۔ پھر شادی تک انھی کے ہاں رہے اور شادی کے بعد بھی گھر ان کے گھر کے قریب ہی رہا۔ سعودی عرب آنے سے چھ ماہ پہلے گھر بدلا اور پھر یہاں آ گئے۔ یہاں بھی ان سے رابطے میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ ہر ہفتے بات ہوتی تھی اور اچھی لمبی بات ہوتی تھی۔ پھر دو سال قبل جب وہ بستر کے ہو گئے تو باتا چیت قدرے کم ہو گئی کیونکہ ان کے گھر موبائل سگنل کم آتے تھے لیکن ان کا احول باقاعدہ لیتا تھا اپنی بہن سے۔
ان سالوں میں ہم نے انھیں بہت قریب سے دیکھا اور جاننے کا موقع ملا۔ قابل احترام تو وہ پہلے بھی تھے مگر ذات کے کچھ ایسے بھید کھلے جن سے ہم دوسرے شہر رہ کر آشنا نہ ہو سکتے تھے۔ اک خوبی تو یہ کہ انتہائی نفاست پسند تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے جوتے پہنتے اور شیو بھی جب تک ہمت تھی روزانہ کرتے تھے۔
ہم اٹک والے اکثر لوگ خاصے سخت مزاج ہوتے ہیں اور لڑائیوں سالوں چلاتے ہیں۔ تاہم وہ اس معاملے میں اپنے ہم علاقہ لوگوں سے مختلف تھے۔ اپنا موقف ضرور دیتے تھے مگر انا کا مسئلہ بنا کر بات چیت بند نہیں کرتے تھے۔لوگوں سے بہت اچھے سے ملتے تھے اور ہاتھ کے کھلے تھے ۔ گفتگو دلچسپ کرتے تھے ور لطیفے و چٹکلے تو ان کی نوک ِزبان پر تھے۔ جو شخص ان سے مل لیتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا اور بعد ازاں جب ان کے کسی جاننے والے سے ملتا تو ان کا ضرور احوال لیتا۔کچھ نازک مزاج تھے اور بھاری کام نہیں کرتے تھے اور اب آخری برسوں میں تو ضعف بھی تھا مگر کام کروانے کا طریقہ آتا تھا۔ بہت پیار سے بلانا، کھلانا پلانا اور معاوضے سے کچھ زیادہ دے دینا ان کی عادت تھی اور یوں لوگ خوش دلی سے ان کا کام کر دیتے تھے۔
گاؤں کے سکول سے پڑھ کر بعد ازاں پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا اور اٹھارویں گریڈ تک پہنچے۔ سیلف میڈ انسان تھے ور پڑھنے لکھنے سے شغف تھا۔ ہم جب چھوٹے تھے تو وہ پنے علاقے کے مسائل پر کبھی اردو ااور کبھی انگریزی اخباروں میں لکھتے تھے۔ جب تک چل بیٹھ سکتے تھے گھر میں اخبار باقاعدہ آتا تھا اور وہ پورا پڑھتے تھے۔اس کے علاوہ بھی اردو و انگریزی و دینی کتب کی کافی تعداد ان کے پاس تھی۔
اس کے علاوہ ان کی حالات حاضرہ و تاریخ سے متعلق معلومات حیرت انگیز تھیں۔ حافظہ بہت شاندار تھا اور آخر وقت تک ذہن ٹھیک کام کرتا رہا۔ ہم نے تاریخی شخصیات کے متعلق جو لکھا ہے ان کا ابتدئی ذریعہ ہمارے بابا جی ہی تھے۔ بعد ازاں انٹرنیٹ و دیگر ذرائع سے معلومات کی تصدیق کر کے ہم لکھا کرتے تھے۔ کبھی ہمیں کوئی معلومات ملیں اور ہم نے ان سے کا تذکرہ کیا تو انھوں نے اس میں مزید کچھ اضافہ کر دیا۔ جیسے ابنِ انشاء ہمارے پسندیدہ ہیں تو ان کی کوئی تحریر انھیں سنائی تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ ابن انشاء قومی اسمبلی میں ان کے پیشرو تھے۔ بالخصوص پاکستان، بھارت و بنگلہ دیش کی تو چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ قیامِ بنگلہ دیش سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس چھ ماہ اسلام آباد ہوتا تھا اور چھ ماہ ڈھاکہ۔ سو بنگلہ دیش کے جغرافیے کے علاوہ وہاں کے حالات سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے۔ قومی اسمبلی میں ہونے کی وجہ سے ہر اہم شخصیت کو بہت اچھے سے جانتے تھے ۔ مجیب الرحمان، تری دیو رائے اور مولوی فرید احمد کے متعلق ہماری بنیادی معلومات کا وہی ذریعہ تھے۔کھیلوں پر بھی نظر رکھتے تھے اور بین الاقوامی کھلاڑیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ مختلف بین الاقوامی معاملات پر بہت صائب رائے رکھتے تھےاور عموماً ان کا تجزیہ وقت کے ساتھ ٹھیک ثابت ہوتا تھا۔
ہماری کتاب شائع ہونے پر بے انتہا خوش تھے اور اگرچہ گھر کے لئے ہم نے کچھ کتب بھیجیں تھیں مگر انھوں نے پیسوں سے بھی منگوائیں۔ کتاب کی تقریبِ رونمائی میں بھی انھوں نے شرکت کرنی تھی مگر اپنی علالت کے باعث نہ کر پائے۔
ان کی سب سے بڑی خوبی جو آج کل نایاب ہے وہ ان کا قرآن پاک سے لگاؤ تھا۔ وہ جتنا قرآن پاک پڑھتے تھے بلامبالغہ ہمارا پورا خاندان مل کر بھی اتنا نہیں پڑھتا تھا۔ہر ہفتے ڈیڑھ بعد قرآن پاک ختم کر لیتے تھے اور رمضان میں تو بلا مبالغہ آٹھ دس قرآن پاک ختم کرتے تھے اور اپنے قریبی مرحوم رشتے داروں کو ہدیہ کر دیتے تھے۔ پھر صرف ناظرہ قرآن پاک ہی نہیں قانع نہ تھے بلکہ ترجمہ و تفاسیر بھی پڑھتے تھے۔ گھر میں کئی تفاسیر موجود تھیں اور وہ ان سے باقاعدہ استفادہ کرتے تھے۔ ہمارا یقین ہے کہ قرآن پاک ایسی کتاب ہے کہ جو کفار مکہ کے سخت دلوں کر نرم کر سکتی ہے تو اس کا باقاعدہ پڑھنے اور ممکن حد تک عمل کرنے والا سخت دل اور بخیل ہو ہی نہیں سکتا۔
پچھلے جمعے یعنی 26 اپریل 2024ء کو فجر کے وقت ہماارے بابا جی اللہ کے حضور پیش ہو گئے اور اپنے آبائی علاقے کے قبرستان میں اپنے والدین اور بہن کے ساتھ مدفون ہیں۔ ہم ان کے جنازے و تدفین میں شریک نہ ہو پائے کہ بیرون ملک ہونے کی کچھ نہ کچھ قیمت تو ہوتی ہے ۔ان کی ہمشیرہ یعنی ہماری نانی مرحومہ اکیس سال قبل 2003ء میں انتقال فرما گئی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر دونوں بہن بھائیوں کی قبریں بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے باباجی ، نانا، نانای،دادا دادی، دو پھوپھیوں کے ساتھ دیگر مرحومین کے درجات بلند کرے اور انھیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔