واٹس ایپ پر آج صبح ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی۔ اکثر اوقات وٹس ایپ پر آئی ہوئی ویڈیوز ڈاؤن لوڈ نہیں کرتا تو دیکھنا تو درکنار۔ ویڈیوں میں کوئی صاحب پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے تقریر کر رہے تھے۔ حاضرین نے ان کی تقریر سنی ہو گی، معلوم نہیں کتنے ان میں اس قابل ہوں گے جو ان کی آواز کو حکام بالا تک پہنچا سکتے ہوں گے۔ ان کی کہی ہوئی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے اہل ہوں گے، قابل ہوں گے۔ سوچا کہ کیوں نہ میں بھی ان کی تقریر کے حوالے سے کچھ اپنے الفاظ بھی بیان کر سکوں۔ اگرچہ جو لکھوں گا اس حوالے سے مجھ پر کافی تنقید ہو گی ، لیکن کیا کروں، پاکستانی ہوں نا۔۔ رہا نہیں جاتا، سہا نہیں جاتا۔ شاید میرے الفاظ سے حکام بالا کے کانوں پر جوں رینگ جائے اور وہ پاکستان کو لوڈ شیڈنگ کے عفریت سے نجات دلانے کی دل سے سعی کرنے کی ٹھان لیں۔ شاید اﷲ کا کوئی نیک ، ایماندار بندہ کرسئی ناپائیدار پر بیٹھ جائے، جس کے نو رتن بھی اس کا ساتھ نبھانے والے ہوں، نہ کہ حکومت گرانے کی دھمکیاں دینے والے ہوں۔پاکستان واقعی جغرافیائی لحاظ سے تمام دنیا کی نظر میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے مد و جزر سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں اس کو ، اس کے عوام کو چکروں میں رکھتے ہیں۔ اس کے شمال میں واہ خان کی پٹی سے لے کرجنوب میں سمندر کی سرحد تک ، مشرق میں واہگہ باڈر سے لے کر مغرب میں ڈیورنڈ لائن کی سرحد تک، دنیا کا ہر ملک اس خطے پر جائز یا ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جس میں شاید مستقبل انتہائی قریب میں چین پیار محبت اور عشق کی لوریاں سناتے ہوئے کامیاب ہو جائے۔ خیر تو بات ہو رہی تھی پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی۔ تو ان حضرت نے، جو بھی تھے، بہت عمدہ اندازہ میں دو تین تجاویز دیں۔ جن پر میں نے غور کیا تو دل کو لگیں۔ یقینا قابلِ عمل ہیں۔ پاکستان میں کالا باغ ڈیم تو کسی نے بننے نہیں دینا، لیکن میں پھر بھی اسی حوالے سے لکھوں گا۔ دنیا کے بڑے بڑے انجنیئرز نے اس کے حق میں ہی اپنی تجاویز دی ہیں۔دنیا بھر کے ماہرین ڈیم نے باقاعدہ سروے اور تحقیق کے بعد اس ڈیم کو پاکستان کے چاروں صوبوں کے کے لیے انتہائی فائدہ مند قرار دیا ہے۔ان میں عالمی بینک کی مطالعاتی ٹیم کے اہم رکن شامل تھے۔ ان ماہرین میں ڈاکٹر پیٹر لف نک اور عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ساویج بھی شامل تھے۔ ان ماہرین نے ان دشوار گزار علاقوں کا ذاتی طور پر سروے کرنے کے بعد ڈیم کے لیے مجوزہ علاقے کو انتہائی موزوں قرار دیا۔ انتہائی حیرانی کی بات ہے کہ ۱۹۹۱ تک سب صوبے متفقہ طور پر اس ڈیم کے حامی ہو چکے تھے۔ کسی بھی صوبے کو کسی بھی قسم کا کوئی خطر نہیں تھا۔ لیکن کچھ باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت جو کبھی پاکستان کی ترقی کسی بھی لحاظ سے نہیں چاہتا، نے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش تیار کی۔ اور اب اس سازش کے تحت ہر سال کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں اربوں روپے صرف کر رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان میں موجود وطن فروش، وطن کے غدار برملا تو ان پیسوں کے وصولی کا اعلان نہیں کریں گے، نہ ہی کبھی مانیں گے کہ انہیں یا ان کی پارٹی کو اس مخالفت کے عوض محنتانہ مل رہا ہے۔ اس وجہ سے ہر صوبے سے سیاستدان اپنے اپنے صوبے کے نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے عوام خاص طور پر اے این پی پارٹی کے ممبران اور عہدیداران، جنھوں نے اپنی سیاست چمکانی ہے کہتے ہی کہ مردان ، نوشہرہ اور چارسدہ ڈوب جائے گا۔ جب کہ اصل صورتحال یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی زیادہ سے زیادہ اونچائی نو سو پندرہ فٹ رکھی گئی ہے۔ جیسے ہی پانی اس لیول کو کراس کرے گا، اوپر سے بہنا شروع ہو جائے گا اور دریائے سندھ میں رواں ہو جائے گا۔ نوشہرہ جو کالا باغ ڈیم کے قریب ترین شہر ہے، اس کی اونچائی ایک ہزار فٹ ہے۔ سندھ کے سیاستدانوں کا رونا درحقیقت ان کا ذاتی رونا ہے۔ کیونکہ انھوں نے زرعی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے اور اپنی مرضی سے اس اراضی کواستعمال کرتے ہیں۔ لیکن کالا باغ ڈیم بننے سے ڈیم کے بعد والے دریائے سندھ کے حصے سے نہریں نکالی جائیں گی، جس کی وجہ سے پانی ان علاقوں تک بھی پہنچایا جا سکے گا جہاں شاید پہلے صرف بارشوں کا انتظار رہتا تھا۔اسی طرح پنجاب میں بھی دریائی پانی ان علاقوں تک پہنچ سکے گا جہاں شاید پانی کی ہڑتال رہتی تھی۔ بلوچستان مفت میں رونا رو رہا ہے، حالانکہ اس کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن فائدہ ضرور ہے کہ کچھی کینال کی وجہ سے صوبہ بلوچستان کو اپنے پانی کے علاوہ اضافی پانی بھی دستیاب ہو گا، جس کی وجہ سے وہ بہت سی بنجر زمینیں سیراب کر سکے گا۔ جب ۱۹۹۱ میں اس ڈیم کے لیے سب صوبوں نے ہامی بھر کر اس کی حمایت کی تھی تو اس وقت پینتیس سو میگا واٹ بجلی کے حصول کا تخمینہ تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ چار ہزار میگا واٹ تک بڑھ جانا تھا۔ لیکن افسوس پاکستان کے مخالف ذہنوں پر ، جنھوں نے شاید ہی کبھی پاکستان کے حق میں، اس کے عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہو۔ اگر کبھی کوئی بات کی بھی ہو گی، تو اس میں بھی اس کا اپنا مفاد زیادہ ہو گااور عوام کا کم۔ ہر صوبے کے سیاستدانوں نے اس کی مخالفت کی۔ جب کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے واپڈا کے سابق چیئرمین اور سابق وزیر اعلیٰ جناب شمس الملک نے بھی اس کی بھرپور تائید کی تھی۔ تب اے این پی کے عبد الولی خان صاحب نے ان کو جب تنبیہ کی تھی کہ کالا باغ ڈیم کی حمایت سے باز آجائیں تو انھوں نے کہا تھا کہ یہ ڈیم ان کے صوبے کے لیے بہت فائدہ مند ہے اس لیے وہ اس کی تائید اور حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی عبد الولی خان صاحب ہیں جنھوں نے ۱۹۹۱ میں جب سب صوبے اس پر متفق ہوئے تھے تو کہا تھا کہ وہ پانی کے اس معائدے سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ اور پھر اچانک کیا کایا پلٹ ہوئی کہ دو سال بعد ہی ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔ حالانکہ ۱۹۹۱ ، اور پھر ۱۹۹۸ میں مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے ہر صوبے کے اعتراضات کو رفع کرکے مشترکہ اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ڈیم کو تعمیر کیا جائے۔کالا باغ ڈیم بننے سے چار ہزار میگا واٹ تک بجلی بن سکتی ہے اور جو پانی ڈیم کے بعد نکلے گا اس سے تقریباً ہر صوبے میں کئی لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان جو کبھی زرعی میدان میں ہمیشہ سے خود کفیل رہا ہے، ایک دفعہ پھر دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتا ہے۔ بہترین کوالٹی کی سبزیاں اور پھل نہ صرف پاکستان کی ضروریات پوری کریں گی بلکہ ان کو برآمد بھی کیا جا سکے گا۔ اگر یہ ڈیم اب بھی بن جاتا ہے تو پاکستان میں بجلی کی ضرورت جو اس وقت شاید بائیس ہزار سے چوبیس ہزار میگا واٹ ہے اور اس وقت دستیاب بجلی چودہ ہزار سے سولہ ہزار میگا واٹ ہے تو اس کی کمی کافی حد تک پوری کی جا سکتی ہے۔جو فرق باقی بچ جاتا ہے، وہ دوسرے ذرائع استعمال کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن شرط صرف اتنی سی ہے کہ مخلص قیادت پاکستان کو میسر ہو۔ جو خالص پاکستانی ہو، پاکستان کے لیے سوچتا ہو اور پاکستان کے لیے جیتا ہو اور مرتا ہو۔ جس کو کوئی ذاتی مفاد نہ ہو، اجتماعی اور پاکستان اور اس کے عوام کے لیے سوچے۔ تو امید ہے کہ وہی پاکستان کو بہت سے مسائل میں سے ایک عفریت لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے میں کامیاب ہو سکے گا۔لوڈ شیڈنگ کو مزید کن ذرائع سے کم کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے اگلی تحریر میں ذکر ہو گا۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: نومبر 30th, 2017
زمرہ: ابن ِ نیاز تبصرے: کوئی نہیں