امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس سے اسلامی دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یروشلم مسلمانوں کے لئے ایک مقدس مقام ہے کہ اس میں بیت المقدس ( یعنی مسجدِ اقصٰی ) موجود ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے لئے اہم اس لئے ہے کہ خانہ کعبہ سے قبل یہ مسلمانوں کا قبلہ تھا اور مسلمان ابتدائے اسلام میں اسی سمت میں نماز ادا کرتے تھے۔ مزید براں شب معراج اسی مسجد میں بنی کریم ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کی تھی۔ ان تین مساجد میں شامل ہےکہ جن کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کے دور میں مسلمانوں نے پہلی بار اس علاقے کو فتح کیا سو اسلام کی تاریخ میں بھی یہ علاقہ اور مسجد بہت اہم ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہ مقام یہودیوں کے لئے بھی بہت مقدس ہے کیونکہ حضرت سلیمان علیہ سلام نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر یہیں کی تھی۔ علاوہ ازیں حضرت عیسٰی کی پیدائش کی باعث یہ مقام نصرانیوں کے لئے بھی بہت محترم ہے۔اسرائیل کا یروشلم کو دار الحکومت بنانا زیادہ باعثِ تعجب نہیں مگر امریکہ کا اس کو تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ کھولنے کے اثرات معمولی نہیں ہیں۔ اس فیصلے کو کئی ہفتہ گزر چکے ہیں مگر اس وقت تک ترکی کے علاوہ کسی مسلمان ملک نے کوئی خاص آواز نہیں اٹھائی-
سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے امریکہ کو حمایت حاصل نہیں ہوئی مگر مسلم ممالک کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی غلط فہمی کا شکار ہونا چاہیے۔اس سے قبل عراق پر امریکہ کے دوسرے حملے پر نا صرف پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرےہوئے تھے بلکہ چین اور روس نے تو حملے کی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے قرارداد واپس لے لی اور بغیر اقوام متحدہ کی منظوری کے عراق پر چڑھائی کر دی تھی۔اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ سبھی مسلمان ممالک ان کے دستِ راست ہیں۔ پاکستان اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔مگر پاکستان معاشی معاملات میں مشکلات کا شکار ہے۔ اربوں ڈالرز کا مقروض ہے اور قرضوں کے بغیر اس کا چلنا مشکل ہے۔ مزید براں فوج بھی اندرونی و بیرونی محاذوں پر برسرِ پیکار ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اسلامی ممالک کی تھوڑی بہت اہمیت تھی۔ کیونکہ ان کا آپس میں اتحاد تھا اور تیل کو وہ بطور ہتھیاراستعمال کر سکتے تھے۔ اب مشرقِ وسطٰی والے خود کئی معاملات میں منقسم ہیں اور تیل کی قیمت بھی عالمی منڈی میں بہت کم ہے اور ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ٹرمپ نے سعودی عرب سے دفاعی معاہدوں کی مد میں کوئی چار سو ارب ڈالرز نکلوا کر عربیوں کی حالت مزید مخدوش کر دی ہے۔ مزید براں عرب حکومتوں نے کوئی عملی اقدام کرنے کی کوشش کی تو امریکہ نے فوراً کہنا ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت نہیں اور ان حکومتوں کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو تمام حکومتوں کے غباروں میں سے ہوا نکل جائے گی۔ تاحال ترکی نے ہی اس اقدام پر اپنا سخت موقف دیا ہے اور مزید کسی سے توقع کی امید بھی نہیں ہے۔ عرب لیگ نے مذمت کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھی اس سے زیادہ کچھ کر نہیں سکتی۔ باقی اسلامی ممالک نے بھی اگر انفرادی طور پر کچھ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ بھی بیان دینے بلکہ مذمت کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یوں بھی مذمت بڑی زبردست چیز ہے کہ اس کے بعد بندہ ہو یا حکومت ہر گناہ اور زیادتی سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک چھیالیس ممالک کا اتحاد بھی ہے مگر ابھی وہ نوزائیدہ حالت میں ہے۔ اگر جوان بھی ہوتا تو یہ معاملہ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ غیر مسلم جارحیت پسندوں سے نمٹنے کے لئے۔ یہاں بے اختیار صدام حسین یاد آتے ہیں کہ جنھوں نے 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران اسرائیل پر کئی سکڈمیزائل پھینکے تھے۔ اس وقت تو شائد ہی کوئی حکمران ہو جو اسرائیل پر غلیل سے حملہ کرنے کی بھی جرات رکھتا ہو۔
اگرہم ٹھنڈے دل سےغور کریں تو یہ کوئی نیا اورعجیب واقعہ نہیں ۔ پچھلے دو عشروں کے دروان ہی ہم نے سقوطِ بغداداور سقوطِ کابل دیکھا ہے اور ان ممالک پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور یہ دفاعی لحاظ سے اسلام کے مضبوط ممالک میں شمار ہوتے تھے مگراب عراق اور افغانستان عملی طور پر غیر ملکی قبضے میں ہیں اور ہم پچھلے پندرہ برس سے سکون میں ہیں۔ جبکہ یروشلم اور فلسطین پر تو پچھلے ستر برس سے صیہونی قبضہ ہے مگر اب انھوں نے ایک حرکت کی ہے تو مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے مگر غالب امکان یہی ہے کہ یہ بھی وقتی ابال ہی ثابت ہو گا اور پھر ہم اس کے بھی عادی ہو جائیں گے۔
درج بالا صورت حال بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں بلکہ بہت حد تک مایوس کن ہے اور جذباتی عوام کو ویسے بھی اس سے سروکار نہیں۔ انھیں کوئی رہبرملنے کی دیر ہے اور انھوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے۔ کسی ادارے ، کسی عمارت، کسی دفتر، کسی سرکاری گاڑی اور کسی سڑک کو سلامت نہیں چھوڑنا گویا کہ قصور یہودیوں کا اور ہماری نادانیوں کا نہیں بلکہ ان بے جان اشیاء کا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ سب عمارتیں، ادارے اور سڑکیں یہودیوں کی ہوں گی اور نہ امریکہ کی بلکہ مسلمان ملکوں کی اپنی ہوں گی۔یہ سب وہ ہو گا کہ جو ان کے ٹیکسوں کے پیسوں سے بنا ہو گا۔ بعض نقصان ایسے ہوں گے کہ جن کو پوراکرنے کے لئے پھر غیرمسلم ممالک سے ہی ماہرین بلوانے پڑیں گے۔ احتجاج کرنا حق ہے مگر ہم نے آج تک کمزور کو احتجاج سے حق ملتے دیکھا نہیں ہے۔ بلکہ احتجاج محض اپنی کمزوری ثابت کرنے کا نام ہے۔ہم نے نہیں دیکھا کہ کبھی مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں گستاخِ نبی ﷺ کو احتجاج کر کے قائل کیا ہو۔ اس کا سر کچل دیا جاتا تھا۔امریکہ نے نائن الیون کے بعد کون سا احتجاج کیا۔ پاکستان اور افغانستان کو احکام دیئے اور حکم عدولی کی صورت میں نتائج بھگتنے کی تنبیہہ کی اورپھر ہوا وہی جو امریکہ نے چاہا۔
اس سب کے باوجود احتجاج ہونا چاہیے مگر اشیاء توڑنا اور فیس بک پر پوسٹیں لگا دینے سے غیر مسلموں کو کیا نقصان ہو گا؟ احتجاج وہی سریع اثرہوتا ہے کہ جس کو مخالف کو جسمانی زک پہنچے۔ جسمانی زک پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کی مدد کی جائے جو فلسطینیوں کو ہتھیار لے کر دیں اور مالی نقصان پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی مصنوعات کا استعمال کم سے کم کر دیا جائے ظاہر ہے کہ مکمل بند کرنا تو ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمان ملک شاید ہی کوئی چیز بناتے ہوں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ نہیں سوچنا کہ میرے کرنے سے کیا ہو گا؟ باقی لوگ تو استعمال کر رہے ہیں بلکہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور ہر ایک کو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے تبھی کچھ حاصل ہو گا ورنہ حاصل وصول سب صفر۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 28th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں