ابنِ ریاض سعودی عرب میں درس و تدریس سے منسلک ہیں اور وہاں ایک جامعہ میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کا تعلق اٹک سے ہے۔ ابتدائی تعلیم کامرہ میں حاصل کی ۔ انجنئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا سے الیکٹریکل انجئرنگ میں ڈگری لی۔ ماسٹرز نسٹ سے الیکٹریکل انجئرنگ میں کیا۔ پاکستان میں رفاع یونیورسٹی، اردو یونیورسٹی اور کامسیٹس واہ میں تدریس سے وابستہ رہے اور گذشتہ پانچ برس سے حجاز مقدس میں ہیں ۔ابن ریاض ان دنوں پاکستان ہیں اور پچھلے دنوں ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔بہت ہی اچھے اور ملنسار شخصیت ہیں۔ گزشتہ پانچ چھ سال سے کالم نگاری کر رہے ہیں اور ملک کے قریب سبھی قابل ذکر اخبارات میں ان کے کالم و انشائیے شائع ہو چکے ہیں۔ان کے کالموں کی کتاب ‘شگوفہ سحر ‘حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔انھوںنے اپنی کتاب بھی پڑھنے کے لئے دی۔یہ کتاب پڑھ کر ہم ان کے پرستار ہو گئے ہیں۔ دو سو چالیس صفحات اور 75 کالمز پر مشتمل یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ اس دور میں جب کہ ہر طرف اندھیرا، اداسی مایوسی اور قنوطیت چھائی ہوئی ہے، ابن ریاض اپنے قلم کے ذریعے مسکراہٹوں اور قہقہوں کی شمع جلا کر ان اندھیووں میں روشنیاں بکھیر رہے ہیں ۔
شگوفہء سحر اپنے نام کی طرح شگوفے بکھیرتی ایسی کتاب ہے کہ جس کا ہر کالم ایک نئے رخ اور ایک نئے زاویئےسے زندگی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ابن ریاض قدرتی مزاح نگار ہیں۔ مزاحیہ نثر لکھنے کے ماہر ہیں اور اسی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ابن ریاض کا انداز بیاں ایساہے کہ قاری کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ روزمرہ ہونے والے واقعات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ قاری کو یہ اپنی واردات محسوس ہوتی ہے۔ابن ریاض کے لئے موضوع کی کوئی قید نہین۔ معاملہ ناموں کا ہو’ یا بچوں پر لکھنا ہو، موضوع ناول ہو یا ملاوٹ ابن ریاض سب پر بلاتکان لکھتے ہیں۔کبھی گاڑی چلاتے ہوئے سعودی عرب اور پاکستان کی ٹریفک کا تقابل کرتے ہیں تو کبھی بھائیوں کی ان کے قلم کے ہاتھوں شامت اعمال آ جاتیہے۔’عمران اعوان سے ابن ریاض تک’میں وہ اپنے قلمی نام کی انتہائی دلچسپ وجوہات بتاتے ہیں تو ‘ہم میرا سے کم نہیں ‘میں اپنا اور میرا کا تقابلی جائزہ ایسے لیتے ہیں کہ قاری کے لئے ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کرکٹ پاکستان عوام پسندیدہ کھیل ہے اور اس کیہار اور جیت سے پاکستانی عوام کا مزاج بنتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے مھر ابن ریاض نے اس میں بھی مزاح کا پہلو نکال لیا کرکٹ ار لڑکی ایک دوسرے کی سوکن ہیں اورکرکٹ کے پر مزاح واقعات ایسے ہی کالم ہیں ۔ ۔ چند دوسرے کالموں نے انھوں نے کرکٹ کی تکنیکی باتوں کو ایسے عام فہم انداز میں بیان کیا ہے کہ کرکٹ نہ جاننے والا بھی ان کا مفہوم بآسانی سمجھ لیتا ہے ۔
اس کتا ب میں ابن ریاض کے قلم سے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی شخصیات کا تعارف ملے گا۔ جنہیں آپ نے نہایت عمدگی سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ابن انشاء معیں اختر اور امجد صابری کو خوبصورت الفاط میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
سنجیدہ پڑھنے والوں کے لئے بھی اس کتاب میں کچھ کالم ہیں ۔شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات،میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ایسے ہی مضامیں ہیں کہ جو سنجیدگی کے ساتھ ساتھ دماغ کو سوچنے کے نئے در بھی وا کرتے ہیں۔ تاہم کتاب کا بنیادی موضوع مزاح ہی ہے جس میں کہیں کہیں طنز کا تڑکا لگایا گیا ہے۔
مزاح نگاری ایک مشکل کام ہے۔ ہر شخص یہ کام نہیں کر سکتا۔ مزاح اور بیہودہگی میں معمولی سی حد فاضل ہوتی ہے مہذب اور شائستہ مزاح کہ جو کوئی بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ بیٹھ کرپڑھ سکے اور بھی مشکل کام ہے۔ ابن ریاض نے یہ کام کر دکھایا ہے جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔