سکول میں بھیجا والدین نے ہی ہو گا مگر والدین کے فیصلے کو درست ثابت ڈاکٹر صاحب نے خود کیا۔ اپنا دل تعلیم میں ایسے لگایا جیسے آج کل کے نوجوان عاشق صنفِ مخالف میں لگاتے ہیں۔ پاکستان بننے تک ہمارے علاقوں میں میٹرک اعلٰی تعلیم کہلاتی تھی اور اس ڈگری کے حامل افراد کو سترویں اٹھارویں گریڈ تک جاتے تو ہم نے 1980 کی دہائی میں بھی دیکھا ہے۔ پوری صدی قبل ایک لڑکے کا اپنے علاقے مین ایم اے کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایم اے کے بعد انھوں نے لیکچر شپ شروع کر دی تھی اوروہ چاہتے تو اسی نوکری پر باعزت زندگی گزار سکتے تھے مگر علم کے عاشق کو یہ گوارا نہیں تھا۔ علم کی پیاس انھیں یورپ لے گئی اور وہاں سے انھوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ بھی کرلی۔ڈاکٹریٹ کوئی معمولی بات نہیں۔ ہم طالب علم ہیں تو اندازہ ہو رہا ہے کہ ابھی اتنا مشکل ہے تو ایک صدی قبل جب نہ آج کی مانند ذرائع آمد و رفت اور نہ موجودہ دور کی انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی تو تب ڈاکٹریٹ کرنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہو گا۔ ۔ ایک صدی بعد بھی ہم لوگ ڈگری کے اس معیار پر نہیں پہنچے۔یورپ میں رہ کر کے طرزِ زندگی اورمادی ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
اقبال محض ڈگری یافتہ نہ تھے۔وہ حقیقی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لئے شاعر کو ذریعہ اظہار بنایا۔ شاعری کی اس معراج پر جا پہنچے کہ جہاں صرف میر اور غالب ہی براجمان تھے۔ اپنی شاعری سے انھوں نے قوم کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کمال ہی کر دیا۔ان کے اکثر اشعار قرآن و حدیث کی تشریح ہیں اور بعض اشعار اتنے جامع کہ ان پر پورے پورے مضامین لکھ لئے گئے مگر ان کا حق ادا نہیں ہوا۔ان کے اشعار اور تحاریر سے ان کی وسعتِ علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ فلسفہ میں تو ڈاکٹر تھے ہی مگر تاریخ پر ان کی گرفت کا اندازہ ‘شکوہ ‘ اور مسجدِ قرطبہ جیسی نظموں کے اشعار سے بخوبی ہوتا ہے اور اسلامی دنیا کے مسائل کا حل بھی ‘جوابِ شکوہ’ میں انھوں نے پیش کر دیا ہے۔ حالات ، حاضرہ پر بھی گہری نظر تھی- گوئٹے اور اپنے دور کے دیگر معروف شخصیات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی تھے۔حالاتِ حاضرہ پر ان کے عبور کی بہترین مثال ان کا مسلم لیگ کا صدر ہونا اور پھر ‘ تصورِ پاکستان’ پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کو مسلمانوں کی قیادت جاری رکھنے پر قائل کرنا بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔سو علامہ کے خطاب کے بھی وہ مستحق تھے۔
اقبال احسان فراموش اور محسن کش نہ تھے۔ جب انگریز حکومت نے انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ‘سر’ کے اعزاز کی پیشکش کی تو اقبال علامہ اقبال کو اپنے استاد یاد آ گئے کہ جن کی بدولت وہ اس مقام پر پہنچے۔ اعزاز کی وصولی کے لئے اپنے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دینے کی شرط عائد کر دی۔
اقبال نے دورِ جدید کے مسلمان کا تصور دیا کہ مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان کو شاہین سمجھتے تھے اور اسے خودی کا درس دیتے تھے۔اسے مایوسی اور ناامیدی سے نکالتے تھے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ دورِ جدید کے مسلمان کی عملی تفسیر تھے۔ انھوں نے یورپ کی سیر کی اوراسے قریب سےدیکھا مگر اس کی چکاچوند سے متاثر نہ ہوئے۔اسلام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہماری اکثریت جب یورپ جاتی ہے تو پہلی ضرب اس کے دین پر پڑتی ہے۔ جبکہ اقبال یورپ گئے تو اس کی خامیوں کو مسلمانوں پر اجاگر کیا۔ قناعت پسندی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ بطور وکیل مہینے میں ایک ہی کیس لیتے تھے تا کہ گھر کا نان نفقہ چلتا رہے۔روادار اور مذہبی آزادی کے قائل تھے۔ بچوں کی گرنس ایک غیر مسلم خاتونتھی مگر انھوں نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی بنیاد میں موجودہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے۔اس کے علاوہ بھی تحریکِ ازادی میں ان علاقوں کے رہنمائوں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا تاہم حیرت انگیز طور پرتحریکِ پاکستان کے سرخیل یعنی کہ پاکستان کا تصور دینے والے اور پاکستان بنانے والی دونوں شخصیات کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو پاکستان میں شامل ہوئے۔ اقبال قیامِ پاکستان سے قریب ایک عشرہ قبل ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر جب تک پاکستان ہے اور اردو زبان ہے اقبال امر ہے۔