تحریر: ابنِ ریاض
رواں برس مئی کے وسط سے لے کر جون کے ابتدائی دو عشرے یعنی کہ پانچ ہفتے پاکستان کرکٹ کے لئے بےحد شاندار رہے۔مئی کے وسط میں پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کو اس کے گھر میں ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا اور یہ ایک شاندار جیت کے ساتھ ہی مصباح الحق اور یونس خان کا کیریئر اختتام پذیر ہوا۔تاہم یہ کامیابی اتنی غہر متوقع نہیں تھی کہ پاکستان بہرحال ویسٹ انڈیز سے بہتر ٹیم ہے۔
ٹیم کی اگلی مہم چیمپئز ٹرافی تھی اوریہ ایک مشکل امتحان تھا۔پاکستان ٹیم کی ایک روزہ میچوں میں ماضی قریب میں پاکستان کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی ٹیم چیمپئز ٹرافی میں شریک آٹھ ٹیموں میں آٹھویں یعنی کہ آخری پوزیشن پر براجمان تھی۔ اس حالت میں پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنا ہی شائقین کومطمئن کرنے کے لئے کافی تھا۔
پاکستان کے پولمیں بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا تھیں جنکہ دوسرا پول میزبان برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور بنگلہ دیش پر مشتمل تھا۔ پاکستان کا پہلا میچ بھارت سے تھا اور پہلے میچ میں پاکستان کے آٹھویں نمبر والی ٹیم کی کارکردگی ہی دکھائی۔ بھارت نے بآسانی پاکستان کو ایک سو تئیس رنز سے شکست دی۔ بیٹنگ، بائولنگ اور فیلڈنگ کسی شعبے میں بھی پاکستان ٹیم نے قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اس شکست کے بعد پاکستان کے لئے اگلے دونوں میچ ‘مرو یا مر جائو’ کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اگلا میچ عالمی نمبرون جنوبی افریقہ سے تھا۔ پاکستان نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کو دو سو انیس تک محدود کر دیا۔ اس کے بعد پاکستان نے ستائیس اوورز میں تین وکٹ پر ایک سو انیس رنز بنائے تھے کہ بارش ہو گئی۔ پاکستان ڈک ورتھ لوئیس طریقے کے مطابق فاتح قرار پایا۔
پاکستان اور سری لنکا کا میچ ایک لحاظ سے کورٹر فائنل تھا، جیتنے والی ٹیم سیمی فائنل میں جاتی اور ہارنے والی گھر۔ پاکستان نے سری لنکا کو دو سو اڑتیس تک محدودکیا اور اچھا آغاز کے باعث جیت یقینی تھی کہ پاکستان کی وکٹیں دھڑا دھڑ گرنے لگیں۔ ایک موقع پر پاکستان کو ستر سےزائد رنز درکار تھے اور اس کی محض تین وکٹیں باقی تھیں۔ سرفراز اور عامر نے دھیرے دھیرے اسکور کو بڑھانا شروع کیا تو قسمت نے بھی پاکستان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ ایک اوور تھرو پر پانچ رنز ملے تو جلد ہی سرفراز کے دو نسبتاً آسان کیچ سری لنکا کے فیلڈروں نے چھوڑ کر اپنی شکست پر مہر لگا دی۔پاکستان جیت کر سیمی فائنل میں جا پہنچا۔
سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ برطانیہ سے تھا جواپنے تینوں میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔ پاکستان نے ایک بار پھر پہلے بائولنگ کی اور انگلش ٹیم کو دو سو گیارہ پر ڈھیر کر دیا۔ مطلوبہ سکور پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کر کے فائنل میں جگہ پکی کر لی۔ دوسرے سیمی فائنل میں بھارت نے بنگلہ دیش کو زیر کر کے پاکستان سے مقابلے کے لئے جگہ پکی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں پاکستان کرکٹ پر وار کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور قدرت نے دونوں کو پاکستان سے کھیلنے پر مجبور کر دیا۔
فائنل میں پاکستان کو بھارت نے بیٹنگ کی دعوت دی۔ فائنل ایک حیرت انگیز میچ تھا کہ اس میں بہت کچھ توقعات کے خلاف ہوا۔ابتدا میں فخر زمان آئوٹ ہوئے مگر وہ نو بال نکل آئی۔ اسکے بعد اظہر علی جو کہ سست بیٹنگ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں وہ فخر زمان سے تیز کھیلے دکھائی دیئے۔ اس کے علاوہ محمد حفیظ نے بھی کافی تیز بیٹنگ کی۔ فخر زمان نے شاندار سینکڑا سکور کیا۔ پاکستان نے توقعات سے زائد یعنی کہ تین سو اڑتیس رنز کا مجموعہ بورڈپر سجا دیا۔بھارت کی توقعات کا مرکز ان کے ابتدائی بلے باز تھے۔ شرما، دھون اور کوہلی کسی بھی بائولنگ کے لئے ڈرائونا خوابہو سکتے ہیں مگر اس دن محمد عامر کے ارادے بھی خطرناک تھے۔ عامر نے ان تینوں کو اپنے پہلے ہی اسپیل میں چلتا کر کے بھارت کی شکست پر مہر لگا دی۔ کوہلی کاایک کیچ اظہر نے گرایا مگر اگلی ہی بال پر شاداب نے کیچ پکڑ لیا۔ دھون کی مزاحمت بھی ابتدائی دس اوورز ہی رہی جبکہ شرما تو پہلے ہی اوور میں آئوٹ ہو گیا تھا۔ دھونی اور یوراج بھی جلد ہی آئوٹ ہو گئے۔ اس کے بعد رسمی کارروائی باقی تھی۔ پاکستان نے بھارت کو ایک سو اسی رنز کے بھاری فرق سے شکست دے کر پہلی مرتبہ چیمپئن ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ عالمی کپ 1992 کے بعد پچاس اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کا دوسرا بڑا اعزاز ہے اور اس مرتنہ بھی یہ اعزاز رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نصیب ہوا۔اس مہینے میں اللہ کی رحمتیں عروج پر ہوتی ہیں اور اس کا مظاہرہ اس ٹورنامنٹ میں بھی ہوا۔ وہاب ریاض اور احمد شہزاد کی فارم بالکل ٹھیک نہیں تھی۔ وہاب ریاض ان فٹ ہوئے اور احمد شہزاد کی جگہ فخر زمان کو موقع ملا۔ اس کا پاکستان کو خوب فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ بھی جس کھلاڑی کو موقع ملا اس نے قابل ذکر کارکردگی دکھائی۔ شاداب خان،فہیم اشرف اور روما رئیس سب نے ہی اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔
اس کارکردگی پر قومی ٹیم کی ستائش بھی جاری ہے۔ وزیرِ اعظم، کرکٹ بورڈ اور دیگر اداروں نے قومی ٹیم کو گرانقدر انعامات سے نوازا ہے اور یہ اس کے مستحق بھی ہیں۔پہلی بار ایسا ہوا کہ آٹھویں درجہ بندی کی ٹیم نے کوئی اتنا بڑا ٹورنامنٹ جیتا ہے۔تاہم کھلاڑیوں کو اپنے پائوں زمین پر رکھتے ہوئے مزید اچھی سے اچھی کارکردگی دکھانی چاہیے تا کہ یہ ٹرافی ‘تکا ‘ ثابت نہ ہو اور سب لوگ تسلیم کریں کہ پاکستان اس جیت کا مستحق تھا۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: نومبر 30th, 2017
زمرہ: کرکٹ تبصرے: ایک
ٹیگز: azhar ali, Champions Trophy, england, Fakhar Zaman, india, Muhammad Amir, Pakistan, south africa