مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا  کی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا  کی

    تحریر: ابنِ ریاض

    کہتے ہیں کہ پچھلے وقتوں میں ہمارے ہمسایہ گاؤں میں ایک کبڈی کا کھلاڑی تھا۔ اس کا کسی سے مقابلہ ہوا اور اس کے مخالف نے اسے گرا دیا۔ پھر وہ جیت کی خوشی میں رقص کرنے لگا تو ہارنے والے نے پوچھا کہ بھئی تم اتنے خوش کیوں ہو رہے ہو ؟ جیتنے والا کھلاڑی بولا کہ تمھیں ہرایا  جو ہے۔ اس پر ہارنے والا بولا۔’ اس میں خوشی کی کیا بات ہے ؟ میں آج تک جیتا کس سے ہوں؟ مجھے تو سب ہی ہراتے ہیں ۔’بنگلہ دیش والے ہمیں ہر اکر بہت خوش ہو رہے ہیں لیکن انھیں شاید معلوم نہیں کہ  گھر میں کھیلے گئے پچھلے درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں ہم نے کوئی ایک بھی نہیں جیتا۔

    پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ بنگلہ دیش سے سیریز ہار گیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بنگلہ دیش جیت گیا۔ اس پر بہت تبصرے ہو چکے ہیں اور مختلف ماہرین اپنی آراء میں ہماری کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر لے دے کر رہے ہیں تاہم ہمارا خیال ہے کہ سارا قصور کھلاڑیوں کا انتطامیہ کا نہیں ہے۔ کچھ دیگر عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔

    سب سے پہلے تو یہ سیریز ہوئی ہی غلط وقت پر ہے۔حسینہ واجد کی حکومت کو گئے ابھی دو ہفتے بمشکل ہوئے تھے کہ سیریز شروع کر دی گئی۔ دو ہفتے میں سولہ سال کا غصہ کہاں ٹھنڈا ہوتا ہے۔ سو بنگالیوں نے ہماری ٹیم کو بھی حسینہ واجد کی حکومت کی طرح دھو دیا۔ اس میں کرکٹ بورڈ کا قصور نہیں کیونکہ جب سیریز طے ہوئی تھی تو اس وقت بنگلہ دیش اور اس کی کرکٹ ٹیم کے حالات کچھ اور تھے۔

    کچھ قصور وکٹ بنانے والوں کا بھی ہے۔ انھیں جیسا بھی حکم دیا جائے وہ اس کے الٹ کرتے ہیں۔ اب ٹھیک بچ بناے کے لئے انھیں الٹ کہا جائے۔تیز پچ بنوانی  ہو تو انھیں کہنا چاہیے کہ ٹرننگ پچ چاہیے۔ اور ٹرننگ پچ بنوانی ہو تو انھیں پرتھ کی پچ بنانے کا کہنا چاہیے۔ اس سے ہم کم ز کم پچ حسبِ منشاء حاصل کر لیں گے۔  پہلے میچ میں تیز پچ بنانے کا کہا اور ہم نے چار تیز گیند باز کھلا لئے۔ پچ پہلا آدھ گھنٹہ واقعی تیز کھیلی مگر بعد میں ہوا یہ کہ پچ اتنی سست ہو گئی کہ آخری روز نو کی نو وکٹیں ان کے آہستہ رفتار گیند باز لے گئے۔ ہمارے بلے بازوں کا کیا قصور؟ انھیں تو دایاں دکھا کر بایاں مارا گیا۔

    دوسرے میچ میں ہم نے پچھلی غلطیوں سےب سبق سیکھتے ہوئے ایک دھیمی رفتار کا گیند باز ڈالا تو انتظامیہ کا فیصلہ اس وقت ٹھیک دکھائی دی جب بنگلہ دیش کے سپنر نے پہلے ہی روز پانچ وکٹیں لے لیں۔ تاہم  پچ کا مقصد اب بھی پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلنا تھا کیونکہ ہماری مرتبہ پچ تیز ہو گئی اور ہمارے سپنر کو ایک بھی وکٹ نہ مل سکی۔ آخر کار جز وقتی سپنر نے اختتامی دو وکٹیں لے  کر کفر توڑا۔تاہم پاکستان کے ساتھ دوبارہ دھوکہ تب ہوا جب دوسری اننگز میں دس کی دس وکٹیں بنگلہ دیش کے تیز رفتار بالر لے گئے۔ اب نصاب سے باہر کا سوال آئے تو طالب علم کا کیا قصور؟

    پھر قدرت کا نظام بھی پاکستان کے خلاف تھا۔ میچ تو پہلے ہی نہیں جیتتے تھے اب تو ٹاس جیتنے سے بھی گئے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست کا ذمہ دار محکمہ موسمیات بھی ہے کیونکہ اس نے آخری دو دن بارش بلکہ شدید بارش کی پیشین گوئی کی تھی۔ پہلا دن ویسے ہی ضائع ہو گیا تھا تو ہماری ٹیم نے ٹیسٹ میچ کھیلا ہی دو دن کی منصوبہ بندی سے تھا اور دو دن میں اپنی دو باریاں مکمل کرنا ہی ہمارا مقصد تھا۔خود سوچیں کہ اگر  محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی ٹھیک ہوتی تو میچ ہم نے بآسانی ڈرا کر لینا تھا۔

    کھلاڑیوں کی بات کریں تو عبداللہ شفیق کا امام الحق کے بغیر دل ہی نہیں لگ رہا۔ سڈنی ٹیسٹ  میں جب سے امام ڈراپ ہوا ہے عبداللہ کا بیٹ چلنا بند ہو گیا ہے۔ صائم ابھی نیا ہے اور ٹی ٹونٹی کی وجہ سے ٹیم میں آیا ہے تو سمجھتا ہے کہ پچاس رنز کافی ہوتے ہیں ایک اننگز کے لئے اور ٹی ٹونٹی میں چونکہ ایک ہی اننگز ہوتی ہے تو دوسری اننگز صائم سے کھیلی نہیں جاتی۔

    شان کو کپتانی اس شرط پر ملی تھی کہ وہ صرف کپتانی پر دھیان دے گا اور بیٹنگ میں چند درجن سے زیادہ گیندیں نہیں کھیلے گا۔ خدانخواستہ اس کی فی اننگز اوسط تیس کا منحوس ہندسے پار نہ کر جائے۔علاوہ ازیں اس کو ذمہ داری سونپی گئی کہ ٹیم کے سب کھلاڑیوں کو بلے بازی کے برابر مواقع ملیں۔ سو الحمد للہ وہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ کپتانی البتہ بہت اچھی کی تاہم وہ بھول گئے کہ وہ پاکستان ٹٰیم کے کپتان ہیں بنگلہ دیش کے نہیں۔

    نجانے بابر کے متعلق کس نے یہ افواہ بنگالی بھائیوں کو پہنچا  دی کہ وہ حسینہ واجد کا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔ بنگالی گیند بازوں نے بابر سے وہی سلوک کیا جو ان کی قوم نے حسینہ واجد سے کیا تھا۔

    سعود شکیل و رضوان کی وجہ سے ٹیم میں پھوٹ پڑ گئی کیونکہ پہلے ٹیسٹ میں ان کی لمبی شراکت کی وجہ سے نچلے نمبر کے کھلاڑیوں کی باری ہی نہیں آئی۔ چنانچہ نہ انھوں نے دل سے گیند بازی کی اور نہ ہی دوسری اننگز میں دلجمعی سے بلے بازی۔ سعود شکیل تو جونئیر ہے سو وہ تو ان کے دباؤ میں آ گیا اور اس نے لمبی اننگز سے بلکہ چھوٹی اننگز سے بھی توبہ کر لی۔جو چند رنز اس نے بنائے وہ بھی بنگالی فیلڈروں کی نااہلی تھی۔یوں بھی سعود شکیل جب سے لال و سفید دونوں گیندوں کی ٹیم میں شامل ہوا ہے اس کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ پھر اس نے عبداللہ شفیق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رنز نہ کرنے کے ساتھ کیچ نہ کرنے کی صلاحیت  میں بھی کافی ترقی کر لی ہے۔

     رضوان چونکہ سینئر بھی ہے اور کچھ پٹھان بھی ہے تو اس نے ہر اننگز میں اپنی پوری باری لی۔ تاہم   دوبارہ سینکڑا    مارنے سے گریز  گیا۔سلمان نے پہلے ٹیسٹ میں تو ناراضی دکھائی اور جلدی آؤٹ ہوا تاہم دوسرے میں اس نے ٹھیک بلے بازی کی مگر سب کو باری دینے کے چکر میں آخری کھلاڑیوں کو بھی پورا پورا اوور کھیلنے کو دے دیتا تھا اور پھر اسی اوور میں ان کی باری مکمل ہو جاتی تھی۔

    گیند بازوں کی بات کریں تو نسیم شاہ بیماری سے فٹ ہو کر آیا تھا اور خرم و محمد علی نئے تھے جبکہ شاہین آفریدی کا بیٹا ہوا تھا۔ سو خوشی کا تقاضا تھا کہ بنگلہ دیشی بھائیوں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا جائے سو آفریدی نے شیرینی میں رنز دیئے۔

    دوسرے میچ میں چھبیس پر چھ آؤٹ کر کے ہم نے سمجھا کہ ان کے نچلے کھلاڑی بھی ہماری ٹیم جیسے ہی ہیں لیکن وہ واقعی بہت نیچ نکلے۔ ہم تو میزبان تھے مہمان کو خود بھی کچھ اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہیے۔

    خیر ہم ہی شریف ہیں ورنہ جب ہم مہمان بنتے ہیں تو میزبان نے کبھی مروت و اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ والے تو بڑے ہی بدتمیز ہیں۔ اب تو نیوزی لینڈ والے بھی انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ تاہم کچھ مسئلہ ہمارے کھلاڑیوں کا بھی ہے کیونکہ  جنوبی افریقی  سابق کپتان گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ تیسری اننگز  میچ کی سب سے اہم اننگز ہوتی ہے۔ اسی میں میچ بنتا  یا یاتھ سے نکلتا ہے۔ پچھلے چار میں سے تین ٹیسٹ میچوں میں تیسری اننگز کے ابتدئی ایک آدھ گھنٹے میں ہمارا پلہ بھاری تھا بلکہ دو میں تو ہمیں لیڈ بھی مل چکی تھی بھلے واجبی  ہی سہی مگر پھر  تیسری اننگز  میں ہماری ٹیم خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔

    محسن نقوی نے ٹیم کی سرجری کا اعلان کیا تھا۔تاہم چونکہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں تو انھوں نے غلط سرجری کر دی۔ اب سنا ہے کہ دورہ برطانیہ سے پہلے اک اور سرجری ہونے جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ جراحت مرض کو ختم کرتی ہے یا

    مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

    والا معاملہ سامنے آتا ہے۔

     پاکستان میں دو سال پہلے انگلینڈ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کلین سویپ کی۔ وہ غیر مسلم ملک بھی تھا اور کرکٹ کی دنیا کا ایک بڑا ملک بھی۔ اب بنگلہ دیش سے کلین سویپ ہو کر ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم چھوٹے بڑے اور مسلم و غیر مسلم میں تمیز نہیں کرتے۔ ہم مساوات کے قائل ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں۔ نیز یہ کہ اس ملک میں نا صرف امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہے ، میزبانی میں بھی ہم سا کوئی نہیں۔ غیر ملکی  کھلاڑیوں کے قیام و طعام کے علاوہ عزت نفس کا بھی خیال رکھتے ہیں۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔