ملائشیا والوں غسل خانے کے دروازے بھی اہم ہوتے ہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ملائشیا والوں غسل خانے کے دروازے بھی اہم ہوتے ہیں

    ڈاکٹریٹ میں داخلے کے لئے ہم نے ملائشیا کی ایک جامعہ میں در خواست کی جو کہ قبولیت سے سرفراز ہوئی۔ اس میں ہمارا کمال نہیں، انھیں ہی ہم سے لائق شاید کوئی نہ ملا تھا۔ ورنہ ہم نے تو ایسی دوخواستیں کہاں کہاں نہیں بھیجی اور انھوں نے ہم سے اتنے پیسوں کا مطالبہ کیا کہ جو ہم شاید خود کو بیچ کر بھی نہ دے پاتے۔ نمبر ہمارے اتنے تھے نہیں کہ وظیفہ ملتا۔ ویسے بھی ہم غیر ملکی امداد کے مخالف ہیں کہ اس کے پیچھے ان کے مذموم عزائم بہر حال ہوتے ہیں۔ یہ قبولیت چونکہ ایک اسلامی ملک کی جامعہ سے تھی اور اس کا محنتانہ معاوضہ بھی ایسا تھا کہ ہم اس کی استطاعت رکھتے تھے تو ہم نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔
    داخلہ کی شرائط کی تکمیل اور اپنے ڈاکٹریٹ کے پروگرام کے نگران سے ملاقات کے لئے ہمیں ملائشیا آنا پڑا ۔ ہمارے نصیب میں تین میں سے دو جامعات تو دور افتادہ مقامات کی نکلی۔ ٹیکسلا یونیورسٹی بھی کھنڈرات میں بنائی گئی اور اب یہ بھی کوالالمپور سے کوئی تین سو کلومیٹر ‘کانگر’ کے علاقے میں ہے۔ نسٹ یونیورسٹی پہلے تو شہر میں تھی مگر ہماری ڈگری وصولی تک وہ بھی ناقابل رسائی ہو چکی تھی( بغیر گاڑی والے ہم جیسے بندے کے لئے)۔
    ہمارے داخلے کے لئے انھوں نے یکم جولائی کے بعد کا وقت دیا تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے ملاقات کر لی جائے۔ واپسی پر ملائشیا کو بھی رونق بخشتے جائیں گے۔وہ ہوائی کمپنی جس کا کرایہ قدرے مناسب تھا اس نے پہلے ہمیں قطر اتارنا تھا اور اس کے بعد ملائشیا لے جانا تھا۔آپ یوں سمجھیں کہ جیسے کسی کو لاہور سے کراچی جانا ہو تو لے جانے والا اصرار کرے کہ پہلے پشاور جاؤ پھر لے جاؤں گا کراچی وہاں سے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کرایہ چونکہ مناسب تھا تو سوچا کہ چلو دوہا کا ہوائی اڈا ہی دیکھ لیں گے۔ قصہ مختصر ہماری فلائٹ نصف دن پر محیط تھی اور انتظار کا وقفہ ملا کر کوئی اٹھارہ گھنٹے کا سفر تھا۔ ہوٹلوں کی بکنگ ہم نے نیٹ سے کروا لی تھی۔ ایک رات کوالالمپور اور کم وبیش دو ہفتے ‘کانگر’میں۔ مقصد اس کا شہر پہنچ کر مزید خواری سے بچنا تھا۔
    ملائشیا والوں کو نجانے کس نے بتا دیا کہ ہم نے ریل کے زیادہ سفر نہیں کیے اور ہمیں ان کی حرص ہے۔جہاز سے اتار کے انھوں نے ریل پر چڑھا دیا کہ امیگریشن کا کاؤنٹر کافی دور تھا۔ہم وہاں پہنچے۔ قطار میں لگے۔ اپنی باری پر ضابطے کی کارروائی سے فارغ ہوئے اور نکلے ٹیکسی کی تلاش میں۔ہوٹل ہمارا نیلائی کے علاقے میں تھا۔ ہوٹل کا پتہ ٹیکسی والے کو بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ایک دو ساتھیوں سے پوچھا تو کوئی نہ بتا پایا اور آخر کو چچا گوگل کا خیال آیا۔اس نے بتا دیا کہ واقعی ایک ہوٹل ہے وہاں جس کے ہم متمنی ہیں۔ کچھ مشکل سے سہی ہم نے اسے پا لیا اور اپنا سامان لے کر داخل ہوئے۔ بکنگ دکھانے پر اس نے کمرہ دکھایا اورچابی ہمارے حوالے کر کے نکل گیا۔ہم نے کنڈی لگائی اور سامان رکھ کے کمرے کا جائزہ لیا۔ کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا تاہم مناسب تھا۔ کچھ تنگ تھا مگر ایک بندے کے لئے برا نہیں تھا۔
    ابن انشا دوسرے ممالک میں جا کر پہلے کمروں کے غسل خانوں کا جائزہ لیتے تھے۔ ہم نے نہیں لیا اور اس کا خمیازہ بھی فورًا ہی بھگت لیا کچھ دیر بیڈ پر سستانے کے بعد ہم نے غسل خانے کا رخ کیا۔کمرے کے ہی ایک حصے میں گتے کی دیواروں سے ایک گوشہ جدا کر کے اسے غسل خانے کی شکل دے دی گئی تھی۔ اکیلے بندے کے لئے کنڈی لگانے بلکہ بند کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی مگر ہم عادت سے مجبور ٹھہرے۔دورازہ بند کر کے تھوڑا زور سے دبایا تا کہ چٹخنی لگ سکے۔ وہ تو کیا لگتی دروازہ پکا بند ہو گیا۔ ہم نے ایک دو بار زور لگا کر کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اب ہم جس کام کے لئے آئے تھے وہ تو بھول گئے، ہمیں تو نکلنے کی پڑگئی۔ دیار غیر میں پہلی ہی رات بھاری پڑ گئی۔جیب میں ہاتھ مارا تو وہاں نہ والٹ تھا نہ موبائل۔ ہمارا ارادہ ابن نیاز کو فون کرنے کا تھا کہ پاکستان سے کسی کو بھیج جو ہمارا مسئلہ حل کر سکے۔اضطرابی کیفیت میں انسان ایسی ہی انہونیاں سوچتا ہے۔ہوٹل کے عملے کو بھی فون کرنا ممکن نہ تھا کہ ہمارے پاس موبائل تھا ہی نہیں اور ویسے بھی ہوٹل کا فون تو کاغذات میں تھا جو کہ بستر پر لمبے سفر کے بعد استراحت فرما رہے تھے۔ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی چیز کہ جو دروازے کی درز میں پھنس سکے۔چابی تک نہ ملی۔ سچ ہے کہ مشکل وقت میں چابی بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ (سایہ ہمارا بن رہا تھا غسل خانے کی لائٹ میں)۔
    غسل خانے کی گتے کی دیواروں اور چھت میں کچھ دو تین فٹ کا فاصلہ تھا۔ہم نے کموڈ کی پر چڑھ کے جھانکا تو کمرے میں ٹی وی اور بستر پر نظر پڑی۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ گتے کی دیوار پھلانگ لی جائے۔ مگر یہ ہم صرف سوچ ہی پائے کہ ایک تو گرے تو چوٹ بہت شدید آنی ہے اور یہاں اب رات کو ڈاکٹر کہاں سے ملے گا۔ دوسرایہ کہ آگے بہت سفر کرنا ہے اور بہت ضروری معاملات نبٹانے ہیں۔ نیز یہ کہ دیوار کمزور تھی۔ ہمارا وزن نہ سہار پاتی اور گر جاتی تو کیا خبر مالک ہم سے کنکریٹ کی دیوار کے پیسے وصول کرتا۔
    ہم اے سی کی موجودگی میں بھی پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔کبھی سوچتے کہ صبح کمرے کی صفائی والا آ کے کھولے گا تو ہمارے نکلنے کی سبیل بن جائے گی۔ پھر سوچتے کہ اگر وہ نہ آیا تو پھر کیا ہو گا؟ آ بھی گیا تو ہم نے اندر سے کنڈی لگا رکھی ہے تو ہمارے نکلنے کے ٹائم تک تو کسی نے آنا نہیں۔ اور تب تک ہماری کیا حالت ہو جانی؟ علی عمران اور دیگر کردار بھی یاد آئے کہ جو ایسے مسائل چٹکی میں حل کر لیتے ہیں مگر ہم عمران کے ہم نام ہونے کے باوجود ان معاملات میں بالکل کورے ہیں۔ کاش موبائل ساتھ لے آتا توکسی سے کہہ کے مظہر کلیم یا ظہیر احمد سے اپنے مسئلے کا حل پوچھتا۔ کاش کا لفظ تو ظاہر ہی حسرت کو کرتا ہے۔
    کچھ دیر ایسے ہی سوچنے کے بعد ایک بار پھر اللہ کا نام لے کے ہمت کی کہ اس کے علاوہ کوئی سبیل تھی ہی نہیں۔ کموڈ کے فلش(ٹینکی) میں جھانکا تو ایک ایس کی شکل کی پتری نظر آئی۔ کچھ تگ و دو کے بعد ہم اسے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ پتری ہم نے دروازے میں ڈالی تو تیسری کوشش میں دروازہ کھل گیا۔ ہم نے سکون کا سانس لیا اور فیصلہ کر لیا کہ ملائشیا میں قیام کے دوران سب سے پہلے غسل خانے کے دروازہ کا معائنہ کرنا ہے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    8 تبصرے برائے “ملائشیا والوں غسل خانے کے دروازے بھی اہم ہوتے ہیں”


    1. ابیہا مقبول
      بتاریخ دسمبر 13th, 2017
      بوقت 5:52 شام

      چلتےہو تو ملائیشیا کو چلیے۔لیجیے سفر نامہ تو خوب ہے۔آپ نے جس طرح ٹیکسی والے کا ذکر کیا ہے کہ اسے ہوٹل کا پتہ معلوم نہیں تھا گوگل چچا سے مدد لینی پڑی تو یہاں پاکستان میں تو ایسے حالات میں خوب کمائی ہو جاتی ہے چنگ چی والوں کی عید ہو جاتی ہے ان کی تو۔سستے میں ایسے ہی بندوبست ہوا کرتے ہیں ایک تو ہمارے جیسی اناڑی پاکستانی مخلوق من جانب اللہ معصوم ہوتی ہے دوسرے یہ مناسب کرایوں والے چکربندے کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔علی عمران و دیگر کو بھی ایس شکل کی پتری فلش سے برآمد کرنے کا خیال نہ آیا ہو گا۔ویسےآپ گئے کس سنہ میں تھے ملائیشیا کیونکہ آجکل تو ہوٹلز میں صحیح کنکریٹ کی دیواروں والے غسل خانے موجود ہیں۔


    2. ابنِ ریاض
      بتاریخ دسمبر 14th, 2017
      بوقت 6:29 صبح

      بہت ہی زبردست تبصرہ ہے ،،،،واقعی ایسا ہی ابیہا مقبول صاحبہ۔۔۔۔۔۔البتہ علی عمران کا ہی تو سوش کر دماغ نے اتنا کام کیا تھا اور یہ سانحہ 2015 میں پیش آیا تھا


    3. طاہر بلوچ
      بتاریخ مارچ 31st, 2018
      بوقت 9:16 صبح

      واااااااہ کیا کہنے بہت خوبصورت سفر نامہ

      ویسے عمران اعوان المعروف ابن ریاض ہے اسی قابل


    4. ابنِ ریاض
      بتاریخ مارچ 31st, 2018
      بوقت 10:17 صبح

      جی بالکل دوست ہی ایک دوسرے کو ٹھیک پہچانتے ہیں جناب


    5. عدیل
      بتاریخ اپریل 26th, 2018
      بوقت 4:41 صبح

      Great writing ibn-riyaaz


    6. ابنِ ریاض
      بتاریخ اپریل 26th, 2018
      بوقت 7:05 صبح

      thnx a lot janab


    7. ابنِ ریاض
      بتاریخ فروری 12th, 2020
      بوقت 6:57 شام

      بہت شکریہ سلامت رہیں

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔