تحریر: ابنِ ریاض
فیس بک پر ایک پوسٹ لگی ہے کہ گذشتہ ادوار میں تعلیمی سہولیات انتہائی محدود تھیں مگر طلباء کی تربیت بہت اعلٰی اور معیاری ہوتی تھی جبکہ اب عمارات تو بہت شاندار ہو گئی ہیں مگر تربیت کا فقدان ہے۔ اس کا مشاہدہ ہمیں ہر شعبے میں ہوتا ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے کے اساتذہ اور آج کے اساتذہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے اساتذہ بورڈ کے طلباء کو سکول کے بعد مفت پڑھاتے تھے کہ ہمارے بچے بورڈ میں اچھے نمبر لیں اور اساتذہ کا نام روشن کریں جبکہ اب اساتذہ کا بھی اولین مقصد ٹیوشن پڑھانا ہے۔ ڈاکٹر اور طبیب اپنے شعبوں کو انسانیت کی خدمت کا ذریعہ سمجھتےتھے۔ غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ذرائع آمد و رفت محدود تھے اور بعض اوقات مریض کی حالت ایسی نہیں ہوتی تھی کہ اس کو ڈاکٹرکے پاس لے کر جایا جائے تو بوقت ضرورت یہ لوگ مریض کو دیکھنے دوردراز کے گائوں میں بھی جاتے تھے۔آج کے ڈاکٹرز اپنی تنخواہوں میں اضافےکےلئے اس حد تک احتجاج کرتے ہیں کہ کئی مریض ڈاکٹرسے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
سیاست کے میدان میں دیکھیں تو جتنی ترقی پاکستان نے 1980 کی دہائی تک کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوریا جیسے ممالک ہماری ترقی کے ماڈل پر عمل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم ہیں کہ الٹا سمت میں گامزن ہیں۔ مطلب واضح ہے کہ ہمارے پرانے سیاست دان ملک کے لئے زیادہ مخلص اور ایمان دار تھے۔ پی آئی اے کا شمار دنیاکی پانچ بہترین ایئر لائنز میں ہوتا رہا ہے اور اب اس کی داستان تک نہیں ہے داستانوں میں۔ ہمارے فنون لطیفہ ، ڈرامہ اور فلم عالمی معیار کی تھی۔ہمارے ڈرامے چلتے تھے تو پڑوسی ملک کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ہماری پرانی فلموں کے گانے آج بھی بھارت میں نقل ہو رہے ہیں جبکہ وہ انتہائی محدود بجٹ اور وسائل کی فلمیں تھیں۔ کھیلوں میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا۔ ہاکی میں قدرتی گھاس پر تو پاکستان کو ہرانا ہی مشکل تھا۔ 1968میں آسٹروٹرف یعنی کہ مصنوعی گھاس آئی مگر 1990 تک پاکستان ایک دو آسٹروٹرف ہونے کے باوجود دنیاکی بتر ین ٹیم رہا۔ سکواش میں چند کورٹس ہونے کے باوجود نواکلی کے ایک خاندان نے قریب چالیس سال تک ساری دنیا پر راج کیا۔کرکٹ میں بھی پاکستان کے سب عظیم کھلاڑی آج سے بیس سال قبل ہی ٹیم کا حصہ بنے۔
درج بالا شعبوں میں موجود افراد کے پاس بچپن میں کوئی خاص ذرائع تعلیم نہ تھے۔ ان میں سے اکثریت ٹاٹ کے سکولوں میں اور رات کو لالٹین کی روشنی میں پڑھی۔اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کی بھی یہی حالت تھی۔ فنون لطیفہ اور اداکاری کی کوئی اکیڈمی نہیں تھی۔کھیلوں کے مواقع انتہائی محدود تھے۔اس کے باوجود ان لوگوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس کی سب سے اہم اور بڑی وجہ ان کی اچھی تربیت اور محنت تھی۔ تربیت کے دو بڑے ذرائع اساتذہ (مذکورہ شعبوں کے)اور گھر کا ماحول تھے۔
ڈاکٹر اقبال اپنی کامیابی کی وجہ اپنے استاد شمس العلماء مولوی میر حسن کو قرار دیتے ہیں۔ استاد ہی آپ کو انسان بناتا ہے اور اپنے میدان میں آگے بڑھنے کے طریقے سکھاتا ہے۔گزرے دنوں میں والدین ہمیں سکول لے جا کر استاد کے سامنے کھڑا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بچہ آپ کے حوالے۔ آج سے ہڈیاں ہماری ہیں اور گوشت آپ کا۔ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اسے سکھانے کے لئے اگر سختی کی ضرورت پڑے تو بلا ضرورت دو چار لگا دیجیے گا بس ہڈیاں نہیں توڑنی۔ اس کا مقصد استاد کا احترام بچے کے دل میں بٹھانا مقصودہوتا تھا۔اگر کسی بچے کی شکایت گھر آتی تو اس کی چھتر پریڈ پہلے ہوتی اور وجہ بعد میں پوچھی جاتی۔ بچہ استاد کی بات کو بھی والدین کی بات سمجھ کر عمل کرتا تھا۔ یہی وجہ اس کی عملی زندگی میں کامیابی کی ہوتی تھی۔
اب ماحول تبدیل ہو چکا ہے۔ اب تعلیم بھی کاروبار بن چکی ہے۔ سکول اب ‘اونچی دکان،پھیکا پکوان’ ہیں اور اونچی دکان کے ہی وہ پیسے لیتے ہیں۔ ہزاروں روپے ماہانہ دینے والے والدین اپنے بچوں کو مار پیٹ کیوں کرنے دیں گے؟ اور سکول والوں کو بھی چونکہ فیس سے مطلب ہے تو وہ بس کورس ہی مکمل کرواتے ہیں کہ انھوں نے اسی کے پیسے لئے ہیں۔ بچے اخلاقی انحطاط کا شکار ہوں یا سگریٹ چرس کے عادی یا موبائل پر پیار کی پینگیں بڑھائیں، یہ سکول کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ سو ایک وجہ کہ ہمارا آج کا تعلیم یافتہ فرد بھی محض ڈگری یافتہ ہے ‘ہی ہے۔
سکول اور کالج میں بچے چھ گھنٹے گزارتے ہیں اور بقیہ اٹھارہ گھنٹے گھر میں۔ ماں کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے اور اس کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔ مگر ہم والدہ کی بجائے والدین کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اب گھر بچوں کی تربیت گاہ نہیں رہے۔ اب معاشی مسائل اور بلند تر معیارِ زندگی کی جستجو نے میاں بیوی دونوں کو بہت مصروف کر دیا ہے۔ اگر بیوی نوکری نہیں بھی کر رہی تو بھی گھر میں سلائی کڑھائی، ٹیوشن اور گھر داری میں مصروف ہے سو بچوں کو مکمل وقت دینا اس کے لئے ممکن نہیں ۔ یہ مسئلہ پہلے بھی تھا مگر خاندانی نظام میں اس کا اتنا احساس نہیں ہو پاتا تھا۔ اب بچے اور پھر ان کے بچوں کے باعث ایک گھر میں رہنا ممکن نہیں۔ مشترکہ نظام میں بچوں کی تربیت دادا دادی اور کہیں کہیں نانا نانی کے ذمے ہوتی تھی۔ بچے ان کے پاس ہی رہتے تھے کہ والدین مصروف ہوتے تھے۔ یہ بزرگ غیر محسوس طریقے سے بچوں کو نماز قرآن کے ساتھ ساتھ کہانی سناتے ہوئے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی حیات طیبہ،اٹھنے بیٹھنے کے آداب ، بڑوں سے باپ چیت اور دیگر باتیں سکھا دیتے تھے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ بچے صرف باتوں سے نہیں سیکھتے بلکہ عمل دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ جوانی کیسی بھی ہو بڑھاپے میں ہمارے لوگوں کی اکثریت کسی حد تک تبدیل ہو جاتی ہے۔ سو جب بزرگ بچے کے سامنے سچ بولتے، نماز پڑھتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو بچوں میں بھی کسی حد تک یہ خوبیاں پیدا ہو جاتی تھیں۔ معاشرے سے بچہ کچھ الٹا سیدھا سیکھ کر آتا تو بزرگ اپنے تجربے اور انداز سے اسے ایسے سمجھاتے کہ وہ سمجھ جاتا۔کچھ بچتا تھا تو وہ اساتذہ سکھا دیتے تھے۔
اب اساتذہ کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں ‘مار نہیں پیار’ کے نعرے سے۔( اساتذہ کے غیر انسانی تشدد کی وکالت نہ سمجھا جائے اسے) ۔ بھلے مارا نہ جائے مگر بچوں کو بعض معاملات میں ڈرانا دھمکانا بہت ضروری ہوتا ہے سو یہ چھ گھنٹے والی تربیت تو گئی۔باقی اٹھارہ گھنٹے والی مشترکہ خاندانی نظام کے خاتےس کے ساتھ اپنی موت آپ مر گئی۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ٹھیک خطوط پر تربیت کریں ۔ ان کو جنت کی کنجی مفت میں نہیں بنایا گیاہے۔ اولاد کی اچھی تربیت انھی کے ذمہ ہے۔ تربیت کا تعلق عمارتوں، انفراسٹرکچر اور جدید وسائل سے نہیں ہوتا۔یہ تو انبیاء کا کام رہا ہے اور اس کی بنیاد اب بھی وہی ہےجو ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے۔ ہم اس سےمنہ موڑیں گے تومستقبل میں ایک پڑھی لکھی مگرآوارہ بد اخلاق قوم ہی ہمارا مقدرہو گی۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 27th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: ایک