گذشتہ روز سے تمام ٹیلی ویژن چینلز پر ایک ہی خبر ہے کہ قصور میں کسی درندہ صفت انسان نے ساتسال کی معصوم بچی زینب کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا اور اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی ہے۔ بہت ہی افسوس ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ہر دل سوگوار ہے۔ قصور میں مظااہرے جاری ہیں اور دو افراد ان کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر طرف سے واقعے کی مذمت جاری ہے اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ مطالبہ بالکل جائز ہے اور اس پر عمل در آؐمد بھی فوری ہونا چاہیے۔ سزا نہ دینے حکومت کا قصور ہے اور اس پر حکومت کو جولعن طعن کیا جا رہا ہے وہ اس کی سزاوار ہے مگر بطور معاشرہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں اس پر کسی کی نظر نہیں؟
قصور میں ہی کچھ عرصہ قبل لڑکوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنا کر ان کو اور ان کے والدین کو بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ بھی یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ایک سال کے دوران اسی قصور میں درجن بھر لڑکیاں اسی انجام سے دورچار ہوئی ہیں۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنی سزت کے ڈر سے ایسے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کرواتے۔ مزید براں ایسے واقعات میں اکثر متاثرہ فریق کے قریبی رشتے دار یا واقف کار ہوتے ہیں سو سماجی دبائو یا فریق ثانی کی برتر حیثیت یا مزید بچوں کی زندگی اور سلامتی کی خاطر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ زینب کی جو سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی ہے اس میں بھی دیکھا جا سکتاہے کہ بچی اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی اور خوشی سے جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ سات سال کی بچی کو کیا سمجھ کہ اگلا اسے کس مقصد کے لئے لے جا رہا ہے مگر لڑکی کی مرضی یہ بہرحال ظاہر کرتی ہے کہ بچی اس شخص سےواقف ہے ورنہ وہ زینب کو زبردستی یا بے ہوش کر کے لا جا رہا ہوتا۔
زینب کا واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ اب بچوں کے لئے محفوظ نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چہز حکومت پر ڈال دیتے ہیں اور اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ کبھی کسی شخص نے اپنی کمائی یا جمع پونجی گھر سے باہر یا سرِ عام رکھی ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے؟ پاکستان کو چھوڑیے کسی انتہائی امن و امان والے ملک میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ اپنی دولت اپنی متاؑ انتہائی احتیاط سے استعمال کی جاتی ہے اور اس کی حفاظت بھی اپنی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ اگر دولت کے معاملے میں رویہ ایسا ہے تو اولاد سے بڑھ کر کیا دولت ہو سکتی؟ اس دولتکو ہم دوسروں پر کیست چھوڑ سکتے ہیں؟ ہمیں خود ہی ان کلیاں کو خیال رکھنا ہو گا ورنہ آندھیاں تو چلتی ہی رہیں گی۔
پہلا کام جو والدین کے لئے از حد ضروری ہے وہ یہ کہ اولاد سے دوستانہ تعلق قائم کریں۔ بیٹا یا بیٹی ان سے کوئی بات کرتے ہوئے جھجکے ناں۔ اس کے ساتھ کوئی بھی واقعہ ہو اسے اعتماد ہو کہ اس کے والدین اس کا ساتھ دیں گے۔ جو والدین بچوں سے فاصلہ رکھتے ہیں اور بچے انھیں اپنے مسائل بتانے میں گھبراتے ہیں اور انھیں ڈانٹ یا مار پیٹ کا ڈر ہوتا ہے ، والدین کو ان کی حالتِ زار کا علم تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
بچوں کو جسم اور جنسی معاملات کی تعلیم والدین کو دینی چاہیے۔ اس موضوع پر بات کرنا ہی ہمارے ہاں گالی سمجھا جاتا ہے مگر اب دس بارہ سال کےبچوں کو وہ چیزیں معلوم ہیں کہ جو کچھ عرصہ قبل تک شادی کی عمر کے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ہمارے ہاں بچوں کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں سے چیزیں نہیں لینی، مہمانوں سے پیسے نہیں لینے مگر یہ کوئی نہین بتاتا کہ اگر کوئی بچوں کے جسم کو بالخصوص جنسی اعضاء کو بار بار چھوئے تو اس بندے سے بچنے کی کوشش کریں۔ انھیں سمجھائیں کہ اگر ایسا کچھ ہو تو اس کے متعلق اپنے گھر والوں اور اساتذہ کو بتائیں۔
اس کے علاوہ بچوں/بچیوں کے موبائل،کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ پر نظر رکھیں۔ اگر اس نے پاس روڈلگایا ہوا ہے تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ اس کے پاس ایسا کون سا مواد ہے کہ جو وہ چھپانا چاہتا ہے۔اس بات کو ہلکا نہ لیں۔ اس کےعلاوہ بھی گاہے بگاہے ان چیزوں پر دیکھیں۔ وہ کون سی ویب سائٹس کھولتاہے؟ یہ دیکھنا ضروری ہے؟ اس کے علاوہ پورن اور جنسی معاملات والی سائٹس سیٹنگز کر کے روکیجا سکتی ہین سو بچوں کے انٹرنیٹ کو محدود ہی رکھیں۔ اگر آپ خود سیٹنگ نہیں کر سکتے تو کچھ رقم دے کر کمپیوٹرکے کسی ماہر سے یہ کام کروا لیں۔ یہ پیسے آپ کے بچے کے مستقبل کے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کے دوستوں پر نظر رکھیں۔ کون لوگ اس سے ملتے ہیں۔ موبائل پر اسےکن کے فون آتے ہیں۔ آپ خود ان سے باتکر کے تسلی کریں اور اگر ممکن ہو تو ایک بار خود بچے/بچی کے دوستوں کے گھر جائیں اور انھیں بھی اپنے ہاں مدعو کریں۔ اس سے دونوں بچوں کو معلوم ہو گا کہ ہمارے والدین ہم پر نظررکھے ہوئے ہیں اور وہ احتیاط کریں گے۔
ان واقعات کی ایک بڑی وجہ ہمارا میڈیا بھی ہے۔ یہ میڈیا دو دہھاری تلوار ہے۔جنسی بے راہ رویکے واقعات کی بڑی وجہ یہی ہے۔ہمارے ڈرامے اور پروگرام ہمارے تمدن کے بالکل برعکس ہیں ۔جیسا لباس اور کھلا ڈلا ماحول ان ڈراموں مین دکھایا جاتا ہے یہ ہمارے ہاں دو فیصدلوگوں کا بھی نہیں۔ اس کے علاوہ بیڈروم کے سینز اور رومانٹک سین ایسے ہوتے ہین کہ وہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ناممکن ہے۔ ان سے بڑوں میں بھی ہیجانی جذبات پیدا ہو جاتے ہیں تو بچے جوکہ زیادہ متجسس ہوتے ہیں وہ ان سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ سو اپنے بچوں کو ایسے ڈراموں اور پروگراموں سے دور رکھنا بھی آپ کی اولین ذمہ داری ہے۔ اب مزے کی بات دیکھیں کہ یہی میڈیا اب زینب کا وکیل بنا ہوا ہے اور پوری قوم کو آگے لگایا ہوا ہے
میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 11th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: ایک